’جناح کا کوئی پڑپوتا نہیں‘

اسلم جناح، گیلانی
،تصویر کا کیپشنقومی اسمبلی میں اسلم جناح کا استقبال وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کیا
    • مصنف, ریاض سہیل
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

حکومت پاکستان نے اسلم جناح نامی ایک شخص جو بانی پاکستان محمد علی جناح کے پڑپوتے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں کو نقد انعامات، وظیفے، ایک گاڑی اور سرکاری رہائش گاہ فراہم کی ہے۔

کراچی سے جب اسلم جناح اپنی بیگم اور معذور بیٹی کے ساتھ گزشتہ دنوں اسلام آباد ایئرپورٹ پر پہنچے تھے تو ان کا کئی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے پھولوں اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے استقبال کیا تھا۔ اس کے بعد انہیں قومی اسمبلی لےجایاگیا جہاں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے انہیں خوش آمدید کہا۔

اس موقع پر وزیر اعظم نے انہیں گاڑی کی چابی اور چھ لاکھ روپے کا چیک دیا۔ کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں رہنے والے اسلم جناح گزشتہ ساٹھ سالوں سے کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔

پاکستان میں محمد علی جناح کی املاک کے ٹرسٹی اور ان کی بہن مریم بائی کے نواسے لیاقت مرچنٹ ان کے اس دعوے کو رد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جناح کا صرف ایک نواسہ نصلی واڈیا ہے اس کے علاوہ ان کا کوئی نواسہ، پوتا یا پڑپوتا نہیں ہے۔

’جناح پونجا کے سب سے بڑے بیٹے محمد علی جناح تھے، بیٹی رحمت بائی جن کی کلکتہ شادی کرائی گئی تھی، اس کے بعد مریم بائی اور ان کے بعد احمد جناح تھے جن کا ممبئی میں انتقال ہوا۔ ان کی شادی ایک سوئس خاتون سے ہوئی تھی۔ ان کی ایک ہی بیٹی تھیں فاطمہ۔ ان کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔ تیسری بہن شیریں بائی جن کی جعفر بھائی سے شادی ہوئی تھی جو اسماعیلی خوجہ تھے۔ شیری بائی کا ایک ہی بیٹا تھا اکبر جعفر جو ماں سے پہلے کراچی مہتا پیلس میں انتقال کرگئے۔ اس وقت ان کے خاندان میں کوئی نہیں ہے۔‘

’سب سے چھوٹی بہن فاطمہ جناح نے کبھی شادی نہیں کی تھی، سمجھ میں نہیں آتا کہ جناح صاحب کے نواسے اور پڑ نواسے کہاں سے آئے۔ ان کا نواسہ صرف نصلی واڈیا ہے اور پڑ نواسے ان کے دو بیٹے ہیں جئے اور نیئس واڈیا۔‘

لیاقت مرچنٹ کے مطابق وہ پاکستان میں انیس سو چھیاسٹھ سے موجود ہیں اور مریم بائی کے نواسے ہیں اور جناح کی زندگی کے بارے میں کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جناع کی جائیداد اور ٹرسٹ کے نگران ہیں مگر حکومت نے اس فیصلے کے بارے میں کبھی پوچھا نہیں نہ اور ہی رابطہ کیا۔

انہوں نے بتایا ’محمد علی جناح نے اپنی تحریری وصیت میں بھی اسلم جناح کے خاندان کا ذکر نہیں کیا اور وصیت میں تمام خاندان کا حصہ مقرر کردیا تھا، جس کے تحت بیٹی دینا واڈیا کے لیےدو لاکھ روپے چھوڑے۔ چار بہنوں رحمت بائی، مریم بائی، شیریں، فاطمہ اور بھائی احمد جناح کے لیے ماہانہ سو روپے تاحیات مقرر کیے۔ دینا واڈیا کو ابھی تک دو لاکھ روپے کا منافع بھیجا جاتا ہے۔‘

لیاقت مرچنٹ کے مطابق جائیداد کا اکثر حصہ وصیت کے مطابق تعلیمی اداروں کودیا گیا۔ جن میں اردو عربی کالج، ممبئی یونیورسٹی، پشاور یونیورسٹی، اسلامیہ کالج، سندھ مدرسہ، علی گڑھ یونیورسٹی کو بڑی بڑی رقومات دینے کو کہا تھا۔ ’جب علی گڑھ یونیورسٹی کی باری آئی تو پتہ چلا کہ بھارتی حکومت نے قانون تبدیل کردیا ہے اب یہ وہ ادارہ نہیں تھا جس کے لئے انہوں نے اپنے پیسے چھوڑے تھے۔ ہائی کورٹ نے فیصلہ کیا کہ پیسے بھارت نہ بھیجے جائیں اسی نام سے یہاں ادارہ بنایا جائے جو ضرورت مند طالب علموں کو اسکالرشپ فراہم کرے۔‘

انہوں نے بتایا کہ انیس سو چھیاسٹھ میں جب فاطمہ جناح کا انتقال ہوا تو شیریں بائی ممبئی میں تھیں۔ وہ اور شیریں بائی اسی سال پاکستان آئے۔ شیریں بائی کی دیکھ بھال ان کا خاندان کرتا تھا اور ان کہ وہاں حالات ٹھیک نہیں تھے۔ یہاں خاندان میں تھوڑے اختلافات ہوئے اور شیریں بائی نے فاطمہ جناح کی تمام جائیداد پر دعویٰ کردیا ہے اور ہائی کورٹ میں کیس دائر کردیا۔

لیاقت مرچنٹ
،تصویر کا کیپشنلیاقت مرچنٹ پاکستان میں محمد علی جناح کی املاک کے ٹرسٹی اور ان کی بہن مریم بائی کے نواسے ہیں

’ان کے اس دعوے کی قائد اعظم کے چچا والجی بھائی کے خاندان نے مخالفت کی۔ شیریں بائی کا مؤقف تھا کہ فاطمہ جناح کا جب انتقال ہوا تو وہ شیعہ تھیں، شیعہ قانون کہتا ہے اگر ایک بہن بچ گئی ہے تو ساری جائیداد اس کے پاس جائے گی۔ جبکہ سنی حنفی قانون کہتا ہے کہ ان کا حصہ آدھا ہے اور آدھا مرد لواحقین کو جائے گا جس میں والجی بھائی کے خاندان کے لوگ آتے تھے۔ ہائی کورٹ نے والجی خاندان کے حق میں فیصلہ دیا مگر شیری بائی کا انتقال ہوگیا یہ معاملہ ابھی تک عدالت میں ہے۔‘

لیاقت مرچنٹ کا کہنا ہے کہ محمد علی جناح کے چچا نتھو پونجا کے خاندان میں اس وقت کون ہے انہیں پتہ نہیں کیونکہ ان سے کبھی رابطہ ہی نہیں ہوا۔

دوسری جانب اسلم جناح کا کہنا ہے کہ وہ محمد علی جناح کے پڑپوتے ہیں۔ ان کی ماں شیریں بائی نتھو پونجا کی پڑ نواسی تھیں جو محمد علی جناح کے والد جناح پونجا کے بھائی تھے۔

اسلم جناح جناح کیپ سر پر سجائے ہر سال محمد علی جناح کے مزار پر ان کے یوم وفات اور پیدائش پر باقاعدگی کے ساتھ حاضری دینے آتے رہے ہیں جہاں میڈیا کی نظروں میں آگئے۔ لیاقت مرچنٹ کا کہنا ہے ’پھول چڑھانے یا فاتحہ پڑھنے سے ہی لوگ یاد کیے جاتے ہیں کیا؟‘ انہوں نے کہا کہ وہ اس سے بڑا کام کرتے ہیں۔ شروع میں وہ مزار پر جاتے تھے مگر ان کی سالگرہ کے موقعے پر یوم وفات پر کبھی نہیں۔ ان کا یقین ہے کہ اگر یاد کرنا ہے تو قائد اعظم کے جو اصول ہیں انہیں سماج میں عام کریں۔

اسلم جناح کراچی میں کرائے کے ایک فلیٹ میں رہتے ہیں۔ ان کی بیگم کینسر کی مریض ہیں اور بیٹی ذہنی معذور ہیں۔ یہ کہانی جب میڈیا پر منظر عام پر آئی تو حکومت نے ان کی مالی مدد کا اعلان کیا اور ان کی بیوی کا علاج کرایا گیا۔ پیپلز پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد بیت المال کے نگران اور پیپلز پارٹی کے رہنما زمرد خان نے اس خاندان کے لئے ہر ماہ تاحیات 50 ہزار روپے وظیفے دینے سمیت ایک گاڑی اور کراچی میں ایک مکان مہیا کرنے کا اعلان کیا اور ان کی ہی دعوت پر یہ خاندان پہلی مرتبہ اسلام آباد پہنچا۔

اس سے پہلے بھی قائد اعظم کے خاندان کا حوالہ کئی روز تک اخباروں کی زینت بنا تھا جب اسلم جناح کی بہن خورشید کے بیٹے سکندر جناح کی کراچی کے علاقے گولیمار میں پولیس تشدد میں ہلاکت ہوگئی تھی۔ جس کا کیس ابھی تک زیر سماعت ہے۔

اسلم جناح اور لیاقت مرچنٹ دونوں کا ننھیال جناح خاندان سے ہے مگر ایک دوسرے سے دور ہیں۔ لیاقت مرچنٹ کا کہنا ہے کہ وہ اسلم سے ملنے نہیں جائیں گے انہیں ملنا ہے تو ان کے پاس آئیں۔ دوسری جانب اسلم جناح کا کہنا ہے کہ خودداری کی وجہ سے وہ کسی کے در پر مدد کے لیے نہیں گئے۔