منی بجٹ، مہنگی کار فنانسنگ یا اُون منی، پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت میں اچانک کمی کی وجہ کیا؟

    • مصنف, تنویر ملک
    • عہدہ, صحافی، کراچی

پاکستان میں کاریں بنانے والی صعنت نے موجودہ مالی سال کے پہلے سات ماہ میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں ساٹھ فیصد سے زائد کاریں فروخت کیں۔ گزشتہ برس کے ان مہینوں میں ایک لاکھ کے لگ بھگ کاریں فروخت ہوئی تھیں جن کی موجودہ مالی سال کے اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق فروخت ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔

موجودہ مالی سال کے سات ماہ یعنی جولائی سے جنوری تک میں تو کاروں کی فروخت میں زبردست اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا تاہم رواں برس جنوری کے مہینے میں کاروں کی فروخت میں بڑی کمی دیکھنے میں آئی۔

پاکستان میں کاریں تیار کرنے والے اداروں کی نمائندہ تنظیم کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جنوری کے مہینے میں دسمبر کے مقابلے میں کاروں کی فروخت میں 25 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔

دسمبر کے مقابلے جنوری میں کاروں کی فروخت میں نمایاں کمی کا پہلو اس شعبے میں فروخت کے کس رجحان کی جانب نشاندہی کرتا ہے؟

پاکستان میں گذشتہ کئی ماہ سے شرح سود میں اضافہ ہو رہا ہے اور ملک میں پچاس فیصد سے زائد کاریں بینک سے قرض لے کر خریدی جاتی ہیں۔ اسی طرح سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی کچھ ماہ قابل مقامی طور پر تیار ہونے والی اور درآمد شدہ گاڑیوں پر آٹو فنانسنگ کے قواعد و ضوابط میں سختی کر دی تھی۔

پاکستان میں آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت پارلیمان سے جنوری میں پاس ہونے والے منی بجٹ میں بھی کاروں پر ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اور اس پر دی جانے والی چھوٹ کو ختم کر دیا گیا ہے۔

ملک میں کاروں کی فروخت کے اعداد و شمار کیا ظاہر کرتے ہیں؟

پاکستان میں گاڑیوں کی صنعت کی نمائندہ تنظیم ’پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچرز ایسوسی ایشن‘ (پی اے ایم اے) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق موجودہ مالی سال کے سات ماہ میں کاروں کی فروخت میں 61 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا تاہم جنوری کے مہینے میں دسمبر کے مقابلے میں 25 فیصد کمی دیکھی گئی۔

پاکستان میں سوزوکی کی تیار کردہ گاڑیوں کی فروخت میں دسمبر کے مقابلے جنوری میں 42 فیصد کمی دیکھنے میں آئی جس میں کلٹس، آلٹو اور ویگن آر کی فروخت میں بالترتیب 17 فیصد، 58 فیصد اور 46 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔

اسی طرح ہنڈا کمپنی کی کاروں کی فروخت میں بھی کمی دیکھی گئی۔ اس کمپنی کی تیار کردہ سٹی اور سوک ماڈل گاڑیوں کی فروخت میں دسمبر کے مقابلے جنوری کے مہینے میں 17 فیصد کمی دیکھی گئی۔

ہنڈائی نشاط کمپنی کی گاڑیوں کی فروخت میں بھی جنوری میں کمی دیکھی گئی اور اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ کمپنی کے زیر جائزہ مہینے میں فروخت 20 فیصد کم تھی۔

انڈس موٹرز کمپنی کی تیار کردہ کاروں کی فروخت میں کوئی کمی تو نہیں دیکھی گئی تاہم ان کی جنوری کے مہینے میں ہونے والی فروخت اتنی متاثر کن نہیں کیونکہ سات ماہ میں 42 فیصد زیادہ فروخت کرنے والی کمپنی نے دسمبر کے مقابلے جنوری کے مہینے میں صرف نو فیصد کاریں زیادہ فروخت کیں۔

کاروں کے شعبے کو کس نئی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا؟

پاکستان میں کاروں کے شعبے میں بینکوں کی جانب سے دیے جانے والے قرضوں پر پاکستان کے مرکزی بینک نے چند ماہ پہلے قواعد و ضوابط سخت کر دیے تھے جس کے تحت کار خریداری پر قرضے کی مدت سات سال سے پانچ سال کر دی گئی تو اس کے ساتھ ایک صارف کو آٹو فنانسگ کی مد میں دی جانے والی رقم کی حد تیس لاکھ تک کر دی گئی تھی۔

اسی طرح مرکزی بینک کی جانب سے ملک میں شرح سود میں اضافہ کر دیا گیا تھا۔ کورونا کی وجہ سے سات فیصد تک شرح سود تک گرانے کے بعد رواں مالی سال میں شرح سود میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا اور اب اس کی موجودہ شرح 9.75 ہے جسے صعنتی و تجارتی شعبوں کی جانب سے بہت زیادہ قرار دیا جا رہا ہے جو ان کے مطابق صنعتی شعبے میں شرح نمو کو متاثر کرے گا جس میں کاروں کا شعبہ بھی شامل ہے۔

پاکستان کے مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2021 کے اختتام پر آٹو فناننسگ کی مالیت 354 ارب روپے تھی جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ تھی۔

پاکستان میں جنوری کے مہینے میں پیش ہونے والے منی بجٹ میں جہاں بہت سارے دوسرے شعبوں میں ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ کیا گیا تو اس کے ساتھ کاروں کی صعنت کو بھی دی جانے والی ٹیکس چھوٹ کا بھی خاتمہ کر دیا گیا جن میں سیلز ٹیکس کی مد میں دی گئی چھوٹ کے لیے فیدڑل ایکسائز ڈیوٹی بھی بڑھا دی گئی۔

جنوری میں کاروں کی فروخت میں کمی کی وجہ کیا؟

جنوری کے مہینے میں کاروں کی فروخت میں ہونے والی نمایاں کمی کا مرکزی بینک کی جانب سے آٹو فنانسنگ سے متعلق قواعد و ضوابط، شرح سود یا منی بجٹ میں اس شعبے پر بڑھنے والے ٹیکسوں سے کیا کوئی تعلق ہے؟

اس بارے میں آٹو سیکڑ کے شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوری میں کاروں کی فروخت میں آنے والی کمی کی وجہ کچھ اور ہے۔ ان کے مطابق مرکزی بینک اور حکومتی اقدامات کا اثر بھی آنے والے مہینوں میں اس شعبے پر پڑنے والا ہے تاہم جنوری کے مہینے میں فروخت میں ہونے والی کمی کی وجہ دسمبر کے مہینے میں ہونے والی فروخت میں بے پناہ اضافہ تھا اور جنوری میں اس کا بنیادی اثر دکھائی دیا۔

یہ بھی پڑھیے

اسماعیل اقبال سیکورٹیز میں آٹو شعبے کے تجزیہ کار مقیت نعیم نے بتایا کہ جنوری کے مہینے میں کاروں کی فروخت کی جو کمی ظاہر ہو رہی ہے وہ دسمبر کے مہینے میں کاروں کی فروخت میں غیر معمولی اضافہ تھا۔

انھوں نے کہا کہ دسمبر کے مہینے میں کاروں کی زیادہ فروخت کی بھی وجہ تھی کہ لوگوں نے منی بجٹ سے پہلے کاروں کی ڈیلیوری جلدی کروائی۔

آٹو سیکٹر شعبے کے ماہر مشہود علی خان نے اس سلسلے میں بتایا کہ دسمبر میں زیادہ فروخت کاروں کی زیادہ ڈیلیوری ہونے کی وجہ سے ہوئی اور جنوری میں دوبارہ وہ اپنی نارمل سطح پر آ گئی جس کی ایک وجہ منی بجٹ سے پہلے ڈیلیوری حاصل کرنا تھا تاکہ اضافی ٹیکسوں سے بچا جا سکے۔

مستقبل میں کاروں کی فروخت میں کس رجحان کی توقع ہے؟

کاروں کی صنعت کے شعبے کے تجزیہ کاروں کے مطابق آنے والے مہینوں میں کاروں کی فروخت بلند شرح سود، سٹیٹ بینک کے قواعد و ضوابط اور منی بجٹ میں ٹیکسوں میں اضافے سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

مشہود علی خان نے بتایا کہ شرح سود میں اضافے کا اثر اس برس کی تیسری سہ ماہی میں نظر آئے گا کیونکہ پاکستان میں گاڑیوں کی بکنگ چھ سات ماہ پہلے ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اب جو گاڑی بک کی جا رہی ہے اس کی ڈیلیوری اگلے چھ سے سات ماہ میں ہو گی اس لیے اس کا اثر نظر آئے کیونکہ پاکستان میں 50 سے 60 فیصد گاڑیاں بینک سے قرض لے کر خریدی جاتی ہیں اور بلند شرح سود کی وجہ سے اس پر اثر آئے گا۔

انھوں نے کہا اسی طرح منی بجٹ میں ٹیکسوں میں ہونے والے اضافے کو بھی ابھی ایک ماہ ہی ہوا ہے اور اس کا اثر بھی ایک دو سہ ماہی کے بعد نظر آئے گا اگر حکومت نے آئندہ وفاقی بجٹ میں اس پر نظر ثانی نہ کی۔

مقیت نعیم نے اس سلسلے میں بتایا کہ اپریل سے جون تک کاروں کی فروخت میں اضافہ نظر آ رہا ہے تاہم اس کے بعد ٹیکسوں کی وجہ سے کاروں کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے اور اس کے ساتھ آٹو فنانسگ کی نئی شرائط کاروں کی فروخت کو متاثر کر سکتی ہے۔

اون منی کے نام پر صارفین کا کیسے استحصال کیا جاتا ہے؟

سرکاری ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر محمد عارف نے گزشتہ برس جون کے مہینے میں آلٹو کار بک کرائی تھی جس کی ڈیلیوری انھیں اس سال جنوری کے مہینے کے شروع میں دی گئی۔

دوسری جانب محدود پیمانے پر کاروبار کرنے والے حق نواز نے آلٹو کار دو دن میں خرید لی۔ ان کے مطابق ایک لاکھ ’اون منی‘ ادا کر کے انھوں نے گاڑی کی ڈیلیوری لے لی۔

پاکستان میں گاڑیوں کی بکنگ اور اس کی ڈیلیوری کے درمیان کئی مہینے لگ جاتے ہیں تاہم ’اون منی‘ یعنی کار کی مجموعی قیمت سے کچھ رقم زیادہ ادا کر کے وہی کار چند دنوں میں حاصل کی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں مختلف ماڈل اور رینج کی گاڑیوں پر ’اون منی‘ کی سطح مختلف ہے۔ کم طاقت کے انجن کی حامل آلٹو کار پر اون منی ایک لاکھ ادا کی جاتی ہے جو زیادہ طاقت کے انجن کی حامل کاروں پر اس سے بھی زیادہ ہے۔

مقیت نعیم اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ساری صورتحال اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ جب ہمارے ہاں کار کا آرڈر دیا جاتا ہے تو اس وقت کمپنی اس کے بنانے کا کام شروع کرتی ہے تاہم جلدی کار کی ڈیلیوری پر جو ’اون منی‘ دی جاتی ہے وہ کمپنی کی بجائے ڈیلروں کی جیب میں جاتی ہے جن کے سٹاک میں گاڑیاں موجود ہوتی ہیں۔

انھوں نے کہا اس کی وجہ بھی شاید یہ ہے کہ کمپنی اس وقت کار بنانے پر کام شروع کرے گی جب اسے آرڈر موصول ہو تو اس صورتحال کو ڈیلر استعمال کرتے ہیں اور ’اون منی‘ کے نام پر صارفین کو کار کی خریداری کے لیے اضافی رقم دینا پڑتی ہے۔