آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد: شیخ رشید اور مونس الہیٰ آمنے سامنے، حکومتی وزرا کے ’مفاہمتی بیانات‘، سنیچر کو بھی ملاقاتیں
- مصنف, اعظم خان
- عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر اس وقت سیاسی گٹھ جوڑ جہاں عروج پر ہے وہیں سیاسی رہنماؤں کے بیانات میں تلخی بھی بڑھ گئی ہے۔
ایک طرف سپیکر قومی اسمبلی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گی تو دوسری طرف حکومت کے اپنے اتحادی اپنا حتمی فیصلہ سنانے کے لیے وقت طلب کر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں حکومتی وزرا نے پہلی بار سنیچر کو مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل نکالنے کی بات کی ہے۔
وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’مذاکرات سے مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے‘ مگر وفاق اور پنجاب میں حکومت کی اتحادی جماعت ق لیگ کا نام لیے بغیر اسے یہ کہہ کر ناراض کر دیا کہ ’لوگوں کی پانچ، پانچ نشستیں ہیں لیکن وہ وزارت اعلیٰ کے عہدے کے امیدوار کے لیے بلیک میل کرتے ہیں۔‘
اس کے بعد مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہی نے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ 'شیخ صاحب! میں آپ کی عزت کرتا ہوں لیکن یہ بھول رہے ہیں کہ اسی جماعت کے لیڈر اوران کے بزرگوں سے جناب اپنی سٹوڈنٹ لائف میں پیسے لیا کرتے تھے۔‘ اسی طرح بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے کہا ’بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) اپنے فیصلے خود کرتی ہے، نہ کہ شیخ رشید۔‘
دوسری طرف وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے ’تلخیاں اور تقسیم کم کرنے‘ کی تجویز دی ہے۔
اس سے قبل وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سنیچر کو اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’اپوزیشن کی بغیر سوچے سمجھے عدم اعتماد کی تحریک نے سیاست میں تلخیاں پیدا کر دیں۔‘
تاہم پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی جانب سے مذاکرات کے امکان کو مسترد کیا گیا ہے۔ سینیٹر شیری رحمان نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر سپیکر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ اسد قیصر کے بیانات ان کے متنازعہ ہونے کا واضح ثبوت ہیں۔
ادھر سنیچر کو بھی سیاسی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
اتحادیوں کی طرف سے بھی حکومت کو تسلی بخش جواب نہ ملنے پر پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’ایسی حکومت کا کیا فائدہ جس میں اپنے ہی اراکین کو نااہلی اور گھیراؤ کی دھمکیاں دے کر زبردستی ساتھ رکھنے کی سر توڑ کوششوں کے باوجود ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو اور جہاں اتحادیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بعد بھی آپ پسپا ہو رہے ہوں؟
’عمران صاحب کو یہ باتیں سمجھائیں جنھوں نے سیاست کو دشمنی میں بدل دیا ہے‘
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مصطفٰی نواز کھوکھر نے بی بی سی کے نامہ نگار اعظم خان کو بتایا کہ فواد چوہدری پہلے اپنے اس ٹویٹ کو وزیراعظم کو پڑھ کر سنائیں اگر وزیراعظم مشورے پر عمل کریں گے تو خوشی ہو گی۔
ان کے مطابق جب وزیراعظم ہر جلسے میں نفرت پر مبنی گفتگو کریں گے تو پھر تقسیم تو بڑھے گی۔ انھوں نے کہا کہ ابھی تک صرف وزیر اعظم کی طرف سے ہی نفرت والی گفتگو ہو رہی ہے۔
فواد چوہدری کے ٹویٹ کے ردعمل میں پاکستان مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ’بات چیت سیاستدانوں سے ہوتی ہے، گالیاں دینے والے غنڈوں اور بدمعاشوں سے نہیں۔‘
انھوں نے فواد چوہدری کے بیان کو حقائق کے برعکس قرار دیا اور کہا کہ ’جس نے معاشرے میں تقسیم، انتشار، فساد پیدا کیا، اس کا نام عمران خان ہے۔‘
انھوں نے بھی فواد چوہدری کو یہ مشورہ دیا کہ ’عمران صاحب کو یہ باتیں سمجھائیں جنھوں نے سیاست کو دشمنی میں بدل دیا ہے۔‘
سینیٹر مصفطیٰ کھوکھر کے مطابق ’وزیر اعظم کا نفرت کا بیانیہ دینے کا ایک ٹریک ریکارڈ ہے، اب یہی ہے کہ وزیر اعظم استعفیٰ دے دیں تو مذاکرات شروع کیے جا سکتے ہیں۔‘
ان کے مطابق اس وقت اپوزیشن کی تمام توجہ صرف تحریک عدم اعتماد پر ہے کیونکہ ہمارے پاس مطوبہ تعداد موجود ہے اور ایک دو دن میں حکومت کے اتحادی بھی اپنا فیصلہ کر دیں گے۔
مذاکرات کا کوئی امکان نہیں: شیری رحمان
پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ فی الحال مذاکرات کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ان کے مطابق ’عدم اعتماد سے بچنے کی وزیر اعظم کی منصوبہ بندی ملک کو کشیدگی اور آئینی بحران کی طرف دھکیل رہی ہے۔ شیری رحمان کے مطابق ’بوکھلاہٹ میں یہ غلط زبان اور منصوبے بنا رہے ہیں۔ مصنوعی اکثریت پر قائم اس حکومت کے دن اب گنے جا چکے ہیں۔‘
ادھر پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اورنگزیب نے کہا کہ سیاسی مخالفین کو گالی اور دھمکیاں دو، سزائے موت کی چکیوں میں ڈالو، بیٹیوں اور بہنوں کو جیلوں میں ڈالو، بے بنیاد الزامات لگاﺅ، پھر بات چیت کے لیکچر؟
ان کے مطابق ’سیاست میں گند اور غلاظت عمران صاحب نے ڈالا ہوا ہے اور اس گندگی اور غلاظت کو صاف کرکے معاشرے میں پھیلے تعفن اور گھٹن کو ختم کریں گے، ان شااللہ۔۔ عدم اعتماد معاشرے سے غلاظت کے اس ڈھیر اور عدم برداشت کے منبعے کو ہٹانے کے لیے لائی جارہی ہے۔‘
شیری رحمان نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’وزیراعظم خود کہتے ہیں کہ وہ کسی بلاک کا حصہ نہیں نیوٹرل ہیں۔ دعویٰ کرتے ہیں کرکٹ میں نیوٹرل امپائر انھوں نے ہی متعارف کرائے۔ اب کہتے ہیں نیوٹرل تو صرف جانور ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے پہلے کہا عدم اعتماد ان کے خلاف عالمی سازش ہے اب کہتے ہیں ان کی دعا قبول ہو گئی ہے۔
ق لیگ کسی کشمکش کا شکار نہیں ہے: چوہدری شجاعت حسین
مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس وقت ان کی جماعت کسی کشمکش کا شکار نہیں ہے بلکہ صورتحال کا جائزہ لے کر کل (اتوار) تک کوئی فیصلہ کرے گی۔
خیال رہے کہ آج حکومت کمیٹی نے اتحادی جماعت ق لیگ کی قیادت سے اسلام آباد میں ملاقات کی ہے اور آئندہ کے لائحہ عمل پر غوروخوض کیا گیا۔
اس ملاقات میں چوہدری شجاعت حسین شریک نہیں ہوئے جبکہ حکومت کی طرف سے وزیراطلاعات فواد چوہدری اور فرخ حبیب نے نمائندگی کی جبکہ پرویز الہیٰ کے ہمراہ ان کے بیٹے مونس الہیٰ بھی موجود تھے۔
جو بلے کے نشان پر منتخب ہو کر ووٹ نہیں دے گا اسے اخلاقی طور پر مستعفی ہوجانا چائیے: وزیر خارجہ
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو رکن اسمبلی بلے کے انتخابی نشان پر منتخب ہو کر آیا ہے وہ اگر اب وزیر اعطم عمران خان کے خلاف ووٹ دے گا تو اسے اخلاقی طور پر مستعفی ہو جانا چائیے۔
یہ بھی پڑھیے
’تصادم کی فضا بن چکی ہے، حکومت کو ہی پہلا قدم اٹھانا چاہیے‘
جیو نیوز سے وابستہ صحافی مظہر عباس نے بی بی سی کی نامہ نگار منزہ انوار سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پیغامات اچھے ہیں مگر انھیں ایکشن میں تبدیل ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’صلح اور تلخیاں کم کرنے کی بات میں کوئی برائی نہیں مگر محض ٹویٹ اور بیانات کافی نہیں۔ اگر حکومت واقعی بات چیت میں سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے وزیرِاعظم کو چاہیے کہ وہ اپنے الفاظ واپس لیں اور اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دیں اور مذاکرات کی دعوت وزیروں کے لیول پر نہیں دی جاتیں بلکہ وزیرِاعظم کی جانب سے دی جاتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس بات چیت یا مذاکرات میں تمام پہلوؤں کا احاطہ ہونا چاہیے اور اپوزیشن کی تحفظات کا حل نکالا جانے چاہیے۔‘
مظہر عباس بتاتے ہیں کہ ’سنہ 1977 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا اور وہ ایک بڑی تحریک تھی مگر اس کے بعد پھر مذاکرات سے ہی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن جب مذاکرات ہو گئے تو مارشل لا لگ گیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت واقعی تصادم کی فضا بن چکی ہے اور حکومت کو ہی پہلا قدم اٹھانا چاہیے۔
'جیسا کہ وزیرِاعظم نے ڈی چوک پر جلسے کی بات ہے، انھیں چاہیے اسے واپس لے لیں اور سپیکر کا اراکین کو روکنا ٹھیک نہیں، اس بات کا اختیار ممبران پر چھوڑ دیں کہ وہ جسے ووٹ دینا چاہتے ہیں اسے دے سکیں۔'
تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’بعد میں حکومت اپنے ان اراکین کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دے سکتی ہے۔‘
مظہر عباس کا کہنا ہے یہ سارا ماحول حکومت نے بنانا ہے، اور اگر حکومت کی طرف سے اچھا قدم لیا جائے گا تو ظاہر ہے جواب میں تلخی کم ہو گی مگر اس کی ابتدا وزیِر اعظم کی طرف سے ہونی چاہیے، اگر حکومت اپوزیشن کے خلاف استعمال کی جانے والی زبان پر پابندی عائد کرے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے ایسا ہی جواب آئے گا اور آنا بھی چاہیے۔
'اگر بیانات دینے کے تھوڑی دیر بعد وزرا اور دوسری طرف کے افراد نے وہی زبان استعمال کرنی ہے تو مسئلہ حل نہیں ہو گا۔'
وہ کہتے ہیں کہ عدم اعتماد ایک عمل ہے جو پارلیمان کے اندر ہوتا ہے لیکن موجود صورتحال میں باہر کی اس کشیدگی اور تناؤ کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔
'ظاہر ہے عدم اعتماد کی تحریک ایک آئینی راستہ ہے اور اپوزیشن کو اس آئینی راستے کو استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔ اب اگر حکومت کے اراکین اور اتحادی ٹوٹ کر جا رہے ہیں تو انھیں روکنا حکومت کا کام ہے۔‘
شیخ رشید اور مونس الہی آمنے سامنے
وزیر داخلہ شیخ رشید نے کوئٹہ میں صحافیوں کو بتایا کہ بلوچستان عوامی پارٹی عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے اور وہ بھی چٹان کی طرح عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں اور یہ کہ وہ باقی لوگوں کا ذمہ دار نہیں ہیں۔
وزیر داخلہ کے مطابق ’میں ان لوگوں کی طرح نہیں کہ پانچ سیٹوں پر صوبے کی وزارت اعلیٰ کے لیے بلیک میل کروں۔‘
جب ان سے ایک صحافی نے پوچھا کہ آپ نے پانچ ووٹوں کا اشارہ جام کمال کی طرف کیا ہے، جس پر شیخ رشید نے کہا کہ میں نے پنجاب کی سیاست کی بات کی ہے، بلوچستان عوامی پارٹی تو عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے۔
ان کے اس بیان پر جہاں ایک طرف ق لیگ نے ردعمل دیا ہے وہیں جام کمال نے بھی شیخ رشید کو کھری کھری سنا دیں۔
شیخ رشید کے اس بیان پر ق لیگ سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی مونس الہیٰ نے جواب دیا کہ وہ شیخ رشید کی قدر کرتے ہیں مگر وزیرداخلہ یہ نہ بھولیں کہ اسی جماعت کے بڑوں سے وہ زمانہ طالبعلمی میں پیسے لیتے تھے۔
بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے صدر جام کمال خان نے باپ سے متعلق شیخ رشید کے بیان پر تبصرہ کیا کہ ان کی جماعت اپنے فیصلے خود کرتی ہے نہ کہ شیخ رشید۔
اریں اثنا وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے یہ بھی کہا ہے کہ ’میرا خیال ہے کہ ہمیں صلح صفائی کی طرف جانا چاہیے، ہمیں مل بیٹھ کر مذاکرات سے کوئی حل نکالنا چاہیے۔‘
وزیرداخلہ کا مزید کہنا تھا کہ ’الیکشن میں ایک سال رہ گیا ہے، بہتر یہ ہے کہ الیکشن کی تیاری کریں، اپوزیشن تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرے، یہ نہ ہو آپ دس سال لائن میں لگے رہیں۔‘
جام کمال نے کہا کہ 'بلوچستان عوامی پارٹی اپنے فیصلے خود کرتی ہے نہ کہ شیخ رشید'۔
مونس الہی اور شیخ رشید کے بیانات پر سوشل میڈیا ردعمل
ایک صارف عبدالرحمان عادل نے لکھا کہ شیخ رشید نے صحیح بات کی نشاندہی لیکن غلط وقت پر ۔اور اس نکتے کو مونس الہی جیسے لوگ اٹھارہے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ایم ایل کیو بلیک میلرز کا ایک چھوٹا گروہ ہے اور اسی لیے وہ حکوت کا حصہ بنے'۔
ایک اور صارف امداد علی سومرو نے لکھا 'شیخ رشید عمران خان کو مزید تنہا کرنے کی مشن پر گامزن ہیں'۔
ابوداﺅد کے نام سے ایک صارف نے کہا کہ 'اس کا مطلب ہے کہ یہ بات سچ ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی چھوڑ رہے ہیں اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی حمایت کررہے ہیں ۔
ایک اور صارف خان نے کہا کہ 'مسٹر خان شیخ رشید یہاں مسائل پیدا کررہے ہیں '۔
مگر نوشی گیلانی نے کہا کہ ’مونس الٰہی۔۔ آپ بھی بھول رہے ہیں کہ الیکشن میں یہ نشتیں آپ نے عمران خان سے لی ہیں اور وزارتیں بھی۔ ورنہ تو آپ کی کہانی ختم ہو چکی تھی۔‘
ایم کیو ایم مشاورت سے فیصلہ کرے گی: امین الحق
تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق کا کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال میں فیصلہ مشاورت سے کریں گے، کارکنان اور رابطہ کمیٹی سے مشاورت کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’میرے پاس کبھی ٹیلی فون کال نہیں آئی۔‘