تحریکِ لبیک کا لانگ مارچ: ٹی ایل پی کو جہلم پل تک محدود رکھنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟

کنٹینرز
    • مصنف, شہزاد ملک
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، جہلم

ایک عمر رسیدہ خاتون سر پر کپٹروں کی گٹھڑی اٹھائے جہلم کے پل پر پہنچتی ہے تو وہاں پر موجود پولیس اہلکاروں سے پوچھتی ہے کہ ’پتر رستے کیوں بند نیں‘ (بیٹا راستے کیوں بند ہیں)، جس پر پولیس اہلکار جواب دیتے ہیں کہ ’اماں جی کچھ لوگ مظاہرہ کرنے کے لیے آنا چاہتے ہیں اس لیے راستے بند کیے گئے ہیں۔‘

بوڑھی خاتون دوبارہ سوال کرتی ہے کہ گاڑیاں بھی نہیں چل رہیں، جس پر پولیس اہلکار جواب دیتے ہیں کہ اماں جی جب راستے بند ہیں تو گاڑیاں کیسے چلیں گی جس پر بوڑھی خاتون پولیس اہلکار کی طرف منت سماجت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہتی ہے کہ ’گڈیاں وی کوئی نئیں، پتر میں دریا دے پار جاناں اے۔‘ (گاڑیاں بھی نہیں چل رہیں، بیٹا میں نے دریا کے پار جانا ہے۔)

پولیس اہلکار جو کہ فیصل آباد سے ڈیوٹی کرنے کے لیے جہلم آئے تھے نے خاتون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اماں جی اگر ہم آپ کو جانے کی اجازت دے بھی دیں تو پھر بھی آپ دریا کے اس پار نہیں جا سکیں گی کیونکہ دریائے جہلم کے پل کی دیواروں کو توڑ کر وہاں پر کنٹینرز رکھے گئے ہیں اور وہاں سے پیدل گزرنے کا بھی راستہ نہیں ہے۔

اس دوران ایک پولیس اہلکار نے تھوڑے فاصلے پر موجود چنگ چی رکشے والے کو بلا کر اسے خاتون کو دوسرے راستے سے دریا پار کر کے اس کے گھر پہنچانے کا کہا۔ پولیس اہلکار نے رکشے والے کو پچاس روپے دینے کی بھی کوشش کی لیکن رکشے والے نے پیسے لینے سے انکار کر دیا اور وہ اس خاتون کو جہلم شہر کے اندر ریلوے ٹریک کے ساتھ جانے والے ایک چھوٹی سڑک کی جانب لے گیا۔

یہ مکالمہ مجھے جہلم کے پل پر دیکھنے کو ملا جہاں پولیس اہلکاروں نے گاڑی کو تو آگے جانے کی اجازت نہیں دی البتہ ہمیں پیدل جانے کی اجازت دے دی۔ کالعدم جماعت تحریک لبیک پاکستان کا لانگ مارچ اس وقت گوجرانوالہ میں موجود ہے لیکن وفاقی و صوبائی حکومت کی جانب سے انھیں اسلام آباد پہنچنے سے روکنے کے لیے بھرپور اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

کالعدم جماعت تحریک لبیک پاکستان کے لانگ مارچ کو اسلام آباد کی طرف آنے سے روکنے کے لیے جتنے حفاظتی اقدامات پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے کیے گئے ہیں اتنے اس جماعت کے ماضی میں کیے گئے دھرنوں کے دوران نطر نہیں آئے۔

پولیس

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ تحریک لبیک کا تیسرا بڑا احتجاجی مظاہرہ ہے۔ پہلا مظاہرہ توہین مذہب کے مقدمے میں سپریم کورٹ سے رہائی پانے والی آسیہ بی بی کے خلاف تھا جبکہ دوسرا مظاہرہ رواں برس اپریل میں پیغمبر اسلام کے خاکے بنانے کے خلاف تھا۔

حکومت نے اس جماعت کے ساتھ فرانس کے سفیر کی ملک بدری کے معاملے پر معاہدہ کیا تھا تاہم معاہدے کے کچھ روز بعد ہی حکومت نے تحریک لبیک کو کالعدم جماعتوں کی فہرست میں شامل کر دیا تھا۔

کنٹینرز، خندقیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری

ہمیں راستے میں ایک چنگ چی رکشے کو ہاتھ کا اشارہ کر کے روکنے کی کوشش کی تو وہ کیمرے کو دیکھ کر رکشہ بھگا کر لے گیا تاہم واپسی پر جب ہمیں جہلم کے پل پر کھڑی رکاوٹوں کو فلم بند کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو وہی رکشے والا وہاں پر کھڑا تھا اور جب اس سے پوچھا کہ وہ کیوں نہیں رکا تو اس نے کہا کہ وہ اس وجہ سے نہیں رکا کیونکہ ’آپ میری فلم بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دیں گے اور پولیس تحریک لبیک کا کارکن سمجھ کر گرفتار کر لے گی۔‘

دریائے جہلم کے پل پر تحریک لبیک کے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے پل کی اطراف لگی ہوئی دیواروں کو متعدد جگہوں سے توڑ کر وہاں کنٹینرز کھڑے کیے ہیں۔

ٹول پلازہ

جو کنٹینرز خالی تھے ان میں نہ صرف مٹی بھری گئی بلکہ ان کے اردگرد لوہے کے سریے لگا کر انھیں پل کے سریوں کے ساتھ ویلڈ کیا گیا تاکہ انھیں اپنی جگہ سے آسانی سے ہٹایا نہ جا سکے۔

اسلام آباد اور لاہور کے درمیان جی روڈ پر سب سے بڑا پل دریائے جہلم کا ہی پل ہے جس کے دونوں اطراف یہی عمل دہرایا گیا۔ اس کے علاوہ پل کے اوپر ہر بیس فٹ کے فاصلے پر بلاک رکھ کر ان کنٹینرز کو اس میں فکس کر کے اس پر پلستر بھی کیا جا رہا ہے۔

مندرہ سے جہلم تک متعدد پلوں کی دیواروں کو توڑ کر وہاں پر کنٹینرز لگائے جا رہے ہیں۔

YouTube پوسٹ نظرانداز کریں
Google YouTube کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Google YouTube کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Google YouTube ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں

YouTube پوسٹ کا اختتام

بعض مقامات پر لانگ مارچ کے شرکا کو روکنے کے لیے نہ صرف سڑکوں کو توڑ کر وہاں پندرہ سے بیس فٹ تک گہری خندقیں کھودی گئی ہیں۔ یہ خندقیں لاہور سے اسلام آباد کی طرف آتے ہوئے دریائے چناب کے پل سے پہلے وزیرآباد بائی پاس کے قریب کھودی گئی ہیں۔

اس لانگ مارچ کے شرکا کے پاس کنٹینرز ہٹانے کے لیے کرین تو موجود ہے لیکن خندقیں بھرنے کے حوالے سے یہ شرکا کیا حکمت عملی اپناتے ہیں اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔

کنٹینرز کے ڈرائیورز کی پریشانی اور دوسرے شہروں کی پولیس

پولیس

مندرہ سے جہلم کے درمیان سینکڑوں کی تعداد میں کنٹینرز کو روکا گیا ہے اور ان میں درجنوں کنٹینرز ایسے ہیں جس میں آلو اور پیاز کے علاوہ کھانے پینے کی اشیا ہیں۔ ان کنٹینرز کے ڈرائیورز اور سٹاف کے دیگر عملہ جو کہ گذشتہ چار روز سے ان پلوں پر موجود ہے کو ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھیں ایک ہفتہ اور یہاں پر رکنا پڑے گا جس سے ان کنٹینرز میں موجود کھانے پینے کی اشیا خراب ہو جائیں گی۔‘

ان کنٹینرز کے ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ انھیں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے کوئی ادائیگی نہیں کی جا رہی تاہم انھیں دو وقت کا وہی کھانا مل جاتا ہے جو پولیس اہلکاروں کو ملتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سوہاوہ پل پر موجود کنٹینرز کے ڈرائیووں کو بھی جب ایک پولیس اہلکار نے دوپہر کے وقت کھانے کے لیے چاولوں سے بھرے ہوئے پلاسٹک کے ڈبے دیے تو ایک ڈرائیور بولا کہ 'سر جی آج پھر چاول' جس پر پولیس اہلکار نے برجستہ جواب دیا کہ 'اب میں آپ لوگوں کے لیے چرغے لانے سے رہا۔'

مندرہ سے لے کر جہلم تک سکیورٹی کی ذمہ داری دوسرے شہروں سے طلب کی گئی پولیس کی نفری کے ذمے تھی۔

ڈسٹرکٹ پولیس افسر میانوانی کے علاوہ فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے پولیس افسران اپنی نفری کے ہمراہ ڈیوٹی دے رہے ہیں۔

جہلم پل

مندرہ سے جہلم شہر تک زیادہ تر پنجاب پولیس کے اہلکار ڈیوٹیاں کرتے ہوئے نظر آئے جبکہ پنجاب کانسٹیبلری کی ایک قابل ذکر تعداد بھی ان علاقوں میں موجود تھی تاہم جہلم کینٹ اور جہلم کے پل پر پولیس کے علاوہ پنجاب رینجرز کے اہلکاروں کی بھی ایک بڑی تعداد تعینات ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے جن جگہوں پر رکاوٹیں کھڑی کی ہیں وہاں پر پیدل جانے والوں کے لیے بھی کوئی راستہ نہیں چھوڑا گیا۔

راستوں کی بندش اور گاڑیوں کے نہ چلنے کی وجہ سے ان علاقوں میں جی ٹی روڈ کے اطراف میں موجود متعدد ہوٹلز اور ریسٹورینٹس بھی بند تھے جبکہ پیٹرول پمپس پر موجود عملہ بھی گاڑیوں کا منتظر دکھائی دے رہا تھا۔