چولستان میں قحط سالی: گرمی یا پانی، صحرائے چولستان میں مویشیوں کو کون مار رہا ہے؟

چولستان مویشی
    • مصنف, عمر دراز ننگیانہ
    • عہدہ, بی بی سی اردو، چولستان

تاحدِ نگاہ ریت کا ایک سمندر ہے۔ میلوں دور تک ریت میں گاڑیوں کے ٹائروں سے بنی سانپ کی طرح رینگتی سڑک کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ ریت کے ٹیلوں پر اُگی بوٹیاں ہیں جن کی ہریالی اب ماند پڑ چکی ہے۔

جہاں جہاں نیم سوکھے درختوں کے جھنڈ نظر آتے ہیں وہاں پانی کے وسیع و عریض ’ٹوبے‘ موجود ہیں، لیکن اب ان ’ٹوبوں‘ کی جھلسی ہوئی سوکھی زمین دور سے نظر آتی ہے۔

چولستان میں جب سورج سر پر ہوتا ہے تو پانی کے ان ذخیروں کے سرہانے کھڑے ہو کر آپ ان کی پیاس کو محسوس کر سکتے ہیں۔

ان دنوں یہاں دن کا درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ کو چھو رہا ہے۔ چند منٹ کے لیے بھی ریت اڑاتی لو میں تپتے ہوئے ٹیلوں کے درمیان زیادہ دیر کھڑا ہونا ناممکن ہو جاتا ہے۔

جسم کو جلا دینے والی گرم ریت پر کھڑے آپ درجہ حرارت میں ہونے والے ایک ایک ڈگری کے اضافے کو اپنے جسم پر محسوس کر سکتے ہیں۔

آپ کا حلق خشک ہونا شروع ہو جاتا ہے اور آپ کو پانی کی طلب ہوتی ہے۔ یہ طلب ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ ایسے میں اگر آپ کے پاس پانی موجود نہیں ہے تو آپ پر گھبراہٹ طاری ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

اس کے بعد چولستان میں آئندہ ہر لمحہ آپ کے ذہن پر صرف ایک ہی خیال ہوتا ہے، پانی!

اور اس خیال کے ساتھ بہت سے خدشات بھی ہوتے ہیں جیسا کہ اگر پانی نہ ملا تو کیا ہو گا؟

یہی حالت چولستان میں رہنے والے دو لاکھ سے زائد باسیوں کی ہے۔ ان کے ذہنوں پر گذشتہ کئی مہینوں سے یہی خیال اور یہی خدشات سوار ہیں۔ وہ بارشیں جن سے پانی کے ٹوبے بھر جاتے ہیں اور چولستان سرسبز ہو جاتا ہے لگ بھگ ڈیڑھ برس پہلے برسیں تھیں۔

رواں برس موسمِ سرما کے بعد جب بارشوں کی امید تھی تو شدید گرمی کی لہروں نے چولستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اپریل کے آخر اور مئی کے آغاز ہی سے پارہ 50 ڈگری کو چھو جائے گا، عبدالستار کو اس کی توقع نہیں تھی۔ پہلے تو جون کے مہینے میں ایسا ہوتا تھا۔

ایسا کیوں ہوا، انھیں یہ نہیں معلوم، لیکن ان کے گاؤں میں مویشی کیوں مر رہے ہیں، یہ انھیں معلوم ہے۔

چولستان

پانی موجود ہے تو مسئلہ کیا ہے؟

رحیم یار خان شہر سے لگ بھگ 120 کلومیڑ کے فاصلے پر صحرائے چولستان کے اندر واقع اُن کے گاؤں کلر والا میں جب دن کا سورج ڈھلنے کی طرف سفر کرتا ہے تو سینکڑوں مویشیوں کا سفر بھی شروع ہوتا ہے۔ صحرا کی خاموشی میں صرف ان کے گلے میں لٹکتی گھنٹیوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔

عبدالستار کے پاس سو کے قریب گائے اور بھیڑ بکریاں ہیں۔ اپنے مویشیوں کو ہانک کر وہ گاؤں کے نواح میں بنے ان تالابوں تک لاتے ہیں جن میں گاؤں والوں نے کنویں سے نکالا گیا پانی جمع کر رکھا ہے۔ ان کے گاؤں میں سو سے زیادہ گھرانے بستے ہیں۔

یہ کنواں شمسی توانائی سے چلنے والی موٹروں سے چلتا ہے۔ کنویں سے پانی نکال کر ان تالابوں میں روک لیا جاتا ہے لیکن یہ پانی کھارا ہے، پینے کے قابل نہیں۔ اس کا رنگ بدل کر کالا ہو چکا ہے۔ مویشیوں کو یہی پانی پلانا پڑتا ہے۔

یہ پانی پی کر وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے اپنا سفر شروع کرتے ہیں۔ ’مویشیوں کو چارے کے لیے 40 کلومیٹر تک جانا پڑتا ہے کیونکہ جہاں پانی ہے وہاں چارہ موجود نہیں اور جہاں چارہ ہے وہاں پانی نہیں ہے۔‘

عبدالستار کو نہیں معلوم کہ ان میں سے کتنی گائیں واپس آئیں گی۔ ’جب مویشی اتنی دور جاتے ہیں اور گرمی بڑھتی ہے تو جو کمزور ہوتے ہیں وہ وہیں بیٹھ جاتے ہیں۔ بس پھر وہ وہیں ختم ہو جاتے ہیں۔‘

چولستان

مویشی کیسے مر رہے ہیں؟

جس وقت وہ بی بی سی سے بات کر رہے تھے اسی وقت ان کے گاؤں سے چند کلومیڑ کے فاصلے پر دو نوجوان کئی گھنٹوں سے ایک بیٹھی ہوئی گائے کو اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔

وہ ساتھ ہی بنے ’کنڈ‘ یعنی زیرِ زمین ٹینک سے ایک ڈول میں پانی بھر کر لاتے اور تھوڑا تھوڑا کر کے گائے پر پھینکتے تھے۔

عبدالستار کو زیادہ امید نہیں تھی کہ گائے اٹھ پائے گی۔ ’وہ مر جائے گی۔ کچھ دنوں میں بچہ دینے والی تھی بیچاری۔‘

گرمی کی حالیہ لہروں میں ان کے گاؤں کے کئی جانور اسی طرح مر چکے ہیں۔ یہاں رہنے والوں کی زندگی کا دارومدار ان ہی مویشیوں پر ہے۔

وہ نسلوں سے اس علاقے میں آباد ہیں اور مویشی پالتے آئے ہیں۔ مویشی نہیں تو چولستان میں اُن کی زندگی نہیں۔ اس علاقے میں موسمیاتی تبدیلی اس خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے۔

چولستان

گرمی تو پہلے بھی ہوتی تھی؟

حکومتِ پنجاب کے ادارے چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مینیجنگ ڈائریکٹر مہر خالد احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ رواں برس شدید گرمی کا دور معمول سے بہت پہلے آ گیا تھا۔

’چولستانی لوگ اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کی توقع سے زیادہ گرمی اتنی جلدی پڑ گئی۔ اس کی وجہ سے کچھ مسائل ہوئے۔ ورنہ شدید گرمی میں چولستانی اپنی نقل مکانی کی منصوبہ بندی رکھتے تھے جس میں وہ شدید گرم علاقوں سے نکل جاتے تھے۔‘

تاہم عبدالستار کا کہنا تھا کہ ان کے گاؤں سے زیادہ تر لوگ اپنا علاقہ نہیں چھوڑتے تھے۔ ان کے گاؤں میں ہر گھر کے پاس ایک سو سے زیادہ مویشی تھے۔ جبکہ پورے چولستان میں تیرہ لاکھ سے زیادہ مویشی موجود تھے۔

’اتنے زیادہ مویشی لے کر ہم کہاں جا سکتے ہیں۔ شہروں میں کون رکھے گا۔ اور ہم وہاں جا کر کیا کریں گے۔ ہمارے پاس تو ان مویشیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔‘

چولستان مویشی

گرمی جانوروں کو کیسے مارتی ہے؟

حال ہی میں حکومت اس وقت حرکت میں آئی تھی جب بہاولپور شہر سے لگ بھگ 120 کلومیٹر دور قلعہ بیجنوٹ کے علاقے کے قریب واقع ایک گاؤں نواں کھو میں محمد صدیق کی 70 بھیڑیں مر گئیں۔ مری ہوئی بھیڑوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر آئیں اور ساتھ بتایا گیا کہ یہ بھیڑیں گرمی سے مری تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

تاہم محمد صدیق نہیں جانتے کہ بھیڑوں کو ہوا کیا تھا۔ ہاں وہ یہ ضرور بتاتے ہیں کہ ان دنوں میں شدید گرمی تھی۔ ان کی بھیڑیں ایک کے بعد ایک گرمی کی پکڑ میں آتی گئیں۔ روزانہ دس یا بیس مرتی رہیں اور پندرہ دن میں 70 سے زیادہ ختم ہو گئیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب گرمی کی پکڑ میں آتے ہیں نہ جانور تو وہ منھ کھول کر زور زور سے سانس لیتے ہیں۔ اگر انھیں سائے سے باہر نکالیں تو وہ فوراً گر جاتے ہیں۔ بس پھر اسی طرح زور زور سے سانس لیتے لیتے وہ ختم ہو جاتے ہیں۔‘

محمد صدیق کے ساتھ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ اتنی زیادہ تعداد میں بھیڑیں اتنے کم وقت میں مر گئی ہوں۔ ان کے لیے یہ ایک بہت بڑا مالی نقصان تھا۔

ان کی جھونپڑی ریت کے ایک بلند ٹیلے پر واقع تھی اور نیچے میدان میں ان کے ملازم رہ جانے والے ریوڑ کو چرا رہے تھے۔

چولستان

کیا چولستان میں پانی بچانے کو کوئی نظام نہیں؟

بھیڑیں مرنے کے واقع کے بعد سے حکومت کی طرف سے آنے والا پانی کا ٹینکر محمد صدیق کے کنڈ میں میٹھا پانی ڈال جاتا تھا۔ اس پانی کو وہ خود بھی اور مویشیوں کے لیے بھی استعمال کر رہے تھے۔

’ایک کنڈ میں دو باؤذر کی مدد سے پانی ذخیرہ ہو سکتا تھا جو کچھ دن چل جاتا ہے۔ کنڈ بنیادی طور پر مقامی طور پر بنایا گیا ایک ایسا ٹینک ہے جس میں ہم بارش کا پانی اکٹھا کرتے ہیں اور پھر اس موسم میں اسے استعمال کرتے ہیں جس میں بارشیں نہیں ہوتیں اور جب پانی خشک ہو جاتا ہے۔‘

ہر آبادی کے ساتھ ایسے کنڈ موجود ہوتے ہیں لیکن ان میں جمع کیا گیا بارش کا پانی کافی عرصہ پہلے ہی خشک ہو چکا ہے۔

اب چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی جانب سے مہیا کیے جانے والا واٹر ٹینکر ان کنڈوں میں پانی بھر دیتا ہے جس پر چولستان کے باسی زندہ ہیں۔ سی ڈی اے کے ایم ڈی خالد احمد کے مطابق حکومت نہ صرف کنڈوں میں پانی ڈال رہی تھی بلکہ کچھ ٹوبوں میں بھی پانی ڈالا جاتا تھا۔

تاہم بی بی سی نے ان تمام علاقوں میں جتنے ٹوبے دیکھے ان میں پانی کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔

چولستان

’بس اللہ کسی کو کھارا پانی نہ پلائے‘

محمد صدیق کو خوف یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے کسی وقت سی ڈی اے کا واٹر ٹینکر ان تک نہ پہنچ پایا اور کنڈ میں ذخیرہ کیا پانی بھی ختم ہو گیا تو انھیں کنویں کا پانی نہ پینا پڑے۔

’اللہ معاف کرے۔ بس اللہ کسی کو کنویں کا یہ کھارا پانی نہ پلائے۔ اگر ٹینکر نہیں آئے گا تو ہمیں تو مجبوراً یہی پانی پینا پڑے گا۔‘ ان کے گاؤں کی آبادی کم تھی اس لیے وہ کنڈ کا پانی خود بھی استعمال کر لیتے تھے اور مویشیوں کو بھی دیتے تھے۔

تاہم قلعہ بیجنوٹ میں آبادی زیادہ تھی۔ وہاں سی ڈی اے کے جو ٹینکر آتے تھے وہ پانی صرف انسانوں کی ضرورت کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اپنے مویشیوں کو وہ کنویں کا پانی پلاتے تھے۔

کھارا پانی پینے کی وجہ سے ان کے جانور بیمار ہو رہے تھے اور کمزور جانور گرمی برداشت نہیں کر پاتے تھے۔

سی ڈی اے کے ایم ڈی خالد احمد سمجھتے ہیں کہ چولستان میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے جو ’چولستان میں پھنسے ہوئے تھے یا اپنی مرضی سے رُکے ہوئے تھے کیونکہ ان کے جانور وہاں موجود تھے اور وہ ان کو لے کر نکل نہیں سکتے تھے۔‘

چولستان

کیا انسان پہلے ہی وہی پانی پی رہے تھے جو مویشی مجبوراً پیتے ہیں؟

نواں کھو اور قلعہ بیجنوٹ کے مقابلے کلر والا میں پانی زیادہ موجود تھا لیکن وہ انسانوں کے پینے کے قابل نہیں تھا۔ تاہم وہاں رہنے والوں کو شکایت تھی کہ سی ڈی اے کا ٹینکر وہی پانی بھر کر ان کے کچھ علاقوں میں انسانوں کے پینے کے لیے پہنچا رہا تھا۔

اس ٹینکر کو ان گندے پانی والے تالابوں سے پانی بھر کر جاتے ہوئے بی بی سی نے بھی دیکھا۔ تاہم سی ڈی اے کے ایم ڈی کا کہنا تھا کہ ان کے علم میں ایسا کوئی واقع نہیں تھا اور وہ اس کی تحقیقات کریں گے۔

’ایسا ہو نہیں سکتا۔ ہمارے ٹینکر تو میٹھا پانی لے کر جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کسی نے جانوروں کے پینے کے لیے منگوایا ہو۔‘

لیکن عبدالستار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے بچے کیڑوں والا یہ پانی پینے پر مجبور تھے جو جانور بھی نہ پیتے۔ وہ بیمار ہو کر مر نہ جائیں گے۔‘

اس نوعیت کی مثالیں اس خطرے کی طرف توجہ مبذول کرواتی ہیں کہ خشک سالی بڑھنے کی صورت میں اس خطے میں بسنے والے انسانوں کو کتنے بڑے خطرے کا سامنا ہے۔

چولستان

پائپ لائن کے منصوبے کا کیا بنا؟

عبدالستار کے مطابق چولستان کے لیے حکومت نے ایک منصوبے کا آغاز 15 سال پہلے کیا تھا جس کے مطابق چولستان کے مختلف علاقوں میں پائپ لائنوں کے ذریعے پانی پہنچایا جانا تھا۔

’اس کے لیے کچھ عمارتیں بھی بنی ہیں، کچھ پائپ بھی ڈالا گیا ہے اور جنگلے بھی لگائے ہیں لیکن یہ منصوبہ شروع نہیں ہو سکا۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ منصوبہ شروع ہو جائے تو ان کا دیرینہ مسئلہ حل ہو جائے یعنی مویشیوں کے لیے چارا اور پانی ایک ہی جگہ آ سکتے تھے یا ان کے درمیان فاصلہ کم ہو سکتا تھا۔

مزید پڑھیے

سی ڈی اے کے ایم ڈی خالد احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے حال ہی میں اس ادارے میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن انھیں بتایا گیا تھا کہ اس منصوبے کے بہت سے پہلو تھے جن میں پانی بھی ایک تھا۔

تاہم فنڈز میسر نہ ہونے کی وجہ سے یہ مکمل نہیں ہو پایا۔ ’لیکن آئندہ بجٹ میں اس کے لیے فنڈز مختص کیے گئے اور ان میں پانی والا حصہ ہمارے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے جو پہلے مکمل کر لیا جائے گا۔‘

چولستان مویشی

تو لوگ چولستان سے نقل مکانی کیوں نہیں کر جاتے؟

خالد احمد کے مطابق چولستان میں اگر پانی اور چارا کم ہو جاتا ہے تو وہاں رہنے والوں کو نقل مکانی کرنی پڑے گی۔

’یہ ایک مشکل صورتحال ہو گی۔ اس طرح شہری آبادی کے وسائل پر دباؤ بڑھے گا اور ویسے بھی اتنے زیادہ لوگوں اور ان کے مویشیوں کو شہروں میں آباد کرنا ایک مسئلہ ہو گا۔‘

نواں کھو کے رہائشی محمد صدیق نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ درست ہے کہ اگر گرمی رواں برس کی طرح آنے والے سالوں میں بھی پڑتی رہی، بارشیں کم ہوئیں اور خشک سالی بڑھی تو ’ہم بھی شہری علاقوں کی طرف چلے جائیں گے۔‘

ان کا اور ان جیسے سینکڑوں چولستان کے رہائشیوں کے لیے پانی کے بغیر مویشیوں کو پالنا ممکن نہیں ہو گا اور مویشیوں کے بغیر وہ گزر بسر نہیں کر پائیں گے۔

چولستان کی حالیہ صورتحال موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات کی ایک واضح مثال ہے۔ اس کے اندر باقی دنیا کے لیے بہت سے سبق موجود ہیں۔