انصار الاسلام: جمعیت علمائے اسلام ف کی ذیلی تنظیم ایک رضاکار تنظیم ہے یا ’نجی ملیشیا‘؟

،تصویر کا ذریعہJUI-F/Social Media
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے جمعہ کی صبح ایک بار پھر دعویٰ کیا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام ف کی ذیلی تنظیم ’انصار الاسلام‘ ایک ’نجی ملیشیا‘ ہے اور اگر ملیشیا کے مخصوص لباس میں کوئی بھی شخص وفاقی دارالحکومت میں نظر آیا تو اس کو چھوڑا نہیں جائے گا۔
ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ’آئین کے تحت کسی کو پرائیویٹ ملیشیا رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔‘
یاد رہے کہ گذشتہ روز اسلام آباد میں واقع پارلیمنٹ لاجز کی بلڈنگ میں جمعیت کے ایک رکن اسمبلی کی رہائش گاہ سے پولیس نے انصار الاسلام کے 19 کارکنان کو یہ کہہ کر گرفتار کیا تھا کہ یہ تنظیم 2019 میں غیر قانونی قرار دی جا چکی ہے۔ تاہم ان کارکنوں کو جمعہ کی صبح رہا کر دیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ انصار الاسلام کیا ہے، یہ کیسے کام کرتی ہے، اس کے اراکین کی تعداد کتنی ہے اور یہ دیگر سیاسی جماعتوں کی رضاکار تنظیموں سے کس حد تک مختلف ہے؟
’بیشتر سیاسی تنظیموں میں رضاکار ونگ ہوتے ہیں‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
نمائندہ بی بی سی عزیز اللہ خان سے بات کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار عامر رانا کا کہنا تھا کہ انصار الاسلام طرز کی رضاکار تنظیمیں سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں اور اِن کا بنیادی مقصد جماعت کے قائدین اور جماعت کی مختلف سرگرمیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔
انصارالاسلام اور دیگر اس نوعیت کی سیاسی رضا کار تنظیموں میں فرق یہ ہے کہ اِن کو جماعت نے ایک یونیفارم دی ہے مگر اس کی بنیاد پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کوئی نجی ملیشیا ہے، بلکہ یہ ایک طرح کے رضاکار ہوتے ہیں اور ان کو ضرورت کے وقت تعینات کیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’انصار الاسلام‘ بنیادی طور پر جمعیت علمائے اسلام کے تاریخی حوالے سے خاکسار تحریک یا تحریک الاحرار سے متاثر ہے۔
جب اُن سے جب پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کا آئین اور قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اس نوعیت کی رضاکار تنظیموں پر پابندی عائد کی جائے، تو عامر رانا نے کہا کہ وہ تنظیمیں جو آئین یا قانون کے تحت کالعدم قرار دی جاتی ہیں جو تشدد، نفرت انگیز تقاریر یا ریاست کے خلاف اقدامات یا ارادے رکھتی ہوں، لیکن رضا کار تنظیموں کے حوالے سے قانون خاموش ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
انھوں نے کہا کہ ’اس طرح کے رضاکار ہر جماعت اور اداروں کے ساتھ ہوتے ہیں اور سادہ الفاظ میں آپ انھیں پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز کہہ سکتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ انصار الاسلام کا نام چونکہ مذہبی ہے یا ایسی تنظیموں سے ملتا جلتا ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے تشدد کے واقعات میں ملوث رہے ہیں اس لیے اس طرف زیادہ توجہ دی جاتی ہے حالانکہ اس طرح کے رضاکار ہر جماعت کے ساتھ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی بھی رضاکار تنظیمیں موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
تاریخی حوالے سے عامر رانا نے بتایا کہ ’برصغیر پاک و ہند میں غدر کے بعد جب مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتیں وجود میں آنا شروع ہوئیں تو اس وقت جب برطانوی سکیورٹی پر ان جماعتوں کا اعتماد نہیں تھا تو اس طرح کے رضا کار رکھے گئے اور اس میں بائیں بازو کی جماعتوں نے بھی اس طرح کے رضا کار رکھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’نہ صرف پاکستان بلکہ انڈیا میں بھی اس طرح کی تنظیمیں یا رضا کار موجود ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں شیعہ تنظیموں کے سکاؤٹس اور گائڈز، دیوبندی اور بریلوی جماعتوں کے رضا کار موجود ہیں، یہ غیر رسمی رضاکار ہوتے ہیں اور ان میں زیادہ تر جماعت کے کارکن، مدارس کے طلبا شامل ہوتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
انصار الاسلام کب وجود میں آئی؟
اکتوبر سنہ 2019 میں جب انصار الاسلام پر پابندی عائد کی گئی تھی تو بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیئر رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے بتایا تھا کہ رضاکار تنظیم انصار الاسلام کا قیام اسی وقت عمل میں آیا تھا جب جمعیت علمائے اسلام معرض وجود میں آئی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ ’جے یو آئی (ف) کے آئین میں انصار الاسلام کے نام سے باقاعدہ ایک شعبہ ہے جس کا کام فقط انتظام و انصرام قائم رکھنا ہے۔ یہ جمعیت کے ماتحت اور اس کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔‘
انھوں نے کہا تھا کہ انصار الاسلام کا کام جمعیت کی جانب سے منعقد کیے جانے والے جلسے، جلسوں، کانفرنسوں اور دیگر تقاریب میں سکیورٹی کے فرائض سرانجام دینا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ضلعی سطح پر ہونے والے جلسوں میں 100 سے زائد رضاکار نہیں ہوتے، صوبائی سطح پر ہونے والے جلسے میں 500 سے ایک ہزار اور ملک گیر سطح پر ہونے والے جلسوں میں رضاکاروں کی تعداد دس ہزار تک ہو سکتی ہے۔
انھوں نے بتایا تھا کہ ماضی قریب میں ہونے والی جمعیت کی تمام بڑی کانفرنسوں اور جلوسوں کی سکیورٹی اور انتظام کی ذمہ داری انصار الاسلام کی ہی تھی۔ ’رضاکاروں کے بنیادی کاموں میں سے شرپسندوں پر نظر رکھنا بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جمعیت کے ہزاروں اور لاکھوں کے اجتماعات ہوئے مگر آج تک کسی دکان یا مکان کا شیشہ تک نہیں ٹوٹا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جمعیت کا آئین الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ ہے اور اس کے تحت انصار الاسلام ایک قانونی تنظیم ہے۔
انصار الاسلام کے ممبران کتنے ہیں؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images
وزارت داخلہ کی جانب سے سنہ 2019 میں اس تنظیم پر پابندی عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا تھا کہ انصار الاسلام میں شامل افراد کی تعداد ملک بھر میں 80 ہزار کے لگ بھگ ہے اور اس میں شامل افراد نے قانون نافد کرنے والے اداروں کا مقابلہ کرنے کے لیے پشاور میں مشقیں بھی کی تھیں۔
تاہم عبدالغفور حیدری نے آگاہ کیا تھا کہ انصار الاسلام کے باقاعدہ رجسٹرڈ ممبر نہیں ہوتے۔ 'مرکزی سالار، صوبائی سالار، ضلعی اور تحصیل کی سطح پر سالار ہوتے ہیں جو کسی بھی تنظیمی جلسے کے حجم کو دیکھتے ہوئے جمعیت ہی کے کارکنان کو انتظام و انصرام کی ڈیوٹی دینے کا کہتے ہیں۔'
’کوئی باقاعدہ تعداد نہیں مگر اگر صوبائی تنظیموں کو کسی جلسے کے لیے دس ہزار رضاکاروں کا بھی کہا جائے تو وہ بندوبست کر کے دیتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہر سیاسی و مذہبی جماعت میں انتظام انصرام کے لیے اس نوعیت کی ذیلی تنظیمیں لازماً موجود ہوتی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ جمعیت کے ذمہ داران کسی بھی رضاکار کا نام فائنل کرنے سے قبل اس کی مکمل چھان بین کرتے ہیں تاکہ کوئی شر پسند انتظامی کاموں میں شامل نہ ہو پائے۔
رضاکار کی بھرتی کا طریقہ اور پہچان؟
جمعیت علمائے اسلام کے آئین کی دفعہ نمبر 26 کے مطابق ہر مسلمان 'پابند صوم و صلوۃ، مستعد اور باہمت' جو جمعیت علمائے اسلام کا رکن ہو وہ انصار الاسلام کا کارکن بن سکتا ہے۔
رضاکاروں کی وردی کا رنگ خاکی ہوتا ہے جس کی قمیض پر دو جیبیں لگی ہوتی ہیں، گرم کپڑے کی خاکی ٹوپی جس پر دھاری دار بیج ہوتا ہے جبکہ پیر میں سیاہ رنگ کا بند جوتا۔
قمیض پر لگے بیج پر کسی بھی رضاکار کا عہدہ اور حلقہ درج ہوتا ہے۔ جمعیت کے آئین کے مطابق اجتماعات میں فرائض سے غفلت برتنے پر سالار کسی بھی رضاکار کو معطل کر سکتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
انصار الاسلام پر پابندی عائد کرتے ہوئے کیا کہا گیا تھا؟
سنہ 2019 میں بھیجی گئی وفاقی حکومت کی جانب سے بھیجی گئی سمری میں وزارتِ قانون کو مطلع کیا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام نے انصار الاسلام کے نام سے ایک شدت پسند گروپ قائم کیا ہے جس میں نجی افراد کو رضاکار کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔
اس سمری میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ جمعیت علمائے اسلام نے اس ماہ کی 27 تاریخ کو حکومت کے خلاف آزادی مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے اور یہ مارچ 31 اکتوبر کو اسلام آباد پہنچے گا۔
اگر مولانا فضل الرحمان دھرنا دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ایسے میں ان کی سیاسی جماعت کی ذیلی اس تنظیم کے کارکنان بھی اس دھرنے کا حصہ ہوں گے۔
مزید پڑھیے
وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی چند ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس فورس کے کارکنان کے ہاتھوں میں لاٹھیاں ہیں جن پر لوہے کی خاردار تاریں لپیٹی ہوئی ہیں اور اس فورس کا مقصد حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنا ہے۔
وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں کہ انصار الاسلام ’ایک فوجی تنظیم کی حیثیت سے کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے‘ جو کہ آئین کے آرٹیکل 256 کی خلاف ورزی ہے۔
’یہ ایک منظم، تربیت یافتہ اور ہتھیاروں سے لیس تنظیم ہے جو کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مقاصد کو فروغ دینے کے لیے طاقت کا مظاہرہ یا استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘
نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ یہ تنظیم ملک کے امن اور سلامتی کے لیے حقیقی خطرے کا باعث ہو سکتی ہے۔












