عارف خان: کراچی کے ’جوکر‘ جن کی درد بھری آواز کے پیچھے چھپی مجبوریاں انھیں تین نوکریاں کرنے پر مجبور کر رہی ہیں

عارف خان

،تصویر کا ذریعہYoutube/AhmedKhan

    • مصنف, محمد صہیب
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام

'ساری زندگی مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ میرا وجود ہے بھی یا نہیں، لیکن میں موجود ہوں اور اب لوگ بھی میری طرف متوجہ ہونے لگے ہیں۔'

یہ الفاظ سنہ 2019 کی ہالی وڈ فلم جوکر میں مرکزی کردار ادا کرنے والے آرتھر فلیک کے ہیں جو معاشرتی تقسیم اور دہرے معیار سے تنگ آ کر یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

ایسا ہی ایک کردار پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی برنس روڈ پر بھی موجود ہے، جس نے اب صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ انڈیا میں بھی لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیا ہے۔

چند روز قبل کراچی کی برنس روڈ پر بچوں کو محظوظ کرنے کے لیے جوکر کے مخصوص لباس میں ملبوس عارف خان دن کی تیسری نوکری میں مگن تھے۔

ایسے میں ایک یوٹیوبر احمد خان ان کی جانب بڑھے اور ان سے پوچھا کہ وہ ‘جوکر‘ کے علاوہ کیا کام کرتے ہیں۔ عارف نے انتہائی درد ناک لہجے میں جواب دیا کہ وہ گانا گا لیتے ہیں۔

عارف سے جب اپنی مرضی کا کوئی بھی گانا گانے کا کہا گیا تو انھوں نے بالی وڈ فلم اگنیپتھ کے لیے معروف گلوکار سونو نگم کا گانا 'ابھی مجھ میں کہیں' سنا دیا۔

گانے کے دوران ان کی آواز میں چھپا درد ان کے سروں کی گہرائی کو مزید نمایاں کر رہا تھا۔ یہ گانا سننے والے اکثر افراد جہاں مشکل سروں اور جگہوں پر انتہائی اطمینان سے عبور حاصل کرنے پر ان کی تعریف کر رہے ہیں وہیں ان کی آواز میں موجود درد اکثر کے دلوں کو چھو رہا ہے۔

میک اپ میں چھپے عارف کے چہرے کے تاثرات تو واضح نہیں تھے، لیکن 'آنکھیں تھیں جو کہہ گئیں سب کچھ۔'

ان کی ویڈیو اس وقت مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وائرل ہو چکی ہے اور لوگ ان کی کہانی جاننے کے لیے بھی بے تاب ہیں اور ان کی مدد کرنے کا وعدہ بھی کر رہے ہیں۔

پاکستانی میوزک پروڈیوسر اور کوک سٹوڈیو کے متعدد سیزن پروڈیوس کرنے والے روحیل حیات نے ٹوئٹر پر پہلے ان کا نمبر مانگا اور بعد میں ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’عارف سے آج بات ہوئی، وہ بہت پیارے انسان ہیں، انھیں سب سے پہلے قومی ترانہ گنوانے کے لیے دعوت دوں گا اور پھر دیکھوں گا کہ انھیں بطور گلوکار کیسے پرموٹ کیا جا سکتا ہے۔‘

عارف خان

،تصویر کا ذریعہYoutube/AhmedKhan

کراچی میں ایک یوٹیوبر کو دیے انٹرویو میں گانا سنا کر سب کے دلوں کو موہ لینے والی آواز کے پیچھے موجود گلوکار عارف خان کون ہیں اور اتنے دکھی کیوں ہیں؟

’خدا نے دولت نہیں دی، حسن نہیں دیا لیکن آواز تو دی ہے نا‘

کب کس کی قسمت چمک جائے اور وہ 'لمحہ' کب سامنے آ جائے، یہ تو سب مقدر کے کھیل ہیں لیکن 26 سالہ عارف خان کو اپنے ٹیلنٹ پر اس وقت یقین ہوا جب چند روز قبل اچانک انھیں مشرقِ وسطیٰ کے ممالک اور انڈیا سے بھی کالز اور پیغامات موصول ہونے لگے۔

کراچی کے سرجانی ٹاؤن کے رہائشی عارف خان دو کمروں کے مکان میں رہتے ہیں اور جب عید کے دوسرے دن انھوں نے بی بی سی سے بات کی تو تاحال ان کے محلے میں یہ بات مشہور نہیں ہوئی تھی کہ ان کی گائیکی سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے۔

عارف کہتے ہیں کہ ’ابھی تک تو ایک عام آدمی کی طرح گھوم رہے ہیں، کسی کو نہیں پتا کہ ہم کون ہیں، کیونکہ اس ویڈیو میں میک اپ کی وجہ سے چہرہ پچانا نہیں جا رہا۔‘

اس دو کمرے کے مکان میں عارف کی اہلیہ اور ان کے چار بچوں کے علاوہ ان کے پانچ بہن، بھائی بھی رہتے ہیں۔ عارف بتاتے ہیں کہ ان کی والد اور والدہ کی وفات تین، چار سال قبل ہوئی تھی جس کے بعد گھر میں سب سے بڑا ہونے کے باعث تمام تر بوجھ ان کے کندھوں پر آ گیا تھا۔

X پوسٹ نظرانداز کریں
X کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں

X پوسٹ کا اختتام

اب وہ دن میں تین، نوکریاں کر رہے ہیں اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے انھوں نے جوکر کی نوکری عارضی طور پر اختیار کی تھی۔

عارف کہتے ہیں کہ ’بس اللہ پاک ہی پورا کرتے ہیں۔ دن رات لگے رہتے ہیں، نہ صبح نہ شام، نیند بھی پوری نہیں ہوتی، بس لگے رہتے ہیں، کیا کریں۔‘

دیگر نوکریوں میں عارف بطور سیلزمین ملازمت کرتے ہیں، لیکن اس سب کے درمیان گلوکاری کا شوق کیسے پورا ہوتا ہے، اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے محلے اور برادری میں زیادہ تر لوگ گاتے ہیں، ہم بچپن سے ہی گا رہے ہیں، غریب آدمی جیسا ہوتا ہے، بالکل غریب طبقے سے تعلق۔ بس یہ ہے کہ گانا آتا تھا، شوق تھا، گاتے ہیں۔‘

عارف خان

،تصویر کا ذریعہYoutube/AhmedKhan

ان کی جانب سے ہر سوال کا بہت مختصر جواب آنے کے بعد جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی آواز میں موجود درد کہاں سے آتا ہے تو انھوں نے کہا کہ ’درد یہی ہے کہ والد والدہ نہیں ہیں، اس کے بعد دنیا کو ایسے جھیلنا پڑ رہا ہے کہ مجبوریوں کی وجہ سے خواریاں کی وجہ سے۔۔۔ بس درد بھری کہانی اپنی بیان کر دیتے ہیں گا کر۔‘

لیکن عارف قدرت اور نصیب کے فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ اسی مقبول ویڈیو میں وہ یہ بھی کہتے سنے جا سکتے ہیں کہ ’بچوں کو ہنسا رہے ہیں چوری چکاری تو نہیں کر رہے۔‘

ٹوئٹر پر نعمان خان زئی نامی صارف بھی ان کی خودداری کی گواہی دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’برنس روڈ پر کئی مرتبہ انھیں بچوں کو محظوظ کرتے دیکھا ہے۔ لیکن یہ گزرتے لوگوں سے پیسے وصول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ میں یہاں بھیک مانگنے نہیں کمانے آیا ہوں۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ گلوکار بھی ہیں۔‘

عارف اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’قدرت اور نصیب کے جو فیصلے لکھے ہوئے ہیں اس کے اوپر چل رہے ہیں، اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے۔ اس نے دولت نہیں دی، حسن نہیں دیا لیکن آواز تو دی ہے نا۔‘

یہ بھی پڑھیے

تاہم اب اس نئی حقیقت کو ماننے کے لیے عارف خود کو تیار کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’انڈیا، دبئی، سعودی عرب اور بھی بہت سے ممالک سے لوگ کالز کر رہے ہیں، مدد کے لیے اکاؤنٹ نمبر مانگتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پڑھنا نہیں آتا ہے، پتا نہیں چلتا کہ کون بات کر رہا ہے۔ صحیح سے پڑھ نہیں سکتے، دوست سے رابطہ کیا، اب وہ پڑھ کے بتاتا ہے۔‘

عارف نے اس کال کے دوران ایک بار پھر کہا کہ انھیں لوگ کہا کرتے تھے کہ ان کی آواز اچھی ہے لیکن وہ کام میں اتنا مصروف تھے، اور پریشانیاں اتنی تھیں کہ وہ کیا بولتے۔

’مکان کرائے پر ہے، چار پانچ بہن بھائی ہیں، بچے ہیں، بندہ اپنے آپ کو نہیں پال سکتا ہے، مہنگائی ہی اتنی ہے۔‘

عارف

،تصویر کا ذریعہCourtesy Arif Khan

’قدرت کی تقسیم ہے کچھ کو لفٹ مل جاتی ہے، کچھ سیڑھیاں چڑھتے رہتے ہیں‘

پاکستان میں تو سوشل میڈیا پر لوگ عارف خان کی پذیرائی کر ہی رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کی آواز سرحد پار بھی لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہی ہے۔

یوٹیوب کے پیغامات کے سیکشن میں اندراجیت سنگھ لکھتے ہیں کہ ’آپ نے مجھے رلا دیا بھائی، ہمارے درمیان موجود سرحدیں ہمیں بے شک تقسیم کرتی ہیں لیکن اس سب سے پرے ایک ایسی جگہ ہے جہاں میں گھنٹوں آپ کی آواز سن سکتا ہوں۔‘

انڈیا سے ایلکس جارج کے نام سے صارف لکھتے ہیں کہ ’ان کے چہرے سے عیاں ہے کہ وہ کس قرب سے گزر رہے ہیں اور ان کے گانوں سے بھی یہی محسوس ہوتا ہے۔‘

عارف خان

،تصویر کا ذریعہTwitter

اشیش گپتا لکھتے ہیں کہ ’مجھے ان کی آواز صحیح معنوں میں محسوس ہوئی، ایسے لوگوں کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے جو اپنے خاندان کے لیے کام کرتے ہیں اور اپنے خوابوں کو الگ کر دیتے ہیں۔‘

پاکستان میں جہاں لوگ ان کے ٹیلنٹ کی تعریف کر رہے ہیں وہیں سابق ایم این اے کنول شوزب نے اسے سیاسی رنگ بھی دیا۔ انھوں نے لکھا کہ ’دل میں کتنا درد ہے، چہرے پر عیاں ہے۔ جوکر دوسروں کو ہنساتا ہے اور خود اندر ہی اندر روتا ہے۔ غریبی کا بھرم کیا خوب رکھا ہے اس خوددار نے۔

’کاش غلام امپورٹڈ حکومت دیکھے کہ یہ قوم بھکاریوں کی نہیں خودداروں کی ہے، غلامی نہیں آزادی کی حق دار ہے۔‘

ایک صارف نے لکھا کہ ان کے چہرے پر موجود درد کے باعث میں ان کی گائیکی سے لطف اندوز نہیں ہو پایا۔

عارف خان

،تصویر کا ذریعہTwitte/@amjad

امجد نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’اس کے اندر کا کرب۔۔۔ اللہ اکبر۔ کیا کیا مجبوریاں کیا کیا کروا دیتی ہیں۔‘

ایک صارف نے معاشرتی و معاشی تقسیم کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’قدرت کی تقسیم ہے کچھ کو لفٹ مل جاتی ہے کچھ سیڑھیاں چڑھتے رہتے ہیں۔