پنجاب کی مختلف یونیورسٹیوں میں پشتون اور بلوچ طلبہ سے پوچھ گچھ کا دعویٰ: ’ڈگری کے بعد کیا بلوچ لبریشن آرمی جوائن کرنے کا ارادہ ہے‘

- مصنف, سحر بلوچ
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، گجرات
’مجھ سے پوچھا گیا کہ ڈگری مکمل کرنے کے بعد کیا بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) جوائن کرنے کا ارادہ ہے؟‘
’والدہ اور بہنوں کا نام پوچھا گیا۔ کہا گیا کہ کیا فاٹا میں کسی مذہبی تنظیم سے تعلق رہا ہے؟‘
’سامنے بیٹھے اہلکار نے فون چھین لیا اور واٹس ایپ چیک کیا۔‘
’ہمارے والدین سے تفتیش کی کہ بیٹا لاہور میں کیوں پڑھتا ہے اور کیا پڑھتا ہے؟‘
یہ ان طلبا کے الفاظ ہیں جن سے حالیہ دنوں میں پنجاب کی مختلف یونیورسٹیوں میں حکومتی اہلکاروں کی جانب سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔
ان سوالات کی کڑی جڑتی ہے پنجگُور اور نوشکی سے جہاں بلوچ شدت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے ایف سی کیمپ پر ہونے والے حملوں کے بعد، پنجاب کی کئی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم بلوچ اور پشتون طلبا نے اہلکاروں کی جانب سے ہراساں کیے جانے کا دعویٰ کیا ہے۔
طلبا نے اپنے دعوؤں میں اہلکاروں کی طرف سے پیچھا کرنے، ان کو ہاسٹل سے کسی بھی وقت پوچھ گچھ کے لیے دفاتر یا تھانوں میں بلوانے اور مبینہ طور پر جبری طور پر لاپتہ کیے جانے جیسے واقعات بھی گنوائے ہیں۔
طلبا کا دعویٰ ہے کہ اس پوچھ گچھ میں چند ایسے سوالات بھی کیے گئے ہیں جن سے ان طلبا کو مبینہ طور پر شدت پسند تنظیموں سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
’طلبہ سے سوال جواب ایک معمول ہے‘
یونیورسٹی آف گجرات، جہاں تقریبا 110 طلبہ کو تفتیش کا سامنا کرنا پڑا، کی انتظامیہ کے ایک اعلی عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ 'طلبہ سے سوال جواب ایک معمول ہے اور ایسا سال میں دو سے تین بار کیا جاتا ہے۔
ان کے مطابق اس بار اس پر بلاوجہ کی بحث کی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے جب یونیورسٹی انتظامیہ سے بات کی گئی تھی تو انھوں نے خاصے دو ٹوک انداز میں بتایا تھا کہ 'یونیورسٹی کسی بھی حکومتی ادارے کے احکامات پر عمل کرنے کی پابند ہے۔
دوسری جانب وفاقی محکمہ داخلہ نے سرکاری یونیورسٹیز کو طلبا سے کسی قسم کی تفتیش کی ہدایات جاری کرنے سے انکار کیا ہے۔
جن یونیورسٹیوں کے طلبہ نے یہ الزمات عائد کیے ہیں، ان میں سے چند یونیورسٹیوں سے جب ان الزامات کی تصدیق کے لیے رابطہ کیا گیا تو ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
بی بی سی نے چند ایسے طلبہ سے بات کی ہے جنھوں نے حالیہ دنوں میں اہلکاروں کی جانب سے سوالات کیے جانے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان طلبہ کی شناخت ان کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے ظاہر نہیں کی جا رہی۔
’ایچ ای سی کی ٹیم آنے والی ہے، تیار رہنا‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Google YouTube کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Google YouTube ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
YouTube پوسٹ کا اختتام
یونیورسٹی آف گجرات کے ایک طالب علم نے بتایا کہ رات کو 12 بجے وارڈن نے آ کر بتایا کہ کل ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی ٹیم آنے والی ہے تو تیار رہنا۔
’وہاں پہنچنے پر بلوچ اور پشتون طلبا کی تعداد زیادہ ملی۔ ہم سے پہلے آنے والے پنجاب اور گِلگت کے طلبا سے پوچھے گئے سوالات اور ہم سب سے کیے گئے سوالات میں زمین آسمان کا فرق تھا۔‘
طلبا نے بتایا کہ اس دوران اہلکاروں نے انھیں ایک فارم بھرنے کو دیا لیکن اس پر کسی ادارے کا نام نہیں لکھا ہوا تھا اور صرف مختلف خانے بھرنے کے لیے جگہ خالی چھوڑی ہوئی تھی۔
’پہلی بار ایک دو لڑکوں کے موبائل فون چیک کیے گئے۔ پھر جب وہ دوسری بار آئے اور اس دوران جو لڑکے فون نہیں لے کر گئے تھے، ان سب کو کہا گیا کہ آپ جا کر اپنا موبائل فون لے کر آئیں۔‘
’پھر جو لڑکے اپنا اپنا فون لے کر آئے ان کو فون کی ایپس چیک کروانے کا کہا گیا جبکہ چند سے فون چھین لیا گیا۔‘
طلبا دعویٰ کرتے ہیں کہ ’موبائل فون چھین کر ایپس چیک کر لیتے تھے۔ فیس بُک پر کیا ہے، گیلری میں کیا ہے، واٹس ایپ لازمی طور پر چیک کرتے تھے۔‘
ایک اور طالبعلم نے بتایا کہ ’ہمارے فیس بُک اکاؤنٹ، انسٹاگرام اکاؤنٹ، ہمارے ٹوئٹر، جتنے بھی اکاؤنٹس تھے وہ سب کے سب ایک جگہ لکھے گئے، ان کو جو چیز نظر آتی وہ نوٹ کر لیتے تھے۔‘
ایک اور یونیورسٹی کے طالب علم نے بتایا کہ ان سے ان کا نام پوچھنے کے بعد مذہبی تنظیم سے منسلک سوالات کیے گئے۔
’مجھے پوچھا کہ (سابق) فاٹا میں کیا آپ نے کسی مذہبی تنظیم کو جوائن کیا ہوا ہے؟ یا مذہبی تنظیموں کے علاوہ کوئی ایسی تنظیم ہے جو وہاں پر کام کر رہی ہے، کیا آپ ان کے ساتھ ہیں یا آپ کے کوئی فیملی ممبر ان کے ساتھ ہیں؟ یا آپ کون سا اسلحہ چلا لیتے ہیں؟ پاسپورٹ کا نمبر کیا ہے؟ آپ کی بہنیں کتنی ہیں؟ بہنوں کے نام کیا ہیں؟ والدہ کا نام کیا ہے؟‘
طلبا کے مطابق یہ تفصیلات دینے کے بعد وہ خوفزدہ ہو گئے۔
’جب ان چیزوں کو چیک کیا گیا، جب ہمارے بینک اکاؤنٹس کا پوچھا گیا، جب ہم سے پاسپورٹ کا پوچھا گیا تو ہمیں ڈر لگنا شروع ہو گیا۔‘

اسی طرح ایک طالبعلم نے بتایا کہ ’وہ لوگ عجیب طریقے کے سوال کر رہے تھے۔ جیسے کہ کیا آپ نے بی ایل اے سے ٹریننگ لی ہے؟ کیا آپ کوئی بندوق چلانا جانتے ہیں؟ بہت ہی غیر اہم سوالات کیے گئے جن کا تعلیم کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘
اسی طرح ایک اور طالبعلم نے بتایا کہ ’وہ کہہ رہے تھے کہ آپ ڈگری کے بعد کیا کرو گے؟ آپ نے کدھر جانا ہے؟ بی ایل اے جوائن کرنا ہے؟ اس طرح کے سوالات پوچھے گئے کہ جس سے ہمارے کافی سٹوڈنٹس ذہنی اذیت کا شکار ہو گئے۔‘
’ہم حکومتی اداروں کو انکار نہیں کر سکتے‘
ان تمام تر سوالات کے بعد جب ان طلبا نے اپنی اپنی یونیورسٹی کی انتظامیہ سے بات کی تو انھیں جواب ملا کہ ’یہ کارروائی ان کے ہاتھوں سے باہر ہے۔‘
یونیورسٹی آف گجرات کی انتظامیہ کے ایک افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اس طرح کی پوچھ گچھ ’ہر سمیسٹر میں کی جاتی ہے۔‘
'طلبہ سے سوال جواب ایک معمول ہے اور ایسا سال میں دو سے تین دفعہ بار کیا جاتا ہے۔‘
ان کے مطابق اس بار اس پر بلاوجہ کی بحث کی جارہی ہے۔
یونیورسٹی آف گجرات کی انتظامیہ کے ایک افسر نے یہ بھی کہا کہ ’یہ سوالات تمام طلبا سے کیے گئے تھے اور کسی خاص طبقے یا نسل کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ ہم حکومتی اداروں کو انکار نہیں کر سکتے۔‘
وفاقی محکمہ داخلہ نے سرکاری یونیورسٹیز کو طلبا سے کسی قسم کی تفتیش کی ہدایات جاری کرنے سے انکار کیا ہے۔
جب بی بی سی نے یونیورسٹی آف گجرات سے تفتیش کے لیے بلائے جانے والے طلبا کی فہرست مانگی تو انھوں نے انکار کر دیا۔
بتایا جا رہا ہے کہ تقریباً 110 طلبا سے سوالات کیے گئے ہیں جن میں سے صرف چند کا ہی تعلق پنجاب اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے تھا۔
’بلوچستان میں ہمارے والدین سے سوالات کیے گئے‘
بی بی سی سے بات کرنے والے تمام طلبا نے اپنے اپنے علاقے کے بارے میں بتایا کہ حالیہ دنوں میں دہشت گردی اور شدت پسندوں کی جانب سے کیے گئے حملوں کے بعد ان کے والدین سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے علاقوں میں کیمپ آفس میں تفتیش کی گئی۔
’بلوچستان میں ہمارے والدین سے سوالات کیے گئے کہ آپ کا بیٹا کہاں پڑھ رہا ہے؟ کون سی یونیورسٹی میں ہے؟ اس طرح کے سوالات کیے گئے۔ ایک اور طالبعلم کے والد کو بلوچستان حملے کے بعد شک کی بنیاد پر کیمپ آفس بلایا گیا اور پھر تمام عملے کے سامنے تھپڑ مارا گیا۔ وہ واپس بلوچستان جا چکا ہے۔‘
صوبہ بلوچستان کا شمار پاکستان کے پسماندہ ترین صوبے کے طور پر کیا جاتا ہے۔ یہاں سے آنے والے تمام تر طلبا زیادہ تر یونیورسٹی کے احاطے میں موجود ہاسٹلز میں قیام کرتے ہیں۔

مزید پڑھیے
اس بارے میں ایک طالبعلم نے بتایا کہ پچھلے نو سمیسٹرز میں انھوں نے یہ رواج دیکھا ہے کہ ’جتنے بھی پشتون طلبا ہیں انھیں صرف پشتون طلبا کے ساتھ جگہ دی جاتی ہے جبکہ جو بلوچ طلبہ ہیں انھیں ہاسٹل میں صرف بلوچ طلبا کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں بن پاتا پنجاب سے آنے والے دیگر طلبا کے ساتھ۔‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے طالبعلم مزمل کاکڑ کا دعویٰ ہے کہ ان کو سوشل میڈیا پر طلبا کے حقوق اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی حمایت کرنے کے نتیجے میں نا معلوم افراد کی جانب سے دھمکایا گیا۔
مزّمل کہتے ہیں کہ ’یونیورسٹی انتظامیہ اور ان کو احکامات جاری کرنے والوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ہم یہاں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ طلبا یونین میں بھی حصہ لیتے ہیں۔‘
’آپ ہم سے ہماری سیاست نہیں چھین سکتے اور نہ ہی ہمیں ہاسٹل کے کمروں تک محدود کر سکتے ہیں۔ ہمارے بارے میں جو دقیانوسی خیالات پھیلائے جا رہے ہیں ان کو خدارا نہ پھیلائیں۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کئی طلبا نے حفیظ بلوچ کیس کا حوالہ بھی دیا۔
واضح رہے کہ عبدالحفیظ بلوچ خضدار کے ایک تعلیمی ادارے میں بچوں کو پڑھا رہے تھے جب ان کے والد محمد حسن کے مطابق مسلح نقاب پوش افراد اُنھیں کلاس روم سے اٹھا کر لے گئے۔
وہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں فزکس میں ایم فل کے فائنل ایئر کے طالب علم ہیں۔
قائدِ اعظم یونیورسٹی کے طلبا نے حال ہی میں جاری کردہ پریس ریلیز میں دعویٰ کیا ہے کہ رواں ماہ بلوچستان کے دیگر علاقوں سے بھی مبینہ طور ہر متعدد افراد جبری طور پر گمشدہ کیے گئے ہیں۔
اس بارے میں قائدِاعظم یونیورسٹی میں لگے احتجاجی کیمپ میں موجود ایک طالب علم نے کہا کہ ’صرف بلوچستان سے آنے والے لوگوں کو اور خاص کر بلوچ طلبا کو کیوں ٹارگٹ کیا جا رہا ہے؟ یہ عام بات ہے کہ تمام تر طلبا یہاں پڑھنے آتے ہیں اور اس دوران اگر ان کو اس طرز کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ پھر یہاں نہیں آئیں گے۔ آپ ان طلبا کو مجبور نہ کریں کہ وہ بدظن ہو جائیں۔‘
اسی طرح اہلکاروں کی تفتیش کے بارے میں بات کرنے والے طلبا میں سے ایک نے یہ کہا کہ ’ہم سے جتنے سوالات کرنے ہیں کریں لیکن ان کا قانونی جواز ہمیں بتا دیں کیونکہ اس طرح تو ہر دوسرے واقعے پر ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔‘













