عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب: کیا پاکستان میں نئی ممکنہ مخلوط حکومت مہنگائی کے جن پر قابو پا سکے گی؟

مہنگائی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

    • مصنف, تنویر ملک
    • عہدہ, صحافی، کراچی

سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعمتاد کی کامیابی اور اُن کی ایوان وزیراعظم سے رخصتی کے بعد پاکستان میں قائم ہونے والی حکومت کو کئی سیاسی جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت چلانے کے ساتھ معیشت کے محاذ پر بھی بڑے چینلجز کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں سرفہرست مہنگائی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اپنے سیاسی مخالفین کی جانب سے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اِس وقت دنیا بھر میں تیل اور اجناس کی قیمتیں بلند سطح پر ہیں اور پاکستان کو توانائی اور خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے درآمدات پر بڑی حد تک انحصار کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں معیشت کے ماہرین نئی حکومت کے آنے کے بعد بھی مہنگائی میں کمی کے امکان کو مسترد کرتے ہیں جبکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے پہلے ہی موجودہ مالی سال کے دوران مہنگائی کی شرح بلند رہنے کی پیش گوئی کر رکھی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کی اقتصادی ٹیم کی اہم رکن اور سابق وزیر خزانہ پنجاب ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کے نزدیک مہنگائی کی بین الاقوامی اور مقامی وجوہات ہیں اور اُن کے مطابق نئی حکومت اپنی معاشی حکمت عملی ان دونوں وجوہات کو مدنظر رکھ کر ترتیب دے گی۔

پی ٹی آئی دور میں مہنگائی کا کیا رجحان رہا؟

مہنگائی کے خلاف مظاہرہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان مسلم لیگ نواز کے گذشتہ دور اقتدار کے آخری مالی سال یعنی 2018 میں پاکستان اکنامک سروے کے مطابق مہنگائی کی شرح 5.2 فیصد تھی۔ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے بعد مہنگائی کی شرح میں تسلسل سے اضافہ دیکھنے میں آیا اور تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے مالی سال (سنہ 2019) کے صرف پہلے نو مہینوں میں مہنگائی کی شرح سات فیصد تک پہنچ گئی تھی۔

ادارہ شماریات کے مطابق مالی سال 2020 میں مہنگائی کی شرح مزید بڑھتے ہوئے 10.74 ہو گی تاہم اس سے اگلے سال (2021) کے دوران اس رجحان میں کچھ کمی دیکھنے میں آئی اور اس کی شرح نو فیصد سے نیچے رہی تاہم موجودہ مالی سال کے پہلے نو مہینے میں مہنگائی کی شرح 12.7 فیصد ہو چکی ہے۔

اسی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کے مرکزی بینک نے شرح سود کو بڑھاتے ہوئے ملک میں موجودہ مالی سال کے اختتام تک مہنگائی کی شرح کے اپنے پرانے تخمینوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے گیارہ فیصد سے زائد رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ اِس وقت ملک میں مہنگائی کی شرح 13 فیصد ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ماہر معیشت اور پاکستان انسٹیٹوٹ آف ڈویلیپمنٹ اکنامکس کے ریسرچ فیلو شاہد محمود کے مطابق عمومی طور پر سرکاری اعداد و شمار اصل مہنگائی کی شرح سے تھوڑے کم ہی بتائے جاتے ہیں۔ اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق اس وقت ملک میں مہئگائی کی شرح تقریباً 15 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

افراط زر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مہنگائی کی بلند شرح کی وجہ کیا؟

ملک کے معروف معاشی ماہرین کے نزدیک اس وقت ملکی سطح پر مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل اور اجناس کی بلند سطح پر موجود قیتمیں ہیں اور پاکستان کو مقامی ضرورت پوری کرنے کے لیے ان کی درآمد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ملک میں ایکسچینج ریٹ یعنی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بے تحاشا کمی بھی ملک میں اس مہنگائی کو بڑھا رہی ہے۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عالمی منڈی میں تیل، گیس اور اجناس کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں اور ان میں کوئی بڑی کمی بھی ہوتی نظر نہیں آتی ۔ ڈاکٹر پاشا نے بتایا کہ یوکرین اور روس کے تنازع نے جہاں تیل و گیس کی قیمتوں کو بہت بلند سطح پر پہنچا دیا ہے۔

عارف حبیب لمیٹڈ میں معاشی اُمور کی تجزیہ کار ثنا توفیق نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں اجناس کی قیمتوں میں 'سپر بوم سائیکل' آیا ہوا ہے جس کی وجہ سے قیتمیں بہت بلند سطح پر موجود ہیں۔

اُن کے مطابق پاکستان میں اس وقت مہنگائی 'امپورٹڈ انفلیشن' ہے یعنی درآمدی چیزوں کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہوئی ہے اور پاکستان کا کمزور روپیہ اسے مقامی صارفین کے لیے اسے مزید مہنگا کر دیتا ہے۔

نئی حکومت کیا مہنگائی پر قابو پا لے گی؟

پاکستان میں نئی حکومت آنے کے نتیجے میں ماہرین معیشت فوری طور پر مہنگائی کی شرح میں کمی کے امکان کو مسترد کرتے ہیں اور اس کی وجہ مہنگائی کے عالمی سطح پر نظر آنے والے ٹرینڈز ہیں۔

پاکستان کے مرکزی بینک نے بھی اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل و اجناس کی قیمتوں میں فوری طور پر کمی آنے کا کوئی امکان نہیں ہے جس کی وجہ سے مرکزی بینک نے شرح سود میں بھی اضافہ کیا ہے۔

ماہر معیشت ڈاکڑ فرخ سلیم نے کہا بنیادی طور مہنگائی کی وجوہات کو فوری طور پر دورکرنا بڑا مشکل ہے۔ انھوں نے کہا نئی حکومت کے لیے دودھ، چینی، گندم، خوردنی تیل اور دالوں کی قیمتیں کم کرنا مشکل ہوگا۔

انھوں نے کہا دالیں، گندم اور خوردنی تیل ملک میں درآمد ہو رہے ہیں اور اس پر سبسڈی دینا موجودہ معاشی صورتحال کے تناظر میں نئی حکومت کے لیے مشکل ہو گا کیونکہ خزانے میں پیسے نہیں ہیں۔

گراف

انھوں نے استفسار کیا کہ عام آدمی کو ریلیف دینے کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے کیونکہ اس ملک میں چار ارب ڈالر کی تو صرف گیس چوری ہو جاتی ہے، بجلی کے شعبے میں قرضہ ساڑھے چار سو ارب تک ہے اور اسی طرح کمیوڈیٹیز آپریشن کے لیے اربوں لگا دیے جاتے ہیں اور وہی گندم پھر چوری کر لی جاتی ہے۔ اُن کے مطابق عام آدمی کے لیے مہنگائی کے سلسلے میں فوری ریلیف مشکل نظر آتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ نئی حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا جس کے نتیجے میں پہلے سے دی جانے والی سبسڈی ختم کرنا پڑے گی اور اس صورت میں مزید قیمتیں بڑھیں گی۔

انھوں نے کہا پاکستان کو رواں مالی سال کے اختتام تک پانچ ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگی کرنی ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہو گا کہ اسے آئی ایم ایف سے مدد ملے جس کے لیے پاکستان کو سبسڈی ختم کرنا ہو گی۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ اگلے چند مہینوں میں مہنگائی میں کمی لانا بہت مشکل ہے جس کی وجوہات بڑی واضح ہیں کہ تیل و گیس اور اجناس کی قیمتیں بہت اوپر کی سطح پر موجود ہیں اور حکومت سبسڈی دینے کے قابل نہیں ہو گی۔

یہ بھی پڑھیے

انھوں نے کہا ملک کے بجٹ خسارے کا تخمینہ 3500 ارب لگایا گیا ہے تاہم اب یہ حالات ہیں کہ 4500 ارب تک بڑھ جائے گا۔

نواز لیگ کی اقتصادی ٹیم کی رکن اور سابق وزیر خزانہ پنجاب ڈاکٹر عائشہ بخش پاشا نے کہا کہ 'ہمارے پاس معاشی ماہرین کی ٹیم ہے جو مہنگائی کی مقامی اور بین الاقوامی وجوہات کو دیکھے گی۔'

انہوں نے کہا کہ ڈومیسٹک پالیسی اور انتظامی امور پر بھی توجہ دی جائے گی تاکہ قیمتوں میں استحکام لایا جا سکے۔

معاشی اُمور کے صحافی شہباز رانا نے کہا کہ مہنگائی کی بین الاقوامی وجوہات کے ساتھ کچھ پالیسی فیصلے ہوتے ہیں جو تحریک انصاف کی حکومت صحیح طرح سے نہ لے سکی اور اب اگلی حکومت کا یہ کام ہوگا کہ وہ ان فیصلوں کو کیسے لیتی ہے۔

انھوں نے کہا پالیسی فیصلوں میں کسی چیز کی طلب اور اس کی فراہمی پر حکومتی ورکنگ ہوتی ہے جو گذشتہ حکومت صحیح طور پر نہ کر سکی، اِسی طرح ایکسچینج ریٹ اور پرائس منیجمنٹ کے شعبے ہیں جن میں نئی حکومت کو بطور خاص دیکھنا پڑے گا۔

بجلی کی قیمتیں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کیا تیل و بجلی کی قیمت برقرار رہے گی؟

سابق وزیر اعظم عمران خان نے مارچ کے مہینے کے شروع میں ملک میں پٹرول و بجلی کی قیمتوں کو اگلے بجٹ تک منجمد کرنے کا اعلان کیا جس کے لیے حکومت کو اپنی جیب سے سبسڈی دینی پڑ رہی ہے۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق حکومت کو صرف پٹرول و ڈیزل کی مد میں بجٹ تک 136 ارب روپے کی سبسڈی دینی پڑے گی اور بجلی کے ساتھ اس سبسڈی کی مالیت 250 ارب روپے ہو گی۔

ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا حکومت کو ہر روز تین ارب کی سبسڈی ڈیزل و پٹرول کی قیمت کا موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کے لیے دی رہی ہے۔ انھوں نے کہا اگر نئی حکومت قیمتوں کو عالمی سطح کے رجحان کے تحت بڑھنے دیتی ہے تو اس کا مقامی سطح پر مہنگائی کی شرح پر بہت منفی اثر پڑے گا۔

انھوں نے کہا حکومت کو بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں اور اس کے لیے اسے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا جو ہر قسم کی سبسڈی ختم کرنے کا کہے گا۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا آئی ایم ایف کے ساتھ مذکرات کرنا ہوں گے کیونکہ بیرونی ادائیگیاں ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہیں اور حکومت کو ڈیزل و پٹرول کی قیمت میں 25 روپے تک اضافہ کرنا پڑے گا تاکہ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کیا جا سکے۔

شاہد محمود نے اس سلسلے میں کہا کہ بجٹ خسارے کے لیے ہر سال ساڑھے تین سے چار کھرب روپے ملکی ذرائع اور چودہ سے پندرہ ارب ڈالر بیرونی ذرائع سے حاصل کیے جاتے ہیں اور اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے بیرونی ادارے سبسڈی ختم کرنے کا کہتے ہیں اور پٹرول و ڈیزل پر سبسڈی بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔

ڈاکٹر عائشہ نے اس سلسلے میں کہا کہ نئی حکومت جب آئے گی تو اس مسئلے کو دیکھے گی کہ تیل کی عالمی قیمتوں کا اثر مقامی صارفین پر کم سے کم پڑے۔