آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
لمپی سکن وائرس: کیا متاثرہ جانوروں کا دودھ، گوشت انسانی صحت متاثر کر سکتا ہے؟
- مصنف, ریاض سہیل
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
‘میری گائے کے جسم پر چھوٹے چھوٹے دانے نکل آئے، ڈاکٹر کو بتایا تو انھوں نے مشورہ دیا کہ اینٹی بائیوٹک لگا دو، مگر ایسا کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ چند دنوں میں گائے کے جسم پر یہ دانے پھیلنے لگے اور ان کا سائز بھی بڑا ہوتا گیا اور پھر گائے بخار میں مبتلا ہو گئی، اس کی پچھلی ٹانگوں میں سوزش ہوئی اور اس نے چارہ کھانا چھوڑ دیا، اس کا وزن تیزی سے گرنے لگا، بلآخر کچھ دنوں میں وہ مر گئی۔‘
سندھ سے تعلق رکھنے والے محمد اعظم عید قربان کے لیے جنوبی پنجاب سے 20 کے قریب گائیں لائے تھے تاکہ ان کو پال پوس کر منڈی میں فروخت کیا جا سکے۔ مگر ان 20 جانوروں میں سے ایک اب ہلاک ہو چکا ہے۔
محمد اعظم کے مطابق جانوروں کے ڈاکٹر نے انھیں بتایا ہے کہ ان کی گائے کو ’لمپی سکن وائرس‘ نامی بیماری تھی۔
سندھ کے محکمہ لائیو سٹاک کے مطابق اس وقت تک اس بیماری سے صوبے بھر میں 67 جانور ہلاک ہو چکے ہیں اور 20 ہزار کے قریب اس بیماری میں مبتلا ہیں۔
لمپی سکن وائرس کیا ہے؟
لمپی سکن وائرس نامی بیماری گذشتہ ایک صدی سے جانوروں میں تشخیص ہو رہی ہے۔ سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کے شعبے وٹرنری کے پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ آریجو نے بی بی سی کو بتایا کہ جس طرح انسانوں کو چیچک یا چکن پاکس کی بیماری ہوتی ہے یا جانوروں میں ’شیپ پاکس‘ اور ’گوٹ پاکس‘ بیماری ملتی ہے، یہ بھی اسی طرح کی ایک بیماری ہے جس میں جانور کے جسم پر دانے نمودار ہوتے ہیں جو جسم کے اندر پھیلتے ہیں اور زبان پر بھی آ جاتے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ اِن دنوں دانوں میں پس (پیپ) بھر جاتی ہے اور ان دانوں میں ہونے والی تکلیف کی وجہ سے جانور بیٹھ نہیں سکتے۔
ڈاکٹر آریجو نے بتایا کہ سنہ 1929 میں یہ بیماری افریقہ میں پہلی بار تشخیص ہوئی تھی۔ جس کے بعد انڈیا، سری لنکا، انڈونیشیا میں بھی اس بیماری کی موجودگی کی رپورٹس آئیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل ایک ریسرچ جرنل میں ایک آرٹیکل شائع ہوا تھا جس میں متنبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کو جانوروں کی اس بیماری کے متعلق محتاط ہونا چاہیے کیونکہ خطے میں موجود یہ بیماری پاکستان میں بھی جانوروں اور مویشیوں کو متاثر کر سکتی ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ڈاکٹر آریجو کا کہنا تھا کہ ‘دنیا بھر سے بذریعہ ٹرانسپورٹ جب پھل اور دیگر اجناس کی تجارت ہوتی ہے تو اس کے ساتھ مکھیاں مچھر بھی آ جاتے ہیں جو خطے میں موجود بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بنتے ہیں۔ ان میں خون چوسنے والی مکھیوں، ایڈیز نامی مچھر جو زرد بخار اور ڈینگی وائرس جیسے امراض کے پھیلاؤ کا سبب بنتا ہے وہ لمپی سکن ڈیزیز کے وائرس کے پھیلاؤ کا بھی سبب بنتا ہے۔‘
سندھ میں بیماری کا پھیلاؤ
سندھ کے محکمہ لائیو سٹاک کا کہنا ہے کہ لمپی سکن ڈیزیز وائرس اس وقت سندھ کے مختلف اضلاع میں پھیلا ہوا ہے لیکن اس کی شدت کراچی اور ٹھٹہ کے اضلاع میں زیادہ ہے۔
سندھ لائیو سٹاک محکمے کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر نذیر حسین کلہوڑو کا کہنا ہے کہ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ دیسی گائے کی نسل اس بیماری سی جلد صحتیاب ہو رہی ہے جبکہ جو غیر ملکی اور کراس نسلیں ہے، ان میں یہ وائرس زیادہ ہے چونکہ ان جانوروں کی تعداد ٹھٹہ اور کراچی میں زیادہ ہے اس لیے وہاں شدت زیادہ دیکھی جا رہی ہے۔
علاج میں مشکلات اور احتیاط
سندھ کے محکمہ لائیو سٹاک کے صوبائی وزیر باری پتافی کہتے ہیں کہ جانوروں میں لمپی سکن وائرس کا پہلا کیس گذشتہ سال نومبر میں سامنے آیا تھا جس کی رپورٹ وفاقی حکومت کو بھیجی گئی جہاں سے وائرس کی تصدیق ہوئی تاہم ملک میں اس وائرس کی ویکسین دستیاب نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی کوشش ہے کہ جلد ویکسین برآمد کی جائے اس حوالے سے وفاقی حکومت کی منظوری طلب ہے۔
ڈاکٹر عبداللہ آریجو کا کہنا ہے جانوروں اور اس کا علاج کرنے والوں کو آئسولیشن کرنے کی ضرورت ہے۔ ‘نہ صرف جو جانور اس بیماری میں مبتلا ہیں، کو الگ کرنا ہے بلکہ اس جانور کا علاج کرنے والا ڈاکٹر بھی کسی دیگر جانور کا علاج نہ کرے کیونکہ اس سے وائرس پھیلنے کے امکانات ہیں۔ اسی طرح جو عملہ گوبر یا دیگر صفائی کرتا ہے اس کو بھی صحتمند جانوروں سے الگ رہنا چاہیے۔‘
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے بتایا کہ اس وائرس کے باعث مویشیوں میں شرح اموات تین فیصد سے لے کر 60 فیصد تک ہو سکتی ہے۔ ’اگر بڑے باڑے ہیں یا ریوڑ ہیں تو اس میں اموات کی شرح زیادہ ہو سکتی ہے۔‘
ان کے مطابق اگر اس کا علاج کیا جائے تو جانور تین سے چھ دن میں صحت مند ہو گا اور اس کے علاج میں شیپ پاکس یا گوٹ پاکس ویکسین اور اینٹی بائیوٹک ادویات دی جا سکتی ہیں۔
گوشت کی فروخت میں کمی
سوشل میڈیا پر بیمار گائیوں کی تصاویر وائرل ہونے کے بعد کراچی میں گائے کے گوشت کی کھپت میں کمی آئی ہے اور مرغی کے گوشت کی کھپت بڑھ گئی جس کے باعث مرغی کے گوشت کی فی کلو قیمت بعض علاقوں میں 500 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔
میٹ مرچنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ گائے کے گوشت کی فروخت 60 فیصد تک متاثر ہوئی ہے۔ تنظیم کے چیئرمین ناصر حسین نے بتایا کہ شہر میں دو قانونی ذبحہ خانے ہیں جہاں روزانہ نو ہزار بڑے جانور ذبحہ کیے جاتے ہیں جن میں بھینسیں بھی شامل ہیں، جبکہ شہر میں کھپت 20 ہزار جانوروں کی ہے۔
حکومت سندھ نے کراچی سمیت صوبے بھر میں مویشی منڈیوں پر پابندی عائد کر دی ہے جس سے جانوروں کی خریداری متاثر ہو رہی ہے۔
ناصر حسین قریشی کے مطابق گوشت حاصل کرنے کے لیے روزانہ تین سے پانچ ہزار جانور کراچی لائے جاتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’سپر ہائی وے پر ڈی ایم سی ملیر 200 سے 500 روپے فی جانور فیس وصول کر کے جانوروں کو ہیلتھ سرٹیفیکٹ جاری کرتی ہے۔‘
’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس مقام پر لائیو سٹاک کی ٹیم موجود ہو، جس گائے میں یہ بیماری پائی جاتی ہے اس کو کراچی میں داخل ہونے سے روک کر صرف صحت مند مویشیوں کو داخلے کی اجازت دی جائے۔ منڈیوں پر پابندی سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا ہے اور کاروبار خطرے میں پڑ گیا ہے۔‘
کیا یہ وائرس انسانوں کو متاثر کر سکتا ہے؟
سندھ لائیو سٹاک کا دعویٰ ہے کہ یہ وائرس انسانوں کو متاثر نہیں کرتا۔ ڈائریکٹر جنرل نذیر حسین کلہوڑو کا کہنا ہے کہ ’اس سے انسانی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے، دودھ پیئیں، گوشت کھائیں، یہ انسانی صحت کے لیے مضر نہیں ہے۔‘
پروفیسر عبداللہ آریجو بھی ان کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے ’اس بیماری کے متعلق جو تحقیق موجود ہے اس کے مطابق دوددھ اور گوشت کے ذریعے اس کا انفیکشن انسانوں میں منتقل نہیں ہوتا ہے۔‘
‘ہر وائرس کا اپنا مزاج ہوتا ہے، ضروری نہیں ہے کہ جو وائرس جانور میں زندہ رہتا ہے وہ انسان کو بھی متاثر کرے، کچھ ایک ایسے وائرس ہوتے ہیں جو انسان اور جانور دونوں کو متاثر کر سکتے ہیں کچھ صرف ایک کو متاثر کرتے ہیں۔‘
میٹ مرچنٹ ویلفیڑ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ گوشت کی ایکسپورٹ جاری ہے۔ ان کے ذبحہ خانے بلکل الگ ہیں، پاکستان کے محکمہ شماریات کے مطابق گذشتہ سال تقریبا 96 ہزار ٹن گوشت برآمد کیا گیا تھا۔
کراچی عید قربان کے جانوروں کی بھی بڑی منڈی ہے جہاں ملک بھر سے گائے اور بچھڑے فروخت کے لیے لائے جاتے ہیں اور شہری مقامی اور غیر ملکی نسل کے بڑے جانوروں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
میٹ مرچنٹ ویلفیر ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ یہ بیماری گائیوں میں قوت مدافعت بڑھنے تک رہے گئی جبکہ ویکسین ابھی دور ہے۔