گلگت بلتستان کے علاقے خنجراب میں برفانی تیندوے کی ویڈیو: ’مجھے ایسے لگا جیسے میں نے خزانہ پا لیا ہو‘

،تصویر کا ذریعہImtiaz Ahmad
- مصنف, محمد زبیر خان
- عہدہ, صحافی
'برفانی تیندوے کی فلم بنانے کے لیے مجھے ایک مقام پر چار ماہ تک صبر آزما انتظار کرنا پڑا تھا۔' یہ الفاظ ہیں گلگت بلتستان کے علاقے ہنزہ سے تعلق رکھنے والے امتیاز احمد کے جو سنہ 2004 سے جنگلی حیات کی فلم سازی کر رہے ہیں۔
اور اُنھوں نے حال ہی میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کی جانب سے پاکستان کے شمالی علاقوں میں تیندووں کی جاری کردہ ویڈیو بنائی ہے۔
اس ویڈیو میں دو انتہائی خوبصورت برفانی تیندوے جن کے بارے میں گمان ہے کہ وہ ایک جوڑا ہو سکتے ہیں کو گلگت بلتستان کے خنجراب نیشنل پارک کے برف پوش پہاڑوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
خوبصورت برفانی تیندوے جس علاقے میں موجود تھے، اس کی واضح نشاندہی تو مختلف وجوہات کی بناء پر نہیں کی جا سکتی مگر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ نایاب اور معدومی کے خطرے کے شکار برفانی تیندووں کی آماجگاہیں در حقیقت پاکستان سمیت پورے خطے کے لیے ماحولیاتی اہمیت کے حامل ہیں۔
پاکستان میں برفانی تیندوے کی چند آماجگاہیں صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے چترال اور گلگت بلتستان کے برف پوش بلند و بالا دور دراز پہاڑوں، گلیشیئرز اور انتہائی بلندی پر واقع چند چراگاہوں پر ہیں جو تاحال انسانی پہنچ سے دور علاقے ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 12 ممالک میں برفانی تیندوے کی آماجگاہوں میں سے صرف 23 فیصد پر تحقیق کی جا سکی ہے جبکہ باقی آماجگاہوں پر ابھی تحقیق کرنی باقی ہے۔

،تصویر کا ذریعہImtiaz Ahmad
برفانی تیندوے کو کیسے تلاش کیا؟
امتیاز احمد بتاتے ہیں کہ 'جنگلی حیات کی ویڈیو اور فلمیں بنانا میرا جنون ہے۔ اس کے لیے ہر سال جب سردیوں کے سیزن کا آغاز ہوتا ہے تو میں اپنا کیمرا اٹھا کر اس کام میں مشغول ہو جاتا ہوں۔ برسوں سے یہ خواہش تھی کہ کبھی برفانی تیندوے کو دیکھوں اور اس کی ویڈیو فلم بناؤں مگر یہ خواہش پوری نہیں ہو رہی تھی۔'
امتیاز احمد بتاتے ہیں کہ اس دوران کئی سال پہلے ایک تیندوے نے ان کے علاقے میں مویشیوں پر حملہ کیا تھا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ان کا کہنا ہے کہ 'ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میں اپنے مویشیوں کو بچانے کی کوشش کرتا مگر میں اپنے شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر سخت سردی میں کئی گھنٹے برفانی تیندوے کا انتظار کرتا رہا، جس میں میری جان کو بھی خطرہ لاحق تھا۔'
اس دوران برفانی تیندوے نے ان کے کئی مویشی چیر پھاڑ دیے تھے۔ جب تیندوا مویشیوں کے شکار سے فارغ ہوا تو اس وقت انھیں اس کی چند سیکنڈز کی ویڈیو بنانے کا موقع ملا۔
وہ بتاتے ہیں کہ 'مجھے ایسے لگا جیسے میں نے خزانہ پا لیا ہو۔'
امتیاز احمد کا کہنا تھا کہ اس کے بعد وہ ہر سال سردیوں میں دیگر جنگلی حیات کی فلم بناتے ہوتے یہ توقع کرتے رہے کہ شاید دوبارہ انھیں تیندوے کی آماجگاہ میں عکس بندی کا کوئی موقع مل جائے۔
انھوں نے بتایا کہ 'یہ موقع مجھے اس سال مارچ کے مہینے میں ملا تھا۔ گذشتہ سال جب اکتوبر میں کیمرا لے کر جنگلی حیات کو تلاش کر رہا تھا تو مجھے پتا چلا کہ خنجراب پارک کے ایک مقام پر برفانی تیندوے نے شکار کیا ہے۔ یہ بہت اہم اطلاع تھی، جس پر میں نے اس مقام پر تقریباً ڈیرا ہی ڈال دیا تھا۔'

،تصویر کا ذریعہImtiaz Ahmad
امتیاز احمد کا کہنا تھا کہ جس مقام پر برفانی تیندوے کی موجودگی کی اطلاع تھی، وہاں ٹریک پر اس کے پنجوں کے نشانات تھے جن پر انھوں نے چلنا شروع کر دیا اور اس مقام تک چلتے رہے جہاں تک وہ نشانات جاتے رہے۔ جہاں پر وہ نشانات کم ہوئے، اس مقام پر وہ بھی ٹھہر گئے۔
امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ چار ماہ کے مسلسل انتظار کے بعد ایک روز وہ کیمرے اور آٹھ سو ایم ایم کے لینس کے ساتھ دیکھ رہے تھے کہ اچانک اُن کے لینس کے سامنے تیندوے آ گئے۔
برفانی تیندوں کی فلم کیسے بنی؟
امتیاز احمد کہتے ہیں کہ برفانی تیندوے دیکھنے کے بعد وہ خوشی سے اچھل پڑے۔ ’بڑی مشکل سے اپنی خوشی سے چیخنے پر قابو پایا تھا۔ میں جانتا تھا کہ جنگلی جانوروں کے معاملات میں مداخلت انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ فلم بنانے میں بھی بہت احتیاط سے کام کرنا تھا۔ تنیدوے مجھ سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے فی الفور ڈرون اڑایا جس میں انھیں تین تیندوے دکھائی دیے۔
ان کے مطابق ’ان میں سے دو بچے جبکہ ایک ان کی ماں لگ رہی تھی۔ کچھ دیر تک میں ڈرون کیمرے کی مدد سے ان کی فلم بناتا رہا۔ اس کے بعد مجھے ڈرون کو دوبارہ چارج کرنے کے لیے نیچے اتارنا تھا۔‘
امتیاز احمد کا کہنا تھا کہ چارج کرنے کے بعد ڈرون کو دوبارہ اڑایا تو پہلے والے مقام کے قریب ہی دو اور تیندوے تھے۔ میرا خیال ہے کہ یہ اس ہی تیندوے خاندان کے نر ساتھی تھے۔ اس کے ساتھ اس وقت مادہ بھی موجود تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس لمحے کی میں جتنی فلم بنا سکتا تھا بناتا رہا۔‘

،تصویر کا ذریعہImtiaz Ahmad
وہ کہتے ہیں کہ 'اس وقت جو میرے جذبات تھے، اُنھیں کوئی عام بندہ نہیں سمجھ سکتا۔ یہ صرف وہ ہی سمجھ سکتے ہیں جو جنگلی حیات سے محبت کرتے ہیں۔'
برفانی تیندوے کے حوالے سے اعداد و شمار
ڈبلیو ڈبلیو ایف گلگت بلتستان کے ڈائریکٹر حیدر رضا کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں اس وقت برفانی تیندووں کی تعداد تقریباً چھ ہزار ہو سکتی ہے جبکہ پاکستان میں یہ تعداد مجموعی طور پر 200 سے 400 تک ہو سکتی ہے۔
محکمہ جنگلی حیات گلگت بلتستان کے کنزرویٹر اجلال حسین کے مطابق برفانی تیندوا گلگت بلتستان اور چترال کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔
'ہمارے پرانے اندازوں کے مطابق گلگت بلتستان میں اس کی تعداد ڈیڑھ سو سے دو سو تک ہو سکتی ہے۔'
اجلال حسین کا کہنا ہے کہ ملک میں ان کی تعداد کے حوالے سے اس سال دوبارہ ایک سروے شروع کیا جائے گا جس سے ان کی صیح تعداد کا اندازہ ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ برفانی تیندوے کے تحفظ کے لیے حکومت کے علاوہ غیر سرکاری اداروں نے بہت کام کیا ہے۔ ’ہمارا خیال ہے کہ اس کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہو گا۔‘
اس سال سیزن میں برفانی تیندووں کو کئی مرتبہ دیکھا گیا ہے۔ گلگت بلتستان میں مقامی لوگوں کی مدد سے اس کی آماجگاہوں کو محفوظ کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود برفانی تیندوے کو لاحق خطرات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیے
برفانی تیندوں کو لاحق خطرات
جنگلی حیات کی فوٹوگرافی کرنے والے امتیاز احمد کہتے ہیں کہ سیاحوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں برفانی تیندوے اور دیگر جنگلی حیات کی آماجگاہوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
'میں نے کئی ایسے مقامات پر دیکھا ہے کہ سیاح اپنا کوڑا کرکٹ، شاپنگ بیگ، بوتلیں انتہائی خوبصورت اور بہترین ماحول والے علاقوں میں پھینک دیتے ہیں جہاں کی صفائی بھی ممکن نہیں ہوتی۔'
امتیاز احمد کے مطابق ایسے علاقے جہاں پر برفانی تیندوے اور دیگر جنگلی حیات کی آماجگاہیں ہیں، ان علاقوں میں مشینوں کی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ وہاں پر انسانی سرگرمیاں بھی کم سے کم ہوں تاکہ برفانی تیندوا اور جنگلی حیات محفوظ رہ سکیں۔‘
اجلال حسین کہتے ہیں کہ ہمیں شمالی علاقہ جات میں شاہراہوں اور عمارتوں کی تعمیرات میں خیال رکھنا چاہیے۔ ایسے علاقے جو جنگلی حیات کی آماجگاہیں ہیں وہاں پر سڑک اور دیگر تعمیرات نہیں ہونی چاہییں۔ یہ برفانی تیندوے اور جنگلی حیات کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ڈبلیو ڈبلیو ایف گلگت بلتستان کے ڈائریکٹر حیدر رضا کے مطابق عالمی طور پر کی جانے والی تحقیقات محدود تھیں۔ 'ہمارا خیال ہے کہ تیندووں کی آماجگاہوں کے کچھ علاقے تک سروے ہو سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اندازہ ہے کہ 2070 تک برفانی تیندووں کی آماجگاہیں آٹھ سے 23 فیصد تک سکڑ جائیں گی جس کی دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ 35 فیصد وجہ موسمیاتی تبدیلی ہو گی۔
حیدر رضا کا کہنا ہے کہ محتاط اندازوں کے مطابق پوری دنیا میں ہر سال 200 سے 450 تیندوے غیر فطری طور پر ہلاک ہو جاتے ہیں جن کی مختلف وجوہات ہیں مگر اس میں 55 فیصد ہلاکتیں انسانوں اور برفانی تیندووں کے درمیان تنازع ہے۔
حیدر رضا کا کہنا تھا کہ انسانی آبادیاں اور سرگرمیاں برفانی تیندووں کی آماجگاہوں کی طرف بڑھتی جا رہی ہیں جس وجہ سے انسانوں اور تیندووں کے درمیان خوراک کا تنازع پیدا ہوتا ہے۔ تیندوا خوراک کی تلاش میں انسانوں کے مال مویشی پر حملہ کرتا ہے اور انسان غصے میں اس کو نشانہ بناتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ برفانی تیندوا درحقیقت قدرتی ماحولیاتی نظام میں کسی بھی تبدیلی کا بڑا اشارہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کی تعداد کم یا زیادہ ہوتی ہے تو اس کا واضح مطلب ماحولیات میں تبدیلی ہے۔
برفانی تیندوا، قدرتی ماحولیاتی نظام اور فوڈ چین
وائلڈ لائف سنٹرل سرکل پشاور کے کنزرویٹر افتخار الزمان کے مطابق برفانی تیندوا عموماً سال میں دو مرتبہ اپنی جگہ یا ٹھکانہ تبدیل کرتا ہے۔ موسم گرما میں یہ اپنے مزاج کے مطابق ٹھنڈے موسم کی تلاش میں اپنی آماجگاہوں میں بہت بلندی پر گلیشیئر کے قریب ترین، پہاڑوں کی چوٹیوں پر چلا جاتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہAFP
ان کا کہنا تھا کہ سردیوں کے موسم میں جب ان علاقوں میں شدید ترین برفباری ہوتی ہے تو یہ ہی تیندوا اپنی آماجگاہوں جہاں پر زیادہ تر چراگاہیں اور بلندی پر واقع جنگلات ہوتے ہیں، وہاں پر منتقل ہو جاتا ہے۔
یہی چراگاہیں اور جنگلات گرمیوں کے موسم میں انسانوں کے مال مویشیوں کے لیے خوراک فراہم کرتے ہیں جبکہ سردیوں میں برفانی تیندوے کے لیے شکار۔
افتخار الزماں کا کہنا تھا کہ اب اگر برفانی تیندوے کی تعداد کم یا زیادہ ہوتی ہے تو اس کا بڑا واضح مطلب ہوتا ہے کہ قدرتی نظام متاثر ہوا ہے، اور اس سے صرف برفانی تیندوا اور جنگلی حیات ہی نہیں بلکہ انسان بھی متاثر ہوتے ہیں۔
محکمہ ماحولیات خیبر پختونخوا کے سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر نعمان رشید کے مطابق وہ سارے علاقے جن کو برفانی تیندوے کی آماجگاہیں سمجھا جاتا ہے، ان علاقوں کی اہمیت پاکستان کے لیے زندگی اور موت ہے کیونکہ وہ سارے علاقے پاکستان میں بہنے والے دریاؤں کا منبع ہیں۔
نعمان رشید کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی تو ایک حقیقت ہے جس سے منھ نہیں موڑا جا سکتا۔ اس کے اثرات تو پڑ رہے ہیں۔ اب اگر یہ کہا جارہا ہے کہ 2070 تک برفانی تیندوے کی آماجگاہیں 23 فیصد تک کم ہو سکتی ہیں تو یہ بہت ہی زیادہ خطرناک بات ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بات صرف تیندوے کی آماجگاہوں کی نہیں بلکہ ان علاقوں کی ہے جو کئی کروڑ لوگوں کو پانی اور خوراک فراہم کرتے ہیں۔ ’ان علاقوں میں برفانی تیندووں کو خوراک اور شکار نہیں ملے گا تو انسانوں کے لیے بھی مشکلات بڑھ جائیں گی۔‘










