سندھ کی تقسیم کی مخالفت

،تصویر کا ذریعہBBC World Service
- مصنف, جعفر رضوی
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
سندھ کی قریباً تمام ہی سیاسی جماعتوں نے صوبے کی لسانی یا انتظامی بنیادوں پر تقسیم کی مخالفت کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ایسا کیا گیا تو سندھ کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
قریباً دس روز پہلے امریکی شہر نیویارک میں متحدہ قومی موومنٹ یا ایم کیو ایم کے کچھ سابق وزراء، کچھ سابق اراکین اسبملی اور بعض سابق اراکین رابطہ کمیٹی نے سندھ کو انتظامی بنیادوں پر تقسیم کرکے علیحدہ صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا تھا، جس کا نام ان افراد نے جنوبی سندھ تجویز کیا تھا۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ نئے صوبے کی جغرافیائی حدود کیا ہوسکتی ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے ان سابق منتخب نمائندوں کا کہنا تھا کہ ’سندھ میں شہری علاقوں کی آبادی پچاس فی صد سے زیادہ ہے اور سندہ کی شہری آبادی سندھ کے محصولات کا پچانوے فی صد سے زیادہ حصہ پیدا کرتا ہے لیکن اختیارات میں اس کا حصہ پانچ فی صد سے بھی کم ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ سندھ کے شہری عوام کو دیوار سے لگایا جارہا ہے، وہ موجودہ نظام اور حکومتی ڈھانچے سے مایوس ہوچکے ہیں اور اب اپنے حقوق کے حصول کے لیے نئے صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما اور سندھ کے صوبائی وزیر فیصل سبزواری نے اس مطالبے سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اسے بعض افراد کی رائے قرار دیا ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم سندھ کی تقسیم کی مخالف ہے اور کسی بھی طرح صوبے کو تقسیم نہیں کرنا چاہتی۔
لیکن اس سوال پر کہ نئے صوبے کا مطالبہ کرنے والے یہ بعض سابق رہنما اب بھی ایم کیو ایم کے کارکن تو ہیں، فیصل سبزواری نے کہا کہ یہ ان کی رائے ہوسکتی ہے متحدہ قومی ممومنٹ کا کوئی موجودہ رکن اسمبلی، رہنما، کارکن ایسی بات کرے تو پھر ایم کیو ایم کی ذمہ داری ہوگی، ابھی کسی بھی طرح یہ ایم کیو ایم کا موقف ہرگز نہیں۔ ایم کیو صوبے کو یگانگت اور مفاہمت سے آگے لے جانا چاہتی ہے، تقسیم سے نہیں۔ تقسیم نصان دہ ہوگی۔
عوام نیشنل پارٹی (اے این پی) سندھ کے سیکرٹری جنرل بشیر جان نے بھی سندھ کی تقسیم کی مخالفت کی اور کہا کہ پاکستان میں تمام صوبے لسانی بنیادوں پر بنے ہیں۔ ان صوبوں نے پاکستان بنایا ہے۔ جب پاکستان بنا تو سندھ صوبے کی علیحدہ حکومت تھی، انتخابات ہوتے تھے، اسمبلی تھی، صوبۂ سرحد کی الگ حیثیت تھی اور صوبۂ پنجاب بھی موجود تھا۔ تو ان صوبوں نے پاکستان بنایا۔ پورا ملک لسانی بنیاد پر تقسیم صوبوں پر قائم ہے تو سندھ میں انتظامی بنیادوں پر تقسیم کیسے ہوسکتی ہے۔ ہاں اگر کوئی لسانی بنیاد پر تقسیم چاہتا ہے تو پاکستان کا آئین موجود ہے جو بھی آئینی طریقۂ کار موجود ہے اس کے تحت اگر کوئی پیشرفت ہوتی ہے تو ٹھیک ہے۔
سندھ کے قوم پرست جماعت جئے سندھ قومی محاذ کے قائم مقام سربراہ نیاز کالانی نے کہا کہ وہ بھی سندھ کی تقسیم کے زبردست مخالف ہیں انہوں نے سندھ کی تقسیم کو پنجاب کی سازش قرار دیا اور کہا کہ کسی میں ہمت نہیں کہ سندھ کی تقسیم کی بات کرے۔ سندھ کو پنجاب نے پاکستان کے نام پر غلام بنا رکھا ہے۔ انگریز نے سندھ کو الگ ملک کی حیثیت سے فتح کیا تھا۔ سندھ صوبہ نہیں ہے ملک ہے۔ جب ہمارے سندھ پر اپنا اختیار نہیں ہے تو ہم یہ کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ اس کا کچھ حصہ کسی اور کے حوالے کردیں۔
نیاز کالانی نے کہا کہ پنجاب میں اگر سرائیکی صوبے کی بات ہورہی ہے تو وہ اس لیے درست ہے کہ سرائیکی ایک علیحدہ قوم ہیں ان کی پنجاب سے جداگانہ حیثیت ہے وہ صدیوں سے الگ ہیں۔ اور یہ جو کل آئے ہیں اس معاہدے کے تحت نہیں آئے کہ سندھ کو بانٹیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما بشیر جان نے بھی کہا کہ سرائیکی علیحدہ قوم ہیں جن کی جداگانہ حیثیت ان کی جماعت روز اوّل ہی سے تسلیم کرتی ہے۔ لیکن جنوبی سندھ یا کراچی جیسے علاقوں میں ایک قوم آباد نہیں۔ یہاں ہندستان ہی کے مختلف علاقوں اتر پردیش، بہار، دہلی، رام پور، کلکتہ کے لوگ بھی ہیں۔ ہم پشتون بھی ہیں پنجاب سے بھی لوگ آکر رہے ہیں۔ یہ ایک قوم نہیں ہیں لہٰذا جنوبی سندھ کو لسانی بنیاد پر بھی تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ بشیر جان نے کہا جو لوگ ہندستان سے آئے پاکستان پر ان کا حق سب سے زیادہ ہے لیکن اب وہ سندھ میں ہیں تو سندھی ہیں۔ اب وہ مہاجر نہیں۔ مہاجروں کے لیے کیمپ ہوتے ہیں وہ صوبوں کا مطالبہ نہیں کرتے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
لیکن ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری نے اس معاملے پر کہا کہ لوگ ان سے بعض سوالات کرتے ہیں کہ ٹنڈو بہاول میں ماورائے عدالت قتل ہو تو فوجی افسر ملزمان کا کورٹ مارشل ہوجاتا ہے۔ مگر ہمارے جو ہزاروں افراد ماورائے عدالت مارے گئے کیا وہ پاکستانی نہیں تھے۔
انیس سو نوے کی دہائی میں ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کرکے مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی) بنانے والے آفاق احمد بھی سندھ کی تقسیم کے مخالف تو ہیں مگر اس تنازع کا ذمہ دار قومی قیادت کو قرار دیتے ہیں۔ جب صدر اور وزیراعظم لسانی بنیاد پر سرائیکی صوبہ بنوانے کی بات کریں گے تو سندھ کے لوگوں کے مطالبے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ آفاق احمد نے کہا کہ سندھ کی تقسیم سے پاکستان کا نقصان ہوگا وہ لسانی بنیاد پر تقسیم کے حامی ہرگز نہیں۔ مگر انتظامی بنیاد پر تقسیم کرکے بہتر انتظام کاری میں کوئی قباحت نہیں۔ اس کے باوجود معاملے کو پارٹی کی سینٹرل کمیٹی میں بھی رکھا ہے اور بزرگ ارکان سے بھی رائے کی درخواست کی ہے جس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
سندھ میں ایک اور صوبے کے قیام کے لیے چلائی جانے کے معاملے پر سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر بھی حق اور مخالفت میں تبصرے جاری ہیں۔ چند لوگوں کا خیال ہے کہ تحریک سے سندھ میں بسنے والے مہاجروں اور سندھیوں کے درمیان خلیج پیدا ہوگی جو خطرناک رخ اختیار کرسکتی ہے جبکہ چند افراد کا موقف ہے کہ سرائیکی یا جنوبی پنجاب میں الگ صوبے کے قیام پر بات ہوسکتی ہے تو مہاجر صوبے پر کیوں نہیں ہوسکتی۔







