ڈی جی آئی ایس آئی: پاکستان کے خفیہ ادارے کے سربراہ کی تقرری کا معاملہ سوشل میڈیا پر زیر بحث

،تصویر کا ذریعہTWITTER/@PAKPMO
پاکستان کے طاقتور خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کا نیا سربراہ کون ہوگا، موجودہ ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے دور میں توسیع کی جائے گی یا فوج کی جانب سے لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی تقرری عمل میں آئے گی؟
یہ وہ سوالات ہیں جو گذشتہ ہفتے سے پاکستان میں زیر بحث ہیں۔
گذشتہ ہفتے پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ نے کہا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو آئی ایس آئی کا نیا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے حکومت کی جانب سے تاحال کوئی نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا گیا ہے۔
ادھر دارالحکومت اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں یہ خبریں گرم ہیں کہ وزیراعظم عمران خان سبکدوش ہونے والے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ساتھ کام کرنے میں زیادہ سہولت محسوس کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ فیض حمید ہی اس عہدے پر کام جاری رکھیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فیض حمید کو اب پشاور کا کور کمانڈر مقرر کیا گیا ہے۔
اگرچہ حکومت کا اب یہ موقف سامنے آیا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے پر وزیراعظم اور آرمی چیف 'دونوں کا اتفاق رائے ہے۔ اس میں اتھارٹی وزیر اعظم کی ہے۔'
پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے منگل کو کہا ہے کہ وزیراعظم آفس کبھی بھی ایسا قدم نہیں اٹھائے گا کہ فوج کا وقار کم ہو اور سپہ سالار کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے کہ سول سیٹ اپ کی عزت میں کمی آئے۔
تو اب آئی ایس آئی کے سبراہ کون ہوں گے، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید یا لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم؟ اس سوال کے جواب میں فواد چوہدری نے دونوں میں سے کسی کا بھی نام لیے بغیر کہا ہے کہ ’ڈی جی آئی ایس آئی کا تقرر ہمیشہ مشاورت اور قانونی تقاضے مکمل کرنے کے بعد کیا جائے گا۔‘
خیال رہے کہ ان کے مطابق پیر کی شب وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ کے درمیان ’ایک طویل نشست‘ ہوئی تھی جس میں یہ معاملہ بھی بحث کا موضوع تھا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ادھر سوشل میڈیا سے لے کر ٹی وی ٹاک شوز تک پر نظر دوڑائی جائے تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ فواد چوہدری کی پریس کانفرنس کے بعد بھی ابھی ابہام ہے۔
’اختلاف نہیں تو حل کس بات کا؟‘
سوشل میڈیا پر اس وقت ’ڈی جی آئی ایس آئی‘ ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے جس میں عام لوگوں سے لے کر صحافی و تجزیہ کار اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔
بعض لوگوں کی رائے ہے کہ کچھ دنوں کی تاخیر کے بعد حکومتی موقف نے قیاس آرائیاں دور کر دی ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ ابہام کی فضا برقرار ہے۔

،تصویر کا ذریعہTWITTER
ایک ٹویٹ میں اینکر غریدہ فاروقی کہتی ہیں کہ ’جنرل ندیم انجم ہی نئے ڈی جی آئی ایس آئی ہوں گے‘ جس کی حکومت نے اپنے موقف سے تصدیق کر دی ہے۔ ’بس سمری نوٹیفیکیشن بھی آنے والا۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’اختلاف نہیں تو معاملہ حل کس بات کا کرنا (ہے)؟ اختلاف نہیں تو بات چیت، ملاقات، مذاکرات، کابینہ میں بحث کیوں؟ سمری پر سائن کیوں نہیں؟ جلدبازی اور اضطراب میں میڈیا کو خبر جاری نہیں کرنی چاہیے۔‘
ٹی وی اینکر کامران خان ’افغانستان کی وجہ سے عالمی نگاہیں پاکستان پر مرکوز ہیں۔ پاکستان چند گھنٹوں کے لیے قومی سلامتی فیصلہ سازی میں عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ضروری ہے وزیر اعظم عمران، آرمی چیف جنرل باجوہ ڈی جی آئی ایس آئی تعیناتی پر متحد ہوں۔ یہ ادارہ دونوں شخصیات کی مشترکہ پسند کے سربراہ کے بغیر نہیں چل سکتا۔‘

،تصویر کا ذریعہTWITTER
انھوں نے مزید کہا کہ ’آئی ایس آئی سربراہ تعیناتی اختیار وزیر اعظم کا ہے مگر عہدے پر فائز لیفٹیننٹ جنرل کا انتخاب آرمی چیف کے مشورے کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
’یقیناً ڈی جی آئی ایس آئی وزیر اعظم کو رپورٹ کرتا ہے، ہدایت لیتا ہے۔ مگر وہ آرمی چیف کا بھی تابع ہوتا ہے، آرمی ڈسپلن کا پابند ہے۔ ایک شخصی پسند آئی ایس آئی سربراہ خطرے کی گھنٹی ہوگا۔ خدانخواستہ۔‘
نائلہ عنایت نے فواد چوہدری کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سول ملٹری قیادت ’شاید ایک پیج پر ہیں مگر مختلف کتابوں کے۔‘
یہ بھی پڑھیے

،تصویر کا ذریعہTWITTER
قانونی ماہر ریما عمر نے سوال پوچھا ہے کہ کیا اس کا مطلب 6 اکتوبر کو آئی ایس پی آر کے ٹویفیکیشن کو ’ریجیکٹ (مسترد) کر دیا گیا ہے؟‘
صحافی کامران یوسف یاد کرتے ہیں کہ ’اکتوبر 1998 میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے لیفٹیننٹ جنرل ضیا الدین بٹ کو آرمی چیف جنرل مشرف سے مشاورت کے بغیر ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کیا تھا۔ اس سے اعلیٰ عسکری قیادت ناراض ہوئی تھی۔ خیال ہے کہ اس بار معاملہ الٹ ہے!‘
وہ ریما عمر کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ ’وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے بیان کا مطلب یہ ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری وزیراعظم کو بائی پاس کر کے کی گئی، جس کی وجہ سے تنازع شروع ہوا۔ دوسرے لفظوں میں وزیر اعظم نے آئی ایس پی آر کی 6 اکتوبر کی پریس ریلیز مسترد کر دی ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہTWITTER
مگر سوشل میڈیا صارف ملیحہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتیں۔
وہ کہتی ہیں کہ 'تین سال عمران خان کو فوج کا سلیکٹڈ اور کٹھ پتلی کا طعنہ دینے والے آج یہ افواہ اڑا کر بھنگڑے ڈال رہے ہیں کہ فوج اور عمران خان متحد نہیں۔'
اس دوران سماجی کارکن جبران ناصر کا موقف تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع یا ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معاملے پر ہم ’انفرادی شخصیات کو فوقیت دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں مسلح افواج کی ادارتی صلاحیت متاثر ہوتی ہے کہ وہ کسی تعیناتی کے لیے تیار، قابل اور آمادہ متبادل تلاش کر سکیں۔‘

،تصویر کا ذریعہTwitter
صحافی طلعت حسین کو اعتراض ہے کہ سٹاک مارکیٹ میں مندی، معاشی تنزلی، آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف، امریکہ، افغانستان، انڈیا، دہشتگردی، مظاہروں اور ’دیگر 10 لاکھ چیزیں ہیں لیکن اولین ترجیح ’درست‘ ڈی جی آئی ایس آئی ہے۔‘
نسیم زہرہ نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’اپنی اتھارٹی استعمال کرتے ہوئے عمران خان کو جلد از جلد ڈی جی آئی ایس آئی (کی تقرری) پر فیصلہ لینا ہوگا۔ یہ قیاس آرائیوں کو ختم کرنے کا واحد راستہ ہے۔‘
'ڈیڈ لاک برقرار ہے'
اس صورتحال پر بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک نے سینیئر تجزیہ کار افتخار احمد سے بات کی۔
افتخار احمد کا کہنا ہے کہ فوج اور حکومت کے درمیان ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کو لے کر 'ڈیڈ لاک برقرار ہے‘ جس سے ’ملک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو تبدیل کرنے کا فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کو ’اعتماد میں لیے بغیر نہیں کیا ہوگا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر وزیر اعظم عمران خان سویلین بالادستی کے لیے جنرل فیض حمید کے تبادلے کو تسلیم نہیں کر رہے تو پھر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے حزب مخالف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے بیانیے 'ووٹ کو عزت دو‘ کو اپنا لیا ہے۔‘
افتخار احمد یاد کرتے ہیں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ ملک کے واحد آرمی چیف ہیں جن کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے تمام پارلیمنٹ نے ووٹ دیا تھا۔
’وزیر اعظم عمران خان اپنا کمفرٹ لیول دیکھنا چاہتے ہیں اور ابھی تک جنرل ندیم انجم کے نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن نہ ہونا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وزیر اعظم انفرادی تبدیلیاں چاہتے ہیں جبکہ ادارے شخصیات سے زیادہ مقدم ہوتے ہیں۔‘
افتخار احمد کا کہنا تھا کہ موجودہ معاشی صورتحال کے پیش نظر ’وفاقی حکومت کو معاشی مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے لیکن وہ خود کو ایسے معاملات میں الجھا رہی ہے جس کا نقصان ملک کو ہوگا۔‘









