شہباز تتلہ قتل کیس میں سینئر پولیس افسر کو عمر قید: ’اچھی بات ہے کہ ایسے کیسوں میں پولیس افسران کو بھی سزائیں دی جارہی ہیں‘

مفخر عدیل

،تصویر کا ذریعہPUNJAB POLICE

،تصویر کا کیپشنمفخر عدیل کے خلاف واقعاتی شہادتوں کی بنا پر فیصلہ سنایا گیا
    • مصنف, شاہد اسلم
    • عہدہ, صحافی، لاہور

لاہور کی سیشن عدالت نے سابق اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شہباز تتلہ کے قتل کے مقدمے میں ان کے بچپن کے دوست اور سابق ایس ایس پی مفخر عدیل کو مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج شبریز راجہ نے سابق اسسٹنٹ اٹارنی جنرل شہباز تتلہ کیس کا ٹرائل مکمل ہونے پر جمعہ کو زبانی طور پر سنائے گئے اپنے مختصر حکمنامے میں کیس کے دیگر دو شریک ملزمان کو بری کرنے کا بھی حکم سنایا۔

فیصلے سے قبل جیل حکام نے سابق ایس ایس پی مفخر عدیل سمیت دیگر ملزمان کو عدالت کے روبرو پیش کیا۔ عدالت نے جرم ثابت ہونے پر مفخر عدیل کو عمر قید اور جرمانے کی سزا سنائی جبکہ دو شریک ملزمان اسد سرور اور سپاہی عرفان کو بری کر دیا۔

مقتول شہباز تتلہ کے وکیل ایڈووکیٹ فرہاد علی شاہ نے کیس میں 28 سے زائد گواہوں کے بیانات پر جرح مکمل کی۔ سابق ایس ایس پی مفخر عدیل پر الزام تھا کہ انھوں نے شہباز تتلہ کو قتل کر کے لاش کو تیزاب کے ڈرم میں ڈال کر محلول بنا نے کے بعد گٹر اور گندے نالے میں بہا دیا تھا۔ شہباز تتلا کیس کا مقدمہ فروری 2020 میں درج کیا گیا تھا جبکہ 14 اکتوبر 2020 کو مفخر عدیل سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی۔

مجرم ایس ایس پی مفخر عدیل اور سابق اسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شہباز تتلہ دونوں بچپن سے دوست تھے لیکن پولیس کے مطابق مخفر عدیل نے فروری 2020 میں منہ پہ تکیہ رکھ کر اپنے درینہ دوست کو قتل کرنے کے بعد لاش کو تیزاب میں ڈال کر ضائع کر دیا تھا۔ پولیس کے مطابق انھیں ان کی بیوی نے بتایا تھا کہ مقتول نے ان کی سابقہ بیوی اسماء کا کچھ سال پہلے ریپ کیا تھا۔

اس کیس کے سپیشل پراسیکیوٹر اور سینئر قانون دان ایڈووکیٹ فرہاد شاہ نے اس کیس کے فیصلے کے بعد بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس فیصلے پر تبھی تفصیل سے بات کر سکیں گے جب وہ عدالت کا تحریری فیصلہ پڑھ لیں گے، جو ابھی تک جاری نہیں ہوا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک واقعاتی شہادتوں کا کیس تھا جسے عمدہ طریقے سے لڑاگیا اور تمام کڑیوں کو جوڑتے ہوئے اس کیس کو ثابت کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ واقعاتی شہادتوں کے حوالے سے یہ کیس کریمینل جسٹس سسٹم میں مشعل راہ کے طور لیا جائے گا۔ ایڈووکیٹ فرہاد شاہ کے مطابق آج ’انھیں خوشی ہے کہ مقتول شہباز تتلہ کے ننھے بچوں کے ساتھ نہ صرف انصاف ہوا بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آیا۔‘

عدالتی فیصلے کے مطابق مجرم مفخر عدیل نے اپنی صفائی میں بتایا کہ وہ ایک قابل پولیس افسر تھا لیکن اس کے سینئر افسران کی ذاتی رنجش کی وجہ سے اسے قتل کے اس کیس میں شامل کیا گیا۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ یہ ماننا مشکل ہے کہ بغیر کسی وجہ کے ملزم کو اس کیس میں مدعی نے سینیئر پولیس افسران کے کہنے پر ہی ملوث کروا دیا تھا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق ملزم کی طرف سے اپنی صفائی میں پیش کیے گئے شواہد متاثر کن نہیں تھے۔

عدالت نے لکھا کہ پراسیکیوشن نے مفخر عدیل کے خلاف بغیر کسی شک و شبہ کے کیس کو ثابت کر دیا ہے، ایسے میں ملزم کی طرف سے اپنی صفائی میں پیش کیے گئے مواد کی کوئی اہمیت نہیں۔ عدالتی فیصلے کے مطابق مفخر عدیل کے خلاف پراسیکیوشن نے کیس ثابت کردیا ہے کہ ملزم مفخر عدیل نے ہی شہباز تتلہ کو اغواء کیا، پھر اس کا قتل کرکے اس کی لاش تیزاب میں ڈال کر ضائع کردی اور شواہد مٹائے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق جب کیس کی تمام کڑیوں کو جوڑا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مفخر عدیل نے ہی شہباز تتلہ کو قتل کیا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق جمع کیے گئے شواہد اور پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی رپورٹس نے بھی پراسیکیوشن کے کیس کو تقویت دی۔

ملزم مفخر عدیل کے خلاف پراسیکیوشن کیس پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کے سیکشن 302 (قتل)، 365(اغواء) اور 201(مقتول کی لاش کو غائب کرنا) بغیر کسی شک و شبہ کے ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے جس کی وجہ سے مفخر عدیل کو اغواء کے جرم میں 5سال، قتل کے جرم میں عمر قید اور مقتول کی لاش کو غائب کرنے کے جرم میں 5سال کی سزا دی جاتی ہے۔

مجرم مفخر عدیل کو کل ملا کر 4 لاکھ 50 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے اور اگر وہ جرمانے کی رقم دینے سے قاصر رہے تو سزا چند ماہ مزید بڑھ جائے گی۔ دوسری طرف پراسیکیوشن شریک ملزمان اسد سرور بھٹی اور عرفان علی کے خلاف کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا جس کی وجہ سے انھیں بری کر دیا گیا ہے۔

سزا کے تعین کے حوالے سے عدالت نے لکھا کہ جہاں تک سزا کے تعین کا تعلق ہے تو اس بات کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اعلیٰ عدالتی فورم نے یہ بات واضح کی ہے کہ ایسے جرائم جن میں سزائے موت دی جا سکتی ہو ان میں قتل کی وجہ عناد ثابت ہونا ضروری ہے اور وجہ عناد ہی سزا کو کم یا زیادہ بنانے کے لیے بنیادی کرادار ادا کرتا ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق اس کیس میں پراسیکیوشن نے کسی مخصوص وجہ عناد کا تذکرہ نہیں کیا جو اب بھی کہیں رازوں میں چھپی ہوئی ہے۔

پولیس کی تحقیق اور قتل کا مقصد

پولیس نے اس بھیانک قتل کے پیچھے چھپی وجہ اعناد (قتل کا مقصد)کی صداقت جاننے کے لیے ملزم مفخر عدیل کی سابقہ بیوی اسماء اور نہ ہی موجودہ بیوی عزا کو شامل تفتیش کیا تھا، جبکہ اس کیس کے اہم کرداروں میں سے ایک ملزم مفخر عدیل کی پہلی بیوی اسماء نے اپنے اور مقتول شہباز تتلہ کے درمیان کسی بھی طرح کے تعلقات کی نفی کی تھی۔

بی بی سی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اسماء نے بتایا تھا کہ ان کے سابق شوہر نے ان کے کردار کے متعلق جو پولیس کو بتایا کہ شہباز تتلہ نے ماضی میں ان کے ساتھ کوئی زیادتی یا زبردستی کی تھی وہ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کیونکہ ان دونوں کی بیچ میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔

’مفخر نے مجھ پہ جو کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی ہے وہ بالکل جھوٹ ہے اور اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ میرے اور مفخر کے درمیان طلاق کی وجوہات قطعً کسی اور شخص کی وجہ سے نہیں تھیں بلکہ میرے مفخر کے ساتھ ذاتی سطح پر سخت قسم کے اختلاف تھے۔ مفخر کی حرکتوں اور اسکی تمام باتوں کی وجہ سے میں نے 2018 میں خلع لے لیا تھا۔‘

پولیس
،تصویر کا کیپشنشہباز تتلہ قتل کیس میں جو اہم شواہد اکٹھے کیے گئے ہیں ان میں خون کے نمونے بھی شامل تھے

ملزم مفخر عدیل اور اسماء کی شادی 2002 میں ہوئی تھی۔ خاندانی ذرائع کے مطابق، اسماء کی اپنے سابق شوہر مفخر عدیل کے ساتھ چپقلش اور رنجش کافی سالوں سے جاری تھی حتٰکہ 2017 میں اسماء نے اپنے ایک قریبی عزیز کو بتایا تھا کہ وہ مفخر سے طلاق لینا چاہتی ہیں کیونکہ بقول ان کے ’ان کے شوہر کے طور طریقے ٹھیک نہیں تھے اور وہ ان پر ظلم کرتا تھا۔‘ ذرائع کے مطابق ان کے قریبی عزیز نے انھیں سمجھایا کہ وہ مفخر سے بات کریں گے اور معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔ 2018 میں جب مفخر، عزا نامی عورت سے شادی کرکے اسے اپنے گھر لے آیا تو اسماء نے مفخر سے خلع لے لیا اور اپنے تینوں بچوں کو اپنے سابق شوہر کے پاس چھوڑ کر اپنے والدین کے گھر چلی گئیں۔ اسماء نے بھی بعد میں دوسری شادی کر لی۔

یہ بھی پڑھیئے

50 روز کے قریب کی گئی تحقیقات کی روشنی میں پولیس کی طرف سے پراسیکیوشن میں جمع کروائے گئے اس کیس کے چالان میں پولیس نے کل 28 گواہوں کی فہرست عدالت میں جمع کروائی تھی جن میں 12نجی (پرائیویٹ) اور 16پولیس اہلکار شامل تھے۔

12 نجی گواہوں میں گھر کا مالک، گھر کرائے پہ دلوانے والا پراپرٹی ڈیلر اور تیزاب بیچنے والی دکان کا مالک وغیرہ شامل تھے۔ ان میں سے ایک بھی چشم دید گواہ نہیں تھا جس نے شہباز تتلہ کا قتل ہوتے یا مقتول کو جائے وقوعہ والے گھر میں یا اسکے آس پاس بھی دیکھا ہو۔ گواہوں کی فہرست میں دو گواہ مزمل حسین اور عمر فاروق ہی وہ واحد کڑی تھے جو مقتول کے غائب ہونے اور مفخر عدیل کے ساتھ جانے کو جوڑتے ہیں کیونکہ انھوں نے ہی شہباز تتلہ کو 07 فروری کی شام کلمہ چوک کے پاس سے ملزم مفخر عدیل کی سرکاری گاڑی میں بیٹھتے ہوئے دیکھا تھا۔

دوسری طرف پولیس چالان کے مطابق 11 فروری کو مزمل اور عمر کی نشاندہی کے بعد سیف سٹی اتھارٹی سے مفخر عدیل کی گاڑی کا روٹ فوٹیج نکلوایا گیا اور ایم بلاک ماڈل ٹاؤن ایکسٹینشن تک گاڑی کے جانے کی تصدیق کے بعد 13 فروری کو پولیس جائے وقوعہ یعنی مکان نمبر 126/M میں داخل ہوئی، جہاں شہباز تتلہ کا مبینہ قتل کیا گیا تھا۔

پولیس کے پاس سب سے اہم ثبوتوں میں سے ایک وہ فرانزک رپورٹ تھی جس میں اس گھر سے ملنے والے ایک گلاس پہ ملزم مفخر کی بائیں ہاتھ کی دو انگلیوں (انڈیکس اور مڈل فنگر) کے نشانات پائے گئے تھے، جس سے ملزم کی اس گھر میں موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔

سینیئر قانون دان اور سابق سیکرٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شمیم ملک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ایک واقعاتی شہادتوں (Circumstantial evidence) پہ مبنی کیس تھا جس میں پولیس اور پراسیکیوشن کے پاس ملزمان کے خلاف قتل کرنے کے براہ راست شواہد نہیں تھے لیکن پھر بھی سابق پولیس افسر کو عمر قید کی سزا دینے سے لگتا ہے کہ عدالت نے ایسی شہادتوں پہ کافی انحصار کیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تحریری فیصلہ آنے کے بعد ہی اس بات کا پتا چلے گا کہ ایسے کیس میں جس میں لاش بھی نہ ہو، آلہء قتل بھی نہ ہو اور کوئی چشم دید گواہ بھی نہ ہو، تو پولیس اور پراسیکیوشن کس طرح سے ایک سابق سینئر پولیس افسر کو سزا دلوانے میں کامیاب ہوئے۔

ایک سوال ک جواب میں شمیم ملک کا کہنا تھا کہ انھوں نے بہت کم دیکھا ہے کہ قتل جیسے سنگین جرائم میں پولیس افسران کو کبھی سزا دی گئی ہو۔ ’یہ اچھی بات ہے کہ ایسے کیسیز میں پولیس افسران کو بھی سزائیں دی جارہی ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ اس کیس کے فیصلے سے فرانزک سائنس ایجنسی کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔

اس وقت کے سی سی پی او لاہور ذوالفقار حمید نے بی بی سی کو بتایا تھاکہ دستیاب ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے تفتیش کو مکمل کیا گیا۔

’ہمارے پاس چار طرح کے شواہد ہیں جن میں فرانزک، موقع کے گواہان، سیف سٹی اتھارٹی کی فوٹیج اور واقعاتی ثبوت بھی ہیں جو کہ اس کیس کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔‘

قتل کی وجہ اعناد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مفخر عدیل نے انھیں بتایا تھا کہ اس نے اپنی سابقہ بیوی سے تعلقات کے شبے میں ہی شہباز تتلہ کو قتل کیا تھا۔