درآمدی اشیا پر پابندی کے حوالے سے حکومت کا ایک اور یوٹرین؟ ’سینیٹری پیڈز، ڈائپرز یا ان کے خام مال کی درآمد پر کوئی پابندی نہیں‘ مفتاح اسماعیل کی وضاحت

خاتون

،تصویر کا ذریعہGetty Images

    • مصنف, منزہ انوار
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

پاکستان میں درآمد ہونے والی اشیا پر پابندی کے حوالے سے ابھی تک ابہام ہے اور حکومت کو ہر دوسرے روز وضاحتیں دینے اور ممنوعہ اشیا میں سے کسی نے کسی ایک پر پابندی سے یوٹرن لینا پڑ رہا ہے۔

ملک میں درآمد ہونے والی مختلف اشیا کی درآمد پر پابندی کا فیصلہ معاشی دباؤ کے باعث نتائج کا اندازہ لگائے بغیر بظاہر جلدی میں لیا گیا اور اب مختلف اشیا اور ان کے خام مال کے حوالے سے عوام اور صنعت کاروں کے خدشات سامنے آنے کے بعد حکومت کو روزانہ اس لسٹ کا ازسرِ نو جائزہ لینا پڑ رہا ہے۔

دو روز قبل حکومت نے شہریوں کے خدشات کا نوٹس لیتے ہوئے جانوروں کی خوارک اور انرجی سیورز کی امپورٹ پر لگائی گئی پابندی واپس لینے کے بعد آج صبح وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو وضاحت دینا پڑی کہ حکومت نے سینیٹری پیڈز، ڈائپرز یا ان کے بننے میں استعمال ہونے والے خام مال پر پابندی عائد نہیں کی ہے اور یہ پابندیاں صرف ’کچھ لگژری یا غیر ضروری سامان‘ پر لگائی گئی ہیں۔

اپی ٹویٹ میں انھوں نے وضاحت کی کہ ’کسی صنعتی خام مال‘ پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔ ’پابندی صرف کچھ لگژری یا غیر ضروری اشیا پر ہے۔ اور یقینی طور پر سینیٹری پیڈز یا ڈائپرز (یا ان کے خام مال) پر کوئی پابندی نہیں ہے، جو ظاہر ہے کہ ضروری اشیا ہیں۔‘

X پوسٹ نظرانداز کریں, 1
X کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں

X پوسٹ کا اختتام, 1

یاد رہے گذشتہ ہفتے وفاقی حکومت نے ملک میں درآمد ہونے والی مختلف اشیا کی درآمد پر پابندی لگا دی تھی جن میں لگژری آئٹمز، کھانے پینے کی اشیا، بڑی گاڑیاں اور موبائل فون کے علاوہ چند دوسری چیزوں کی امپورٹ پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ کچھ دن پہلے کسٹم حکام کی جانب سے کراچی ایئرپورٹ پر بیرون ملک سے آنے والے پاکستانیوں کے سامان سے اشیا کی ضبطی کے بعد مفتاح اسماعیل کو وضاحت دینا پڑی تھی کہ حکومت کی جانب سے کچھ غیر ضروری چیزوں کی درآمد پر پابندی سے ان چیزوں کی پاکستان میں سمگلنگ بڑھ سکتی ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ اس سلسلے میں عام شہریوں کو پریشان نہیں کیا جائے گا۔

وزیِر خزانہ کو سینیٹری پیڈز اور پیمپرز کے حوالے سے وضاحت کیوں دینا پڑی؟

گذشتہ ہفتے ملک میں درآمد ہونے والی مختلف اشیا پر پابندی کے بعد چند خواتین کی جانب سے ایسے خدشات سامنے آئے ہیں کہ درآمدی پابندیوں میں سینیٹری پیڈ بنانے کے لیے استعمال ہونے والا خام مال بھی شامل ہے۔

X پوسٹ نظرانداز کریں, 2
X کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں

X پوسٹ کا اختتام, 2

پاکستان میں بٹر فلائی پیڈ بنانے والی کمپنی ’سانٹیکس‘ کے چیف آپریٹنگ آفیسر محمد کامران نے ڈان امیجز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی کمپنی اس فیصلے سے کس طرح متاثر ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہماری تمام مصنوعات پاکستان میں تیار کی جاتی ہیں، لیکن نیپکن کی بنیاد جن دو خام مال سے تیار ہوتی ہے، وہ درآمد کیے جاتے ہیں۔ پابندی کا مطلب یہ ہوگا کہ فیکٹری کو بالآخر بند ہونا پڑے گا کیونکہ سپلائی بند ہونے کے بعد ہم مزید یہ نیپکن تیار نہیں کر سکتے۔‘

ایک خاتون صارف نے ڈان ایمیجز کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے صحت کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹویٹر ہینڈل اور مریم نواز کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ آپ کو اس بات کا احساس ہے یا نہیں کہ اس ملک میں لڑکیوں اور خواتین کی اکثریت پیڈ استعمال کرتی ہے۔ اس ملک میں پیڈ کے دو سب سے بڑے سپلائرز میں سے ایک کا بند ہو جانا صحت اور معیشیت کے حوالے سے ایک بحران پیدا کرے گا۔‘

وہ مزید لکھتی ہیں کہ ماہواری میں کپڑے کا استعمال غیر محفوظ اور غیر صحت بخش ہے اور اس سے خواتین گھر پر رہنے پر مجبور ہوں گی۔

Getty Images

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سوشل میڈیا پر کئی خواتین یہ شکایت کرتی نظر آئیں کہ جس جس برینڈ کے پیڈز وہ استعمال کرتی ہیں سٹورز پر ان کی قلت ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جویریا اکرم نے وزیراعظم شہباز شریف کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ آپ نے جانوروں کی خوراک کی درآمد پر پابندی واپس لے لی، کیا اس ملک کی عورتیں جانوروں سے بھی گئی گزری ہیں؟ ایک اور صارف نے بھی مریم نواز اور مفتاح اسماعیل کو ٹیگ کرکے لکھا کہ خدارا اس پر غور کریں یہ چاکلیٹ سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہم عورتوں کو محفوظ اور صحت بخش محفوظ سینٹری سامان کی ضرورت ہے۔

@ghumhourss

،تصویر کا ذریعہ@ghumhourss

عالمی ادارہ تجارت کے ساتھ معاہدے کی رو سے کیا پاکستان ان پابندیوں کا متحمل ہو سکتا ہے؟

اس حوالے سے ماہرِ معاشیات اور ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک سے وابستہ ڈاکٹر ایوب مہر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان جنوری سنہ 2001 سے عالمی ادارہ تجارت (ڈبلیو ٹی او) کے پائینر ممبرز میں شامل ہے اور یہ فری ٹریڈ ایگریمنٹ ہے جس کی رو سے ادارہ علاقائی تجارت کو فروغ دینے کی اجازت دیتا ہے لیکن پاکستانی حکومت امپورٹ پر کسی قسم کی ڈیوٹیز نہیں لگا سکتی۔ لیکن دو شقیں اس کی اجازت دیتی ہیں:

  • پہلی شق کو ’انجری کلاز‘ کا نام دیا گیا ہے جس کے رو سے اگر جو چیز درآمد کی جاری ہے وہ مقامی مارکیٹ میں بھی تیار ہو رہی ہو اور مقامی مارکیٹ کو اس کی درآمد سے نقصان پہنچ رہا ہو، تو اس صورت میں اس پروڈکٹ پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگا کر اس کی درآمد روکی جا سکتی ہے۔ تاہم اس میں بھی ایک شرط رکھی گئی ہے کہ یہ ریگولیٹری ڈیوٹی ایک مخصوص وقت (زیادہ سے زیادہ تین سال) کے لیے لگائی جاتی ہے۔ اس تین سال کے دوران مقامی پروڈکٹ کو اس قابل بنانا ہوتا ہے کہ وہ درآمد کی جانے والی پروڈکٹ کا مقابلہ کر سکے۔ اگر مقامی طور پر تیار کردہ کسی پروڈکٹ کو درآمد کی گئی چیز سے نقصان نہیں پہنچ رہا تو ڈیوٹی نہیں لگائی جا سکتی ورنہ عالمی عدالت میں حکومت کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
  • دوسری شق کو ’اینٹی ڈمپنگ کلاز‘ کا نام دیا گیا ہے جس کی رو سے حکومت کسی چیز کی درآمد پر پابندی اس صورت میں لگا سکتی ہے اگر درآمد کی جانے والی چیز جس جگہ سے درآمد کی جا رہی ہو اس کے متعلق ایسا ثبوت مل جائے کہ مقامی مارکیٹ کو خراب کرنے اور اسے کنٹرول کرنے کی غرض سے جان بوجھ کر اپنی پراڈکٹ ہماری مارکیٹ میں سستی بیچی جا رہی ہے۔ اس صورت میں اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی لگا کر اسے روکا جا سکتا ہے۔

موجودہ صورتحال کے حوالے سے ڈاکٹر ایوب مہر کا کہنا ہے کہ حکومت نے جن اشیا پر ڈیوٹی لگائی ہے اس کا جواز یہ بتایا ہے کہ ان کی وجہ سے ہمارا امپورٹ بل بڑھ جاتا ہے جس سے تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ڈالرز کی کمی بھی ایک وجہ بتائی گئی ہے۔۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ قانون کی رو سے اس کلاز کی بنیاد پر ڈیوٹی نہیں لگائی جا سکتی تاہم جس اشیا پر ڈیوٹی لگائی گئی ہے وہ کوئی اتنی اہم نہیں ہیں اور پاکستان کی کل درآمدی اشیا کا 10 فیصد سے بھی کم بنتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے درآمدی اشیا پر پابندی لگاتے ہوئے احتیاط کی ہے اور ایسی چیزیں شامل نہیں کیں جن کی بنیاد پر عالمی عدالت میں حکومت کو چیلنج کیا جاسکتا ہو۔ مزید یہ کہ ان 10 فیصد سے بھی کم اشیا جن پر ڈیوٹی لگائی گئی ہے ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں کہ پاکستان کے تجارتی خسارے میں کوئی بہتری آ سکے مگر پاکستان ابھی بھی 90 فیصد ایسی اشیا درآمد کر رہا ہے جن پر نہ حکومت نے ڈیوٹی لگائی ہے اور نہ ہی لگا سکتے ہیں۔

مارجن فنانسنگ سے درآمد میں کمی لانے کا حکومتی منصوبہ

درآمد پر پابندی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ڈاکٹر ایوب مہر کہتے ہیں کہ جس چیز پر زیادہ بات نہیں دی جا رہی وہ ’مارجن فنانسنگ‘ ہے جس سے درآمد کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو گی اور حکومت درآمدی اشیا میں کمی لانے میں کامیاب ہو گی۔

مارجن فنانسنگ کا مطلب ہے کہ امپورٹر جب کوئی چیز درآمد کرنا چاہتے ہیں تو اس کا آرڈر دیتے ہوئے ایل سی (لیٹر آف کریڈٹ) کھولنا پڑتا ہے جس کے حساب سے آپ بینک کو گارنٹی دیتے ہیں کہ پیسے بنک میں رکھے ہیں مگر پیمنٹ اپنے اکاؤنٹ میں ہی روک کر رکھیں اور اس پارٹی کو اس وقت ریلیز کیجیے گا جب یہ چیز ہمارے پاس پہنچ جائے۔ لیکن اس گارنٹی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جو چیز آپ کو دو سے تین مہینے بعد ملنی ہے اس کی تمام قیمت بینک میں رکھ دیں بلکہ پانچ سے 10 یا 20 فیصد تک پیسے بینک میں رکھے جاتے ہیں۔

تاہم اب یہ امپورٹ ڈیوٹی لگانے سے پہلے سٹیٹ بینک نے ایک ایکشن لیا ہے جس کے مطابق کچھ پروڈکٹس ایسی بتائی گئی ہیں جن کو درآمد کرنے سے قبل آپ کو 100 فیصد مارجن فنانسنگ کرنا ہو گی یعنی آرڈر دیتے وقت بینک میں 100 فیصد پیسے رکھنا ہوں گے۔

ڈاکٹر ایوب مہر کا ماننا ہے کہ اگر کوئی امپورٹر آرڈر کی 100 فیصد رقم بینک میں رکھ دیتا ہے لیکن پراڈکٹ اسے دو مہینے بعد مل رہی ہے تو اتنے عرصے کے لیے اس کے پیسے بلاک ہوں گے۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ اقدام مکمل طور پر قانونی ہے اور اس کا عالمی ادارہ تجارت سے کوئی تعلق نہیں مگر اس سے امپورٹر کی حوصلہ شکنی ہو گی اور حکومت ان طریقوں سے لوگوں کو امپورٹ سے باز رکھنا چاہتی ہے۔