پاکستان: سینیٹ کے لیے نئے قواعد کی منظوری

،تصویر کا ذریعہBBC World Service
- مصنف, اعجاز مہر
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ نے ایوان کی کارروائی چلانے کے لیے نئے قواعد کی منظوری دی ہے جس کے تحت ایوان کی کمیٹی کو کسی شخص یا دستاویز طلب کرنے کے لیے سول کورٹ کے اختیارات دیے گئے ہیں۔
’کوڈ آف سول پروسیجر1908‘ کے تحت ایوان کی کمیٹی کو جو اختیارات دیے گئے ہیں اس کے تحت طلب کیے جانے والے شخص یا دستاویز پیش نہ کرنے والے فرد کے ناقابل ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری کرنے اور انہیں حراست میں رکھنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔ لیکن اس اختیار کے تحت کسی فوجی کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی۔
سینئیر سول جج محمد شریف قریشی کے مطابق ’سی پی سی‘ کے تحت جو اختیارات ہیں اس میں پہلے کسی بھی شخص یا دستاویز پیش کرنے کے لیے متعلقہ فرد کو سمن جاری کیا جاتا ہے اور سمن تکمیل ہونے کے بعد اگر وہ شخص حاضر نہ ہو تو انہیں گرفتار کرنے کے لیے قابل ضمانت یا ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے جاتے ہیں۔
ان کے بقول اس قانون کے تحت متعلقہ شخص کو شواہد کے حصول تک زیرِ حراست رکھنے یا توہین عدالت کے تحت چھ ماہ تک قید کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت سول کورٹ کو کسی فوجی افسر کو طلب کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔
سینیٹ کے قواعد سنہ انیس سو اٹھاسی میں بنائے گئے تھے جنہیں تبدیل کرکے نئے قواعد منظور کیے گئے ہیں۔ نئے قواعد کا مقصد پارلیمان کی بالادستی قائم کرنے، اپوزیشن لیڈر کی شفاف تعیناتی، وزراء کو ایوان میں جوابدہ بنانے اور پارلیمانی کارروائی کو مؤثر طور پر چلانا بتایا گیا ہے۔
دو سو ستر نکات پر مشتمل نئے قواعد کے مطابق سینیٹ کی کسی کمیٹی کے چیئرمین کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ چیئرمین سینیٹ کی پیشگی منظوری کے بعد وزیر کے علاوہ کسی بھی حکومتی اہلکار کو طلب کرسکتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر کمیٹی کے اجلاس میں متعلقہ وزارت، ڈویثرن کے سیکرٹری یا کسی محکمے کے سربراہ پر خود پیش ہونا لازم ہوگا۔
اپوزیشن لیڈر وہی ہوگا، جسے اپوزیشن کے اراکین کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو۔ اگر دو افراد ایسے ہوں جنہیں برابر ووٹ ملیں تو اس صورت میں امیدواروں میں سے جس جماعت کے ووٹ زیادہ ہوں گے انہیں فوقیت دی جائے گی۔
فاٹا سمیت کہیں سے بھی آزاد حیثیت میں منتخب سینیٹر کو حلف کے سات روز کے اندر حکومت یا اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ وہ کسی بھی وقت سینیٹ سیکرٹری کو تحریری طور پر مطلع کرنے کے بعد حکومت یا حزب مخالف میں بیٹھ سکتے ہیں۔ فاٹا سمیت آزاد اراکین کم از کم پانچ سینیٹر پارلیمانی گروپ بنا سکتے ہیں۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
نئے قواعد کے تحت اگر کوئی سینیٹر استعفیٰ دیں تو چیئرمین سینیٹ متعلقہ رکن سے تصدیق کے بعد ان کا استعفیٰ قبول کریں گے۔ جس وزیر یا مشیر کے نام سے ایجنڈے میں کوئی نکتہ ہوگا، انہیں متعلقہ ایوان کی کارروائی ختم ہونے تک ایوان میں لازمی طور پر موجود رہنا ہوگا۔
نئے قواعد میں ایوان کی کارروائی کے آخر میں نصف گھنٹہ ’زیرو آور‘ کہلائے گا جس میں اراکین اہم معاملات پر بات کرسکتے ہیں۔ کوئی بھی رکن دو منٹ سے زیادہ نہیں بول سکتا اور عدالت میں زیر سماعت معاملے پر بات نہیں ہوگی۔ متعلقہ وزیر ایوان میں موجود ہونے کی صورت میں جواب دے گا۔
ایوان کی ایک کمیٹی ہوگی جو حکومتی وعدوں اور یقین دہانیوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گی۔ کسی کمیٹی کا کوئی رکن چیئرمین کی پیشگی اطلاع کے بغیر مسلسل تین اجلاسوں میں غیر حاضر رہے گا تو ان کی کمیٹی رکنیت ختم ہوجائے گی۔
چییرمین سینیٹ کو اختیار ہوگا کہ کسی رکن کی تحریک استحقاق ایوان کا سیشن نہ ہونے پر اپنے چیمبر سے بھی ایوان کی استحقاق کمیٹی کو بھیج سکیں گے۔
ایوان کا استحقاق مجروح کرنے والے افسر کے خلاف ایوان کی سفارش پر متعلقہ وزارت یا مجاز حکام کارروائی کریں گے۔ ایوان کی سفارشات پر دو ماہ کے اندر عمل کرنا لازم ہوگا۔
ایوان کے کسی رکن کو فوجداری مقدمے میں گرفتار کرنے یا کسی عدالت سے سزا دینے کے بارے میں متعلقہ حکام چیئرمین سینیٹ کو فوری طور پر مطلع کرنے کے پابند ہوں گے۔
کسی رکن کو عدالت یا ایجنسی کسی معاملے میں تحقیقات کے سلسلے میں چیئرمین سینیٹ کے ذریعے طلب کرنے کے پابند ہوں گے۔ زیر حراست رکن کو ایوان یا کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے چیئرمین طلب کرسکتے ہیں۔
اگر کوئی صوبائی اسمبلی آئین کی شق ایک سو چوالیس کے تحت کوئی قرارداد منظور کرے تو اس کی اطلاع تمام اراکین، متعلقہ وزارت اور وزارت قانون کو فراہم کی جائے گی۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمنز پر مشتمل چیئرمین سینیٹ کی سربراہی میں ’کونسل آف چیئرمنز‘ بھی قائم ہوگی۔
سینیٹ کے نئے قواعد کے تحت ایوان کی کارروائی کے دوران کوئی رکن چیئر مین کی اجازت کے بغیر نہیں بولے گا، اخبار یا کتاب نہیں پڑھ سکتا، کسی رکن کے بولنے میں مداخلت نہیں کرےگا، چیئرمین کی طرف پیٹھ نہیں کرے گا، جملہ بازی نہیں کرے گا، نعرہ بازی کرنے، بینر یا پلے کارڈ لہرانے اور میز پر پڑی دستاویز پھاڑنے پر پابندی ہوگی۔ چیئرمین کی ڈائس کی طرف نہیں آئے گا اور ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گا جس سے ایوان کا وقار مجروح ہو، گیلری میں بیٹھے گا اور نہ ہی وہاں بیٹھے مہمان سے بات کرے گا۔
ہر رکن پر دوران کارروائی موبائل فون پر بات کرنے یا کیمرا استعمال کرنے پر پابندی ہوگی، تمباکو نوشی یا مشروبات یا کوئی چیز چبانے پر بھی پابندی ہوگی۔ چیئرمین کی پیشگی اجازت کے بغیر چھڑی نہیں لائی جاسکتی، نشست پر بیٹھتے اور جاتے وقت چیئرمین کے سامنے سر جھکانا لازم ہوگا۔
سینیٹ کی کارروائی کے دوران چیئرمین کی اجازت سے بولی گئی بات ریکارڈ کا حصہ نہیں ہوگی اور کارروائی سے حذف کردہ معاملات کارروائی کا حصہ ہوں گے اور نہ ہی میڈیا اُسے رپورٹ کرے گا۔ ایوان کی کارروائی کے سلسلے میں کسی رکن یا سینیٹ سیکریٹریٹ کے عملے کو کوئی عدالت طلب نہیں کرسکتی۔
نئے قواعد کے مطابق چیئرمین کسی بھی رکن کو قواعد کی خلاف ورزی سے روک سکتے ہیں اور ہدایات کو نظر انداز کرنے والے رکن کو وہ ایوان سے باہر نکال سکتے ہیں اور ایسا ہونے کی صورت میں متعلقہ رکن فوری باہر چلے جائیں گے اور وہ اس روز کی باقی کارروائی میں وہ حصہ نہیں لے سکیں گے۔ کوئی رکن ایوان کی آڈیو اور ویڈیو کارروائی فیس ادا کرنے کے بعد حاصل کرسکتا ہے۔







