آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
ایم کیو ایم کارکنوں پر شیلنگ، لاٹھی چارج کیوں ہوا اور شہر میں کاروبار کس نے بند کروایا؟
- مصنف, ریاض سہیل
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
’آنسو گیس کا ایک شیل بالکل میرے سامنے آ کر گرا، گیس اس قدر طاقتور تھی کہ آنکھوں کے علاوہ جلد میں بھی جلن ہونے لگی اور پھر ارد گرد موجود چند خواتین کو متلی ہونے لگی، گیس سے نیم بیہوش خواتین ابھی سنبھلنے کی کوشش ہی کر رہی تھیں کہ پولیس نے اُن پر ڈنڈے برسانا شروع کر دیے۔‘
متحدہ قومی موومنٹ کی رکن سندھ اسمبلی منگلا شرما بھی اُن رہنماؤں اور کارکنوں میں شامل تھیں جو بدھ کی شام کراچی میں وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر پولیس کی جانب سے ہونے والی شیلنگ اور لاٹھی چارج میں زخمی ہوئیں۔ ایم کیو ایم کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ روز لاٹھی چارج سے متاثرہ ان کا ایک کارکن، جو پہلے ہی عارضہ قلب میں مبتلا تھا، ہلاک ہو چکا ہے۔
ایم کیو ایم کے مطابق گزشتہ شب ہلاک ہونے والے کارکن کا نام اسلم تھا اور آج ان کی تدفین عزیز آباد قبرستان میں کر دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ نے آج (جمعرات) یوم سیاہ منانے کا اعلان کر رکھا ہے جبکہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ’پرامن مظاہرین‘ پر پولیس تشدد کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے۔
گذشتہ روز ہونے والے احتجاج پر بات کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے متعارف کروائے گئے بلدیاتی نظام کے حالیہ قانون اور ٹنڈو اللہ یار میں ایم کیو ایم کے کارکن بھولو خانزادہ کے قتل کے خلاف بدھ کو ہونے والے احتجاج کا اعلان کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ سندھ حکومت کے بلدیاتی قانون کے خلاف جماعت اسلامی کا بھی گذشتہ تین ہفتوں سے سندھ اسمبلی کے باہر احتجاج جاری ہے۔ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی دونوں جماعتیں جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں متعارف کروایا گیا بلدیاتی نظام چاہتی ہیں، جس کے تحت دونوں جماعتوں کے کراچی ناظم رہے چکے ہیں۔
حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے بلدیاتی اداروں سے صحت، تعلیم، پولیس سمیت تمام ادارے واپس لے کر انھیں میونسپل سروسز تک محدود کر دیا ہے۔
پریس کلب کی بجائے وزیر اعلیٰ ہاؤس روانگی
متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی پریس کلب کے باہر بدھ کو احتجاج کا اعلان کیا تھا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
اس مظاہرے کی کوریج کرنے والے صحافی سلیمان سعادت بتاتے ہیں کہ میٹرپول پر بسوں کو روکا گیا اور کارکنوں نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب چلنا شروع کر دیا اور دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔
متحدہ قومی موومنٹ کی رکن اسمبلی منگلا شرما کہتی ہیں کہ ’وزیراعلیٰ ہاؤس جانے کا فیصلہ اچانک ہوا، ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہم احتجاج کرنے جا رہے ہیں جماعت اسلامی بھی 27 دنوں سے دھرنا دے کر بیٹھی ہوئی ہے اس کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا ہم وزیر اعلیٰ ہاؤس جائیں گے اور وہاں جا کر اپنا احتجاجی دھرنا دیں گے اور احتجاج رکارڈ کرائیں گے۔‘
ہم نے سوچا تھا کہ احتجاج کے بعد واپس آ جائیں گے مگر انھوں (حکومت) نے پتہ نہیں کیا سمجھ لیا۔‘
ایم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری کا کہنا ہے کہ ’اس سے قبل ٹنڈو الہ یار میں بھولو حانزادہ کے قتل کا واقعے پر بھی حکومت کی جانب سے عدم حساسیت دکھائی گئی ہے۔ لہذا ہم شرکا نے کہا کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے باہر جا کر احتجاج کرتے ہیں، کیونکہ پریس کلب میں احتجاج پر اُن کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ہے۔‘
پولیس شیلنگ کی وجہ کیا بنی؟
ایم کیو ایم کے کارکن شہر کے مختلف علاقوں سے موٹرسائیکلوں اور بسوں میں پہنچے تھے جن میں خواتین بھی شامل تھیں جبکہ وفاقی وزیر امین الحق، سابق میئر کراچی وسیم اختر و دیگر اس ریلی کی قیادت کر رہے تھے۔
صحافی سعادت سلیمان کا کہنا ہے کہ ڈپٹی کمشنر جنوبی نے وسیم اختر سے بات کی اور ان سے کہا کہ یہ ریڈ زون ہے وہ یہاں سے اٹھ جائیں۔ جبکہ سینیٹر فیصل سبزواری کا کہنا ہے کہ ’وزیراعلیٰ کے مشیر مرتضیٰ وہاب کا فون آیا تھا کہ ہم مذاکرات کے لیے آنا چاہ رہے ہیں مگر جیسے ہی فون بند ہوا تو پولیس نے شیلنگ شروع کر دی۔‘
صحافی سلیمان سعادت بتاتے ہیں اس دوران بھگدڑ مچ گئی اور کارکن پی سی ہوٹل سے واپس آئے اور ان کے ہاتھوں میں جھنڈوں میں استعمال والے ڈنڈے تھے جن کی مدد سے انھوں نے پولیس پر جوابی لاٹھی چارج شروع کر دیا۔
ایم کیو ایم رہنما منگلا شرما کا کہنا ہے کہ جس ایم پی اے کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ ان کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا وہ ڈنڈا نہیں بلکہ جھنڈا تھا۔ ’ہم نے ہاتھوں میں جھنڈے اٹھا رکھے تھے مگر پولیس نے پھر بھی تشدد شروع کر دیا۔‘
’پی ایس ایل کے باعث وزیر اعلیٰ ہاؤس جانے سے روکا‘
صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نے انتظامیہ کو شارع فیصل سے کراچی پریس کلب تک احتجاجی ریلی سے آگاہ کیا تھا لیکن انھوں نے اچانک روٹ تبدیل کر کے وزیر اعلٰی ہاؤس کی جانب رُخ کر لیا۔
وہ کہتے ہیں کہ وزیر اعلٰی ہاؤس کی جانب جانے والی ریلی کے شرکا کو بتایا گیا تھا کہ پی ایس ایل کے میچز کل سے شروع ہو رہے ہیں اور تمام کھلاڑی بشمول انٹرنیشنل کھلاڑی سی ایم ہاؤس کے اطراف واقع ہوٹلوں میں مقیم ہیں اور ان کھلاڑیوں کی سکیورٹی پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔
وہ کہتے ہںی کہ اگر خدانخواستہ اس احتجاج کی آڑ میں کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہو جاتا تو پاکستان کا تاثر عالمی سطح پر متاثر ہو سکتا تھا۔
واضح رہے کہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے قریب واقع فائیو سٹار ہوٹل میں اس وقت پاکستان سپر لیگ میں شامل چھ ٹیموں کا قیام ہے، اس ہنگامہ آرائی کی وجہ سے شام کو دو ٹیموں کی پریکٹس منسوخ کی گئی جبکہ نیشنل سٹیڈیم میں موجود ٹیم کو متبادل راستے سے واپس لایا گیا۔
سعید غنی کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی وزیر اعلیٰ ہاؤس کے باہر نہ صرف احتجاج ہوتے رہے ہیں بلکہ دھرنے بھی ہوئے ہیں لیکن حکومت نے کبھی نہیں روکا ہے لیکن یہ صورتحال اس سے قطعی مختلف تھی کیونکہ میچز کے لیے انٹرنیشنل کھلاڑی یہاں موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیے
وہ کہتے ہیں کہ ’ریلی کے شرکا بزور طاقت رکاوٹیں توڑ کر نہ صرف سی ایم ہاؤس پہنچے بلکہ انھوں نے مستقل دھرنے کا اعلان کر دیا، اس صورتحال میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ ناپسندیدہ اقدام اٹھانا پڑا۔‘
ایم کیو ایم کے رہنما سینیٹر فیصل سبزواری کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’ڈپٹی کمشنر نے ہمیں بتایا تھا کہ یہاں سے ہی ایس ایل کی ٹیموں کا گزر ہونا ہے، ہمیں اس بارے میں علم نہیں تھا، یہ تو انتظامیہ کو پتا ہو گا۔‘
تاہم انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ حکومت کے طے شدہ پلان کے مطابق ریلی کو وزیر اعلیٰ ہاؤس تک نہیں آنا تھا مگر وہ کہتے ہیں کہ ’اس ریلی کو میٹروپول تک تو آنا تھا جو سٹیڈیم سے ہوٹل تک کے روٹ کے درمیان میں ہے۔‘
کراچی میں کاروبار کس نے بند کروایا؟
پاکستان کے کئی ٹی وی چینلز نے وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر ایم کیو ایم کے احتجاج پر شیلنگ اور لاٹھی چارج کو براہ راست کور کیا، سورج غروب ہوتے ہی کورنگی نمبر ڈھائی سمیت شہر کے چند علاقوں میں ٹائرؤں کو نذر آتش کیا گیا جبکہ مقامی میڈیا کے مطابق ہیلمٹ پہنے چند موٹر سائیکل سوار افراد نے طارق روڈ، برنس روڈ، پی سی ایچ ایس سمیت دیگر علاقوں میں دکانیں بند کروائیں۔
سینیٹر فیصل سبزواری کا کہنا ہے کہ خواتین اور پُرامن افراد پر پولیس کا تشدد ٹی وی پر براہ راست دکھایا گیا اور اس سے قبل ٹنڈو الہ یار میں جو پولیس نے خواتین کے ساتھ کیا تھا اس صورتحال میں لوگوں کا غصے میں آنا فطری ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایسے میں جس کا جو بس چلے گا وہ کرے گا، جو نعرہ لگا سکتا ہے وہ نعرہ لگائے گا جو ٹائر جلا سکتا ہے وہ ٹائر جلائے گا۔۔۔ کیونکہ ریاست کے نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’جب ریاست میری ماؤں بہنوں کو تحفظ نہیں دے گی تو لوگ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق کچھ بھی کریں گے۔‘
ایم کیو ایم کا شیلنگ کے باعث کارکن کی موت کا دعویٰ
متحدہ قومی موومنٹ کا کہنا ہے کہ اس ریلی میں شریک ان کے ایک کارکن اسلم کی احتجاج کے دوران پولیس شیلنگ سے طبیعت بگڑ گئی اور ان کی موت واقع ہو گئی، تنظیم کی جانب سے ایک ویڈیو بھی شیئر کی گئی ہے جس میں اسلم لیاقت آباد سے آنے والی ریلی میں موٹر سائیکل پر سوار دکھائے گئے ہیں۔
فیصل سبزواری نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے اندھا دھند شیلنگ کی جس سے 58 سالہ کارکن اسلم کی طبیعت بگڑ گئی، اور انھیں دل کے ہسپتال لے جایا گیا ہے اور وہاں اُن کی موت ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں ممکن ہے کہ وہ پہلے سے دل کے عارضہ میں مبتلا ہوں لیکن ان کی حالت کی ذمہ دار پولیس اور حکومت ہے۔
صوبائی وزیر سیعد غنی کا اس پر کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے ترجمان کے مطابق جناح ہسپتال میں دوران علاج ایک کارکن چل بسا، جبکہ درحقیقت اسلم نامی کوئی شخص جناح ہسپتال داخل نہیں ہوا۔ بدھ کی رات 8.30 بجے اسلم نامی کارکن کو کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز لایا گیا جو وزیر اعلیٰ ہاؤس سے 15 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اس کو وہاں ان کے اہلخانہ لے کر گئے اور بعد ازاں رات 10.30 بجے این آئی سی وی ڈی لایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کی۔
ریکارڈ کے مطابق اسلم صاحب تشدد سے نہیں ہارٹ اٹیک سے ہلاک ہوئے۔
پولیس تشدد کی تحقیقات کا اعلان
وزیراعظم عمران خان نے پولیس تشدد کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں انھوں نے لکھا ہے کہ ایم کیو ایم کے بلدیاتی نظام کے خلاف پرامن احتجاج پر پولیس کے تشدد کے خلاف انھوں نے وزارت داخلہ، سندھ کے چیف سیکریٹری اور آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کی ہے جو بھی اس میں ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے بھی واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے، وزیر اعلیٰ ہاؤس کے ترجمان کے مطابق سید مراد علی شاہ نے سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ اپنی سربراہی میں کمیٹی قائم کریں اور جس کے خلاف بھی زیادتی کے ثبوت ملے اس کے خلاف ایکشن لیا جائے۔
دریں اثنا سید مراد علی شاہ نے ایم کیو ایم کے رہنما اور وفاقی وزیر امین الحق سے ٹیلفون پر رابطہ کیا، وزیراعلیٰ ہاؤس کے اعلامیے کے مطابق وزیراعلیٰ نے گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے واقعات کسی صورت نہیں ہونے چاہیں بلکہ سیاسی اختلافات کا حل بات چیت اور سیاسی طریقے سے ہونے چاہیے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے ایم کیو ایم رہنما کو یقینی دہانی کرائی کہ ٹنڈوالہ یار واقعے کی انکوائری کروائی جائے گی ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہو گی۔