ہم جنس سے شادی: پاکستانی کے خلاف مقدمے کی درخواست

پاکستان کے سندھ ہائی کورٹ میں سویڈن میں پاکستانی شہری کی جانب سے ہم جنس یا دوسرے مرد سے شادی کرنے کے خلاف درخواست دائر کی گئی ہے جس میں محمد یعقوب نامی شہری کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
یونائیٹڈ ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے رہنما محمد عمران شہزاد نے اس آئینی درخواست میں پاکستان کی وزارت خارجہ، داخلہ، اور وزارت مذہب امور کے ساتھ سندھ کی حکومت کو فریق بنایا ہے۔
ہمارے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق درخواست گزار کا موقف ہے کہ پچھلے دنوں محمد یعقوب نامی پاکستانی شہری نے سویڈن میں غیر اسلامی طور پر ایک مرد سے شادی کی ہے اور اس پوری صورتحال میں پاکستان کے سفیر نے خاموشی اختیار کی اور وہ اسلامی نظریات کی تبلیغ میں ناکام رہے۔
درخواست میں سویڈیش حکام کی طرف سے جاری ان دونوں مردوں کا میریج سرٹیفیکیٹ بھی پیش کیا گیا ہے جس میں تحریر ہے کہ سویڈیش قانون کے باب تین اور چار کے تحت اسداللہ محسود اور محمد یعقوب کی شادی رجسٹر کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ محمد یعقوب کی جانب سے اسداللہ محسود کو انگوٹھی پہنانے اور اسداللہ کی سرخ لباس میں زیوارت کے ساتھ تصاویر بھی پیش کی گئی ہیں۔
درخواست میں مذہبی اور آئینی حوالوں سے ہم جنس پرست شادی کی مخالفت کی گئی ہے اور عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ اسلامی نظریات کی خلاف ورزی پر محمد یعقوب کے خلاف مقدمہ درج کرکے اس کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے جائیں۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ پاکستان کا قیام اسلامی نظریات کی بنیاد پر ہوا وزارت خارجہ کو ہدایت کی جائے کہ وہ سویڈن میں پاکستانی شہری کی ہم جنس شادی کی مذمت کرے اور اس شادی کو پاکستان کی نظریات کے منافی قرار دے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کے سفیروں کو پابند کیا جائے کہ وہ اسلام اور پاکستان کی نظریات کی تبلیغ کریں ۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس احمد علی شیخ اور جسٹس عزیز الرحمان پر مشتمل بینچ کے روبرو اس درحواست کی سماعت 19 جون کو ہوگی، جس کے لیے فریقین کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل لندن میں پاکستان کی دو لڑکیوں ریحانہ کوثر اور صوبیہ نے برطانوی قانون کے تحت شادی کرلی تھی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق انہوں نے رجسٹرار کو بتایا تھا کہ ان کی تین سال قبل ملاقات ہوئی تھی وہ ساتھ پڑھتی تھیں۔ لڑکیوں کے رشتے داروں کا کہنا تھا کہ انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
امریکی تحقیقاتی ادارے پی ای ڈبلیو ریسرچ سنٹر نے گزشتہ ماہ ہم جنس پرستی کو قبول نہ کرنے والے ممالک کے بارے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں صرف دو فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ معاشرے میں ہم جنس پرستی کی اجازت ہونی چاہیے۔
پاکستان اور اسلامی قوانین کے تحت ہم جنس پرستی ایک ناقابل معافی جرم ہے جس کی سزا کم سے کم دس سال ہے۔انٹرنیٹ کے انقلاب کے بعد نوجوانوں کے ذہنوں میں تبدیلی آئی ہے اور یہاں مغربی خیالات بھی پروان چڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مدر جونز نامی تحقیقاتی ادارے کا دعویٰ ہے کہ سرچ انجن گوگل کے رجحان کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ ہم جنس پرستی کی سیکس ویب سائٹس کی تلاش کی جاتی ہے۔







