پیکا آرڈیننس: عدالت نے حکومت کو پیکا قانون کی دفعہ 20 کے تحت گرفتاریوں سے روک دیا، امین الحق کا آرڈیننس واپس لینے کا مطالبہ

سینسرشپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

    • مصنف, شہزاد ملک
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کو پیکا قانون کی دفعہ 20 کے تحت گرفتاریوں سے روک دیا ہے جبکہ دوسری جانب حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے رکن پارلیمان اور وفاقی وزیر امین الحق نے عمران خان کو لکھے گئے ایک خط کے ذریعے پیکا آرڈیننس فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بدھ کے روز یہ حکم فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی درخواست پر دیا ہے۔ پی ایف یو جے نے گذشتہ دنوں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) سے متعلق ترمیمی آرڈیننس کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔

اس قانون کی دفعہ 20 ہتک عزت کے تحت شکایت کے اندارج سے متعلق ہے۔ آرڈیننس سے قبل یہ جرم قابل ضمانت تھا تاہم آرڈیننس کے ذریعے اسے ناصرف ناقابل ضمانت بنا دیا گیا ہے بلکہ اسے فوجداری قوانین کے زمرے میں داخل کیا گیا ہے جس کی سزا پانچ سال تک قید ہو سکتی ہے۔

درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’زمبابوے اور یوگنڈا بھی ہتک عزت کو فوجداری قوانین سے نکال رہے ہیں اور دنیا بھر میں ہتک عزت کو جرم سے الگ کیا جا رہا ہے۔‘

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا احکامات جاری کیے کہ کسی شخص کی شکایت پر اس قانون کے حوالے سے پہلے سے طے کیے گئے ایس او پیز پر عمل درآمد کرتے ہوئے کسی شخص کی گرفتاری کو عمل میں نہ لایا جائے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں گذشتہ ہفتے اس حوالے سے موجود قوانین میں نئی ترامیم متعارف کروائی گئی تھیں جنھیں اتوار کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے جاری کیا گیا تھا جس کے بعد سے اس پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

عدالت کا مزید کہنا تھا کہ اگر احکامات پر عملدرآمد نہ ہوا تو سیکریٹری داخلہ اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ یعنی ایف آئی اے کے سربراہ اس کے ذمہ دار ہوں گے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) کے تحت صحافی محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مارنے کے معاملے پر ڈائریکٹر سائبر کرائم ایف آئی اے بابر بخت قریشی کو توہین عدالت میں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا۔

عدالت نے اس دوران برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایف آئی اے اہم شخصیات کی ساکھ بحال کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے وزیر اعظم عمران خان کو ایک حالیہ ملاقات کے دوران پیکا ایکٹ میں ترامیم پر ذرائع ابلاغ کے خدشات اور مختلف طبقہ ہائے فکر میں پائی جانے والی بے چینی کی بابت آگاہ کیا تھا۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں یہ خدشات ہیں کہ حکومت کے خلاف کسی بھی خبر پر انھیں قابل گرفت قرار دیا جائے گا۔ خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے وزیر اعظم کو ملاقات کے دوران آگاہ کیا تھا کہ معاشرے میں یہ تاثر عام ہے کہ اگر اس آرڈیننس پر موجودہ شکل میں عمل درآمد کیا گیا تو اس کے حکومت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے اس بات سے اتفاق کیا اور کہا کہ پیکا ایکٹ میں ترامیم کے حوالے سے اس بات کو واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسی خبریں یا تجزیے جس میں حکومت کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے اس قانون کے تحت قابل گرفت نہیں ہوں گے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے ملاقات کے دوران اس بات کی یقین دہانی کروائی تھی کہ اس قانون کا غلط استعمال نہیں ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ وہ 24 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس بارے میں تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔

وزیر اعظم کو ارسال کیے گئے خط میں کیا کہا گیا ہے؟

امین الحق

،تصویر کا ذریعہTwitter/@MoitOfficial

،تصویر کا کیپشنامین الحق

حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے رکن پارلیمان اور وفاقی وزیر امین الحق نے عمران خان کو لکھے گئے ایک خط کے ذریعے پیکا آرڈیننس فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

وفاقی وزیرِ آئی ٹی امین الحق نے عمران خان کو ارسال کیے گیے خط میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ ’ان ترامیم سے متفق نہیں ہیں کیونکہ اس میں متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’اگر صحافتی تنظیموں، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور ماہرین کی رائے لی جاتی تو بہتر ترامیم ہو سکتی تھیں۔‘

امین الحق کی جانب سے ارسال کیے گئے خط میں وزیرِ اعظم سے کہا گیا ہے کہ ’تمام میڈیا کمیونٹی کو پیکا ترمیمی آرڈیننس کے بارے میں شدید خدشات ہیں اور ان ترامیم کے اعلان کے بعد میڈیا کے ادارے اور صحافتی برادری نے اس کی شدید مذمت کی ہے۔‘

انھوں نے کہا ’میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون ہے اور ہر حکومت میڈیا کے ساتھ ایک اچھوتا رشتہ رکھتی ہے۔ میڈیا کے ذریعے ہی حکومت اپنا امیج عام عوام کے سامنے رکھ سکتی ہے۔‘

’میڈیا کی تنظیموں اور صحافیوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان ترامیم کو ہر فورم پر چیلنج کریں گے۔ اس لیے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ پیکا آرڈیننس کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی اس متفقہ آواز کو سنیں اور سول سوسائٹی اور میڈیا تنظیموں کے ساتھ مشاورتی عمل شروع کریں کیونکہ صرف بات چیت اور مشاورت کے ذریعے ہی میڈیا میں کام کرنے والے اور حکومت ایسا طریقہ کار وضع کر سکتی ہے جس کے ذریعے فیک نیوز کا تدارک کیا جا سکے۔‘

آخر میں امین الحق نے لکھا کہ ’میں آپ پر زور دیتا ہوں کہ آپ مشاورتی عمل کا آغاز کریں اور اس آرڈیننس کو جلد از جلد واپس لے لیں۔‘

پیکا آرڈیننس کیا ہے؟

سوشل میڈیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان میں گذشتہ ہفتے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے والے قوانین میں نئی ترامیم متعارف کروائی گئی تھیں جنھیں اتوار کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے جاری کیا گیا تھا اور اس کے تحت ’شخص‘ کی تعریف کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔

نئی ترامیم کے مطابق اب ’شخص‘ میں کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن، ادارہ یا اتھارٹی شامل ہے جبکہ ترمیمی آرڈیننس میں کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے پر قید تین سے بڑھا کر پانچ سال تک کر دی گئی ہے۔

اس صدارتی آرڈیننس کے مطابق شکایت درج کرانے والا متاثرہ فریق، اس کا نمائندہ یا گارڈین ہو گا، جرم کو قابل دست اندازی قرار دے دیا گیا ہے جو ناقابل ضمانت ہو گا۔

ترمیمی آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ چھ ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ کو جمع کرائے گی۔ آرڈیننس کے مطابق ہائی کورٹ کو اگر لگے کہ کیس جلد نمٹانے میں رکاوٹیں ہیں تو رکاوٹیں دور کرنے کا کہے گی۔

آرڈیننس کے مطابق وفاقی و صوبائی حکومتیں اور افسران کو رکاوٹیں دور کرنے کا کہا جائے گا۔ ہر ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ایک جج اور افسران کو ان کیسز کے لیے نامزد کرے گا۔

وزیر اعظم عمران خان کی وفاقی کابینہ میں شامل وزیر قانون فروغ نسیم نے اتوار کو ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ واضح کیا تھا کہ پیکا آرڈیننس کے تحت جعلی خبر دینے والے کی ضمانت نہیں ہو گی اور کسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں ہو گا۔

ان کے مطابق جعلی خبروں کا قلع قمع کرنے کے لیے قانون بڑا ضرروی ہے، اس لیے اب فیک نیوز پھیلانے والوں کو تین سال کی جگہ پانچ سال سزا ہو گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ جرم قابل ضمانت نہیں ہو گا اور اس میں بغیر وارنٹ گرفتاری ممکن ہو گی۔

وزیر قانون نے مزید کہا کہ 'پیکا قانون سب کے لیے ہو گا اور جانی پہچانی شخصیات سے متعلق جھوٹی خبروں کے خلاف شکایت کنندہ کوئی عام شہری بھی ہوسکتا ہے۔'

پی ایف یو جے نے اپنی درخواست میں کیا مؤقف اختیار کیا تھا؟

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی طرف سے دی جانے والی درخواست میں صدر مملکت کے سیکریٹری، وفاق، سیکریٹری قانون اور سیکریٹری اطلاعات کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کوئی ہنگامی صورتحال پیدا نہیں ہوئی تھی اور قانون سازی کے لیے رائج طریقہ کار سے بچنے کے لیے جان بوجھ کر ایسا کیا گیا جس سے حکومت کے مذموم مقاصد ظاہر ہوتے ہیں۔

آزادی اظہار رائے کا قتل ملک میں جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے اور حکومت نے پیکا قوانین میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کی جب 17 فروری تک ایوان بالا کا اجلاس جاری تھا۔‘

درخواست کے مطابق ’حکومت نے ڈرافٹ پہلے ہی تیار کر لیا تھا، قانون سازی سے بچنے کے لیے سیشن ختم ہونے کا انتظار کیا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس 18 فروری کو طے تھا جسے آخری لمحات میں مؤخر کیا گیا۔‘

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ صحافیوں کو اسی قانون کے تحت غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا تھا جس پر ترمیم کر کے اسے مزید سخت بنایا گیا ہے۔ آرڈیننس کے ذریعے پیکا ایکٹ میں دفعہ 44 اے کا اضافہ عدلیہ کی آئینی آزادی کے خلاف ہے۔

’کوئی بھی ملک آمرانہ طرز عمل سے زندہ نہیں رہ سکتا جہاں عوام کو اظہار رائے کے بنیادی حق کو استعمال کرنے کی پاداش میں قید کیا جائے۔ استدعا ہے کہ پیکا قانون میں ترمیم کو آئین پاکستان اور بنیادی حقوق کے منافی قرار دیا جائے۔‘