آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
وہ خواتین جو ایسے شعبوں میں کام کر رہی ہیں، جنھیں صرف مردوں کے لیے موزوں سمجھا جاتا ہے
- مصنف, ریاض سہیل
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
آپ کسی سڑک سے گزر رہے ہوں اور کوئی خاتون اپنی گاڑی کا ٹائر تبدیل کر رہی ہو تو یقیناً کئی لوگوں کے ذہن میں یہ فقرہ آتا ہے کہ ’ان سے نہ ہو گا۔۔۔‘ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی راہگیر ان کی مدد کر کے ٹائر بھی بدل دیتا ہے لیکن اس منظر نامے کے برعکس حرا اقبال کسی چھوٹی موٹی گاڑی نہیں بلکہ بھاری بھرکم طیاروں کے ٹائر تبدیل کر لیتی ہیں۔
حرا اقبال ایک ایئر کرافٹ مینٹیننس انجینیئر ہیں اور گزشتہ پانچ سال سے اس شعبے سے منسلک ہیں اور بقول ان کے یہ شعبہ کافی مشکل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ فیلڈ بنی ہی لڑکوں کے لیے ہے۔ وزن اٹھانا، ٹائر تبدیل کرنا، جیک لگانا اور پینلز تبدیل کرنا۔ لڑکیوں کے لیے تھوڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ جو جہاز ہوتے ہیں، ان کے وہیلز آسانی سے لڑکیاں تبدیل نہیں کرسکتی ہیں لیکن ہم اس کو سنبھال لیتے ہیں۔‘
وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایسا نہیں کہ کوئی دبلی پتلی جسامت والی لڑکی یا کوئی باڈی بلڈر ہے یا کوئی جم کر کے آئی ہے، اس میں اصل بات ہے جنون اور لگن کی۔
’اگر آپ میں لگن ہے تو ہر چیز آسانی سے ہو جاتی ہے۔ مشکل کچھ بھی نہیں ہوتا، اگر آپ اپنی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے تو ہر چیز ہو جائے گی۔ اگر آپ حوصلہ کھو دیں گے اور یہ سوچ کر بیٹھ جائیں کہ اب یہ میں کیسے کروں گی تو پھر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔‘
حرا اقبال کے مطابق دوران تعلیم یہ پریوں کی کہانی لگتی ہے کہ ایک جہاز ہے، جس میں ہم کام کریں گے لیکن جب فیلڈ میں جاتے ہیں تو وہ چیز مکمل طور پر مختلف ہوتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کچھ ایسے مراحل ہیں جن میں لڑکیوں کو پیچھے رکھا جاتا ہے اور لڑکے آگے ہوتے ہیں کیونکہ یہ تصور ہے کہ وہ ہر چیز آسانی سے کر لیتے ہیں۔‘
کچھ ایسی ہی بحث پاکستان کے سوشل میڈیا پر کچھ روز پہلے سامنے آئی، جب کراچی کے ایک پیٹرول پمپ پر کام کرتی ایک خاتون کی تصویر سامنے آئی۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ہم نے کراچی کے علاقے کلفٹن میں واقع پی ایس او کے پمپ پر ثمینہ بی بی سے ملاقات کی، جو جہاں فیول فلنگ کا کام کرتی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ انھیں ملازمت کی ضرورت تھی اور کہیں کام نہیں مل رہا تھا تو انھوں نے شہر کے مختلف سٹورز، متعدد فیکٹریوں اور جناح ہسپتال میں بھی درخواستیں بھیجیں لیکن جواب نہیں آیا بالاخر یہاں پی ایس او پمپ پر ملازمت مل گئی اب وہ صبح آٹھ بجے آتی ہیں اور شام پانچ بجے واپس گھر چلی جاتی ہیں۔
کراچی سمیت پاکستان کے دو دیگر شہروں اسلام آباد اور لاہور میں 20 کے قریب خواتین پی ایس او کے پمپس پر کام کر رہی ہیں۔ ان کی تنخواہ مردوں کے برابر ہے تاہم کام کرنے کے گھنٹے کم ہیں، مرد بارہ گھنٹے اور خواتین آٹھ گھنٹے کام کرتی ہیں۔
’فیملی نے کہا کہ کام کوئی بھی ہو، باعزت ہو‘
ثمینہ بی بی نے شادی سے قبل میٹرک کیا تھا اور ملازمت کی ضرورت نہیں پڑی لیکن شوہر سے علیحدگی کے بعد ملازمت ان کی ضرورت بن گئی۔
’مجھے خوشی ہوئی کہ مردوں کے سامنے ہم بھی کام کرسکتی ہیں۔ ایسا کچھ نہیں کہ جو مرد کر سکتا ہے اور خواتین نہیں کر سکتیں۔ ہم بھی یہ کام کر کے اپنی فیملی کی مدد کر سکتی ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گاڑی میں فلنگ کرتے ہوئے کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ کوئی پریشانی ہے جو آپ یہ کام کرتیں ہیں، میں انھیں کہتی ہوں یہ کام میں خوشی سے کرتی ہوں فیملی نے کہا تھا کہ کام کوئی بھی ہو باعزت ہو۔‘
یاد رہے کہ پاکستان میں ورک فورس میں خواتین کی تعداد 20 فیصد ہے اور اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق کام کرنے کی عمر کی صرف 47 فیصد خواتین لیبر مارکیٹ کا حصہ ہیں جبکہ مردوں کی شرح 74 فیصد ہے اور یہ صنفی فرق سنہ 1995 کے بعد سے نسبتاً برقرار ہے۔
رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا، شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا میں یہ تعداد اور بھی کم ہے اور لیبر مارکیٹ میں 30 فیصد سے زیادہ خواتین حصہ لے رہی ہیں۔
ثمینہ بی بی سے ملاقات کے بعد ہم نے کچھ دیگر ایسی خواتین سے بھی بات کی، جو ایسے شعبوں میں کام کر رہی ہیں، جنھیں صرف مردوں کے لیے ہی موزوں سمجھا جاتا ہے۔
تھر کے تپتے صحرا میں پیشہ وارانہ خدمات
ثنا آرائیں کراچی سے تقریبا 400 کلومیٹر دور صحرائی ٹیلوں کے درمیان کوئلے کی کان میں کام کرتی ہیں۔ وہ سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی میں پروڈکشن مینیجر کے طور پر فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔ ان کا تعلق میرپور خاص ضلع سے ہے۔
ثنا کے بقول انھیں انجینئرنگ سے لگاؤ تھا اور مائننگ کا شعبہ فطرت کے قریب ہے اس لیے انھوں نے اس کا انتخاب کیا اور اب گذشتہ پانچ سال سے وہ سندھ اینگرو کول کمپنی سے منسلک ہیں۔
تھر میں اوپن پٹ طریقے سے کوئلہ نکالا جاتا ہے، جس میں ایک بڑی اراضی سے ریت ہٹا کر کوئلہ نکلتا ہے اور اس کے لیے کئی فٹ نیچے کھدائی کرنی پڑتی ہے۔
ثنا آرائیں کے بقول مائینگ کا آپریشن چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے اور اس لیے انھیں ہر وقت چوکس رہنا پڑتا ہے کہ کسی بھی وقت ضرورت پڑ سکتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ تاثر غلط ہے کہ لڑکیاں وزن نہیں اٹھا سکتیں یا کسی سخت موسم میں کام نہیں کرسکتیں۔ میں خود اس کی ایک مثال ہوں جہاں کام کر رہی ہوں یہاں سخت موسم ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا کم ہی سننے کو ملا کہ یہ تمہارے بس کی بات نہیں۔ ہم اس وقت تک جو کام کر رہے ہیں ہمارے بس میں ہے تبھی تو کر رہے ہیں۔ جب ہم ان کے (مردوں) سامنے ہیں تو ہم خود ایک مثال کے طور پر موجود ہیں کہ ان کا بھی سامنا کر رہے ہیں اور اسی صنعت میں بھی کام کر رہے ہیں جہاں وہ موجود ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
’اب لوگوں میں اتنا شعور آ گیا ہے‘
تھر کے تپتے صحرا میں رشتے داروں سے دور کائنات مینگل بھی سندھ اینگرو کول کپمنی میں کام کر رہی ہیں۔ وہ بطور انوائرمینٹ انجینئر ماحولیات پر اثرات دیکھنے کے علاوہ کمپنی کی کمیونٹی کے ساتھ گرین پراجیکٹس پر کام کرتی ہیں۔
بقول ان کے گرمی میں یہاں درجہ حرات 48 سینٹی گریڈ رہتا ہے اور کبھی کبھار اس سے بھی بڑھ جاتا ہے جبکہ سردیوں میں شدید سردی ہوتی ہے لیکن جب آپ کا سارا فوکس کام پر ہوتا ہے تو باقی ساری چیزیں ثانوی ہو جاتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے ’یہ کام لڑکیوں کے بس کی بات نہیں۔ یہ فقرہ نہ کبھی گھر میں سنا نہ یونیورسٹی اور نہ ہی کبھی کمپنی میں۔ میرا خیال ہے کہ اب لوگوں میں اتنا شعور آ گیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عورتیں ہر فیلڈ میں کام کر سکتی ہیں۔‘