انڈیا سے کپاس کی درآمد پاکستانی ٹیکسٹائل شعبے کی مشکلات کم کر سکتی ہے؟

کپاس کی فصل
    • مصنف, تنویر ملک
    • عہدہ, صحافی، کراچی

پاکستان میں حالیہ سیلاب کی وجہ سے کپاس کی فصل کی تباہی اور اسے مجموعی طور پر پہنچنے والے نقصان کا ابتدائی تخمینہ 45 فیصد لگایا گیا ہے جس کے بعد مقامی ٹیکسٹائل شعبے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کپاس درآمد کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں ٹیکسٹائل ملوں کی جانب سے درآمدی آرڈر بھی دیے گئے ہیں۔

تاہم کپاس کی درآمد کے یہ آرڈر برازیل، امریکہ اور افریقہ میں دیے گئے ہیں جب کہ دوسری جانب پاکستان کے ہمسایہ ملک انڈیا میں کپاس وافر مقدار میں موجود ہے۔

پاکستان کے ٹیکسٹائل شعبے کی تنظمیوں کی جانب سے حال ہی میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ صنعتی شعبے کو انڈیا سے کپاس درآمد کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ ہمسایہ ملک سے درآمد پر لاجسٹک کاسٹ بھی کم ہو گی اور وقت بھی کم لگے گا۔

کپاس کی گانٹھیں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تاہم حکومت پاکستان کی جانب سے ابھی تک ٹیکسٹائل شعبے کے اس مطالبے کو پورا نہیں کیا گیا۔

انڈیا کی جانب سے پانچ اگست 2019 کو اپنے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کیے جانے کے بعد سے پاکستان نے انڈیا کےساتھ تجارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے اور سوائے ادویات کے خام مال کے ہر قسم کی دو طرفہ تجارت بند ہے۔

وزیر اعظم پاکستان کے کورآرڈینیٹر برائے تجارت و صنعت رانا احسان افضل کے مطابق ٹیکسٹائل شعبے کا یہ مطالبہ حکومت کے علم میں ہے تاہم اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔

پاکستان میں ٹیکسٹائل شعبہ اس وقت کن مشکلات کا شکار ہے؟

ٹیکسٹائل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کراچی کے صعنتی علاقے سائٹ ایریا میں ہوم ٹیکسٹائل کی ایک فیکٹری اس وقت مہنگا یارن یعنی دھاگہ خریدنے پر مجبور ہے۔

اس فیکٹری کے مالک اختیار بیگ کہتے ہیں کہ دھاگے کی قیمت میں کئی ماہ سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تاہم حال ہی میں قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا جس کی وجہ سے ان کی کاروباری لاگت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔

بیگ کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایکسپورٹ آرڈرز موجود ہیں تاہم مہنگے دھاگے کی وجہ سے وہ اپنی فیکٹری کی مکمل پیداواری استعداد حاصل نہیں کر پا رہے۔ ان کے مطابق گذشتہ چند ہفتوں میں ان کی فیکٹری میں پیداواری عمل میں 30 فیصد تک کمی آئی ہے جس کی وجہ مہنگا دھاگہ ہے۔

انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں کپاس کی فصل سیلاب کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف سندھ میں 31 لاکھ کپاس کی گانٹھوں کے برابر فصل تباہ ہوئی ہے۔

پاکستان کے برآمدی شعبے میں ٹیکسٹائل مصنوعات کا حصہ 55 سے 60 فیصد ہے۔ روئی اس شعبے کا کلیدی خام مال ہے۔ پاکستان میں بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافے نے اس شعبے کی مسابقتی صلاحیت کو متاثر کیا ہے تاہم اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کپاس کی دستیابی ہے جس کی ملک میں پیداوار کم ہوئی ہے۔

جننگ فیکٹری

چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ ملک میں 70 سے 75 لاکھ روئی کی گانٹھوں کی پیداوار کی توقع تھی تاہم سیلاب کی وجہ سے اب اس کی پیداوار کے تخمینہ 50 لاکھ سے 55 لاکھ تک رہنے کی توقع ہے۔

انھوں نے کہا ’ویسے تو پاکستان ہر سال روئی درآمد کرتا ہے کیونکہ ہر سال ملک میں کپاس کی پیداوار مقامی ٹیکسٹائل شعبے کی ضرورت سے کم ہوتی ہے، تاہم اس سال سیلاب کی وجہ سے زیادہ کپاس درآمد کرنا پڑے گی۔‘ انھوں نے کہا ملکی ٹیکسٹائل کے شعبے کو کپاس کی ڈیڑھ کروڑ گانٹھوں تک کی ضرورت ہوتی ہے۔

کراچی کاٹن فورم کے چئیرمین نسیم عثمان کے مطابق ملک کی مختلف کمپنیوں نے بیرون ممالک سے تقریباً 40 لاکھ کپاس کی گانٹھوں کے درآمدی معاہدے کر لیے ہیں۔

’اگر نیویارک کاٹن کے بھاؤ میں مزید کمی واقع ہوئی تو ملکی صنعتیں بیرون ممالک سے مزید روئی کے معاہدے کر لیں گے کیونکہ مقامی کاٹن کی کوالٹی معیاری نہیں ہے جبکہ بھاؤ بھی زیادہ ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ ڈالر کی قدر میں اضافہ بھی صنعتوں کو مزید روئی درآمد کرنے میں مشکل پیدا کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب موجودہ داموں پر روئی خرید کر صنعتوں کو نقصان ہو رہا ہے۔

کپاس

،تصویر کا ذریعہAFP

انڈین کپاس ملکی ٹیکسٹائل صنعت کو کیسے فائدہ دے سکتی ہے؟

امریکہ میں کپاس پیدا کرنے والے علاقوں میں طوفان آنے کی خبروں کی وجہ سے عالمی منڈی میں روئی کا بھاؤ بڑھ کر 97 امریکی سینٹ ہو گیا ہے۔ دوسری جانب انڈیا میں بڑے پیمانے پر کپاس کی پیداوار کی وجہ سے وہاں روئی کے بھاؤ میں نمایاں مندی کا رجحان ہے۔

ماہرین کے مطابق انڈیا میں روئی کے بھاؤ میں آئندہ دنوں میں مزید کمی ہونے کا امکان ہے۔

پاکستان ٹیکسٹائل کونسل کے مطابق امریکہ میں کپاس کی پیداوار 28 فیصد تک گرنے کی توقع ہے، اسی طرح چین کے صوبے سنکیانگ میں پیدا ہونے والی کپاس کی خریداری پر امریکہ کی جانب سے لگائی جانے والی پابندی کی وجہ سے پاکستان یہ نہیں خرید سکتا اور برازیل میں بھی کپاس کی پیداوار کی توقعات اتنی حوصلہ افزا نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

اس حوالے سے پاکستان ٹیکسٹائل کونسل کا موقف ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں روئی کے نرخ بڑھ رہے ہیں اور ایسی صورت حال میں امریکہ، برازیل اور مصر جیسی مارکیٹوں سے کپاس کی درآمد پاکستان کے لیے اسے بہت مہنگا بنا دے گی۔

دھاگہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انھوں نے کہا ’پاکستان کو اگر اپنی ٹیکسٹائل برآمدات میں تیزی کے رجحان کو برقرار رکھنا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسی جگہ سے کپاس درآمد کی جائے جہاں سے فوری طور پر یہ پاکستان پہنچ سکے اور صنعتوں کو دستیاب ہو۔‘

انھوں نے کہا ’جب ہر طرف سے یہ خبریں آ رہی ہیں کہ پاکستان کی کپاس کی فصل شدید متاثر ہوئی ہے اور ملک کے ٹیکسٹائل کے شعبے کو اپنی ضرورت کے لیے درآمدی کپاس پر انحصار کرنا پڑے گا تو ایسی صورت حال میں ملک کو سب سے قریبی اور سستی مارکیٹ سے روئی کی خریداری کا فیصلہ کرنا چاہیے۔‘

رانا احسان نے کہا ’یہ حقیقت ہے کہ انڈیا سے کپاس کی پاکستان درآمد اور ٹیکسٹائل صنعتوں تک ان کے پہنچنے میں صرف چار سے پانچ دن کا وقت لگے گا، جبکہ برازیل، امریکہ اور دوسری مارکیٹوں سے پاکستان آنے کے لیے قریباً دو مہینوں کا وقت چاہیے۔‘

انڈیا سے روئی کی درآمد کیا ممکن ہو پائے گی؟

ٹیکسٹائل

پاکستان میں انڈیا سے روئی کی درآمد کی اجازت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ٹیکسٹائل صنعت کار اختیار بیگ کہتے ہیں کہ ملک میں ادویات کی تیاری کے لیے خام مال انڈیا سے منگوانے کی اجازت ہے تو اسی طرح ٹیکسٹائل شعبہ کے لیے روئی بنیادی خام مال ہے اسے پڑوسی ملک سے درآمد کرنے کی اجازت دینی چاہیے تاکہ ملک میں اس شعبے کا پہیہ بہتر انداز میں چل سکے۔

پاکستان ٹیکسٹائل کونسل کے مطابق ’ہمیں انڈیا سے روئی کی ممکنہ درآمد کے بارے میں سوچنا چاہیے کیونکہ ٹیکسٹائل ہمارا سب سے بڑا برآمدی شعبہ ہے اور کووڈ کے دوران اس نے اچھی کارکردگی دکھائی تھی۔ جب دنیا میں دوسری مارکیٹس بند ہو گئی تھیں تو پاکستان نے ٹیکسٹائل کے آرڈرز کو اپنی طرف کھینچا اور اس کی بنیاد پر پچھلے دو سال سے ٹیکسٹائل برآمدات کا شعبہ ترقی دکھا رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا ’اس ترقی کی رفتار کو اسی صورت میں جاری رکھا جا سکتا ہے جب پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کو فوری اور سستا خام مال یعنی روئی دستیاب ہو اور وہ ہمیں انڈیا سے مل سکتی ہے۔‘

پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے پیٹرن ان چیف خرم مختار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹیکسٹائل شعبہ انڈیا سے روئی کی درآمد چاہتا ہے جو تجارتی تعلقات میں ایک بریک تھرو بھی ہو سکتا ہے اور مستقبل کے مزید تجارتی تعلقات کے لیے ایک مثبت اقدام ہو گا۔‘

رانا احسان نے اس سلسلے میں کہا ’جو مطالبہ ٹیکسٹائل شعبے کی جانب سے کیا جا رہا ہے اس کی معاشی منطق ہے کہ انڈین روئی صرف چار دنوں میں ملکی ٹیکسٹائل صنعتوں میں پہنچ جائے گی۔‘ تاہم انھوں نے کہا انڈیا سے روئی کی درآمد کی اجازت کا فیصلہ سیاسی ہے۔

ٹیکسٹائل شعبے کے مطالبے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر اس کی حمایت کرتے ہیں اور ان کا یہ مطالبہ جائز بھی ہے اور حکومت نے اس کا نوٹس بھی لیا ہے تاہم ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔