ڈوکسی ایڈس: ’سرد جنگ کے ایک کٹر جنگجو‘ جنھیں اسلام آباد کی تعمیر کا کام سونپا گیا

ڈوکسی ایڈس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

    • مصنف, عمر فاروق
    • عہدہ, دفاعی تجزیہ کار

یونان سے تعلق رکھنے والے سی اے ڈوکسی ایڈس تعمیرات اور شہری منصوبہ بندی کے ممتاز ماہر تھے جن کا عالمی سیاسی منظر نامے میں جانا مانا تعارف بطور ’سرد جنگ کے ایک کٹر جنگجو‘ کا تھا۔

انھیں پاکستان کے نئے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی تعمیر میں ’اسلامی اقدار و روایات‘ کا رنگ بھرنے میں بڑی ریاضت و مشقت کے مراحل کا سامنا کرنا پڑا۔

وہ کوئی عام ماہر تعمیرات نہ تھے، انھوں نے ایک ایسے گھر میں آنکھ کھولی جو پہلی جنگ عظیم میں پناہ گزینوں کی یونان میں آبادکاری کے عمل میں شریک کار رہا تھا۔

ڈوکسی ایڈس دوسری جنگ عظیم میں جرمن توسیع پسندی اور قبضے کے خلاف یونانی مزاحمت کا حصہ بن گئے، یہ ان کی زندگی کا وہ موڑ تھا جہاں ان کے برطانوی انٹیلیجنس کے ساتھ گہرے مراسم بنے۔ اگر ان کے حالات زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کمیونسٹ مخالف تھے اور معاشی ترقی کے ان خیالات و تصورات کا اسیر و گرویدہ تھے جو مغربی منصوبوں کے مطابق مغربی معیشت دانوں نے تیسری دنیا کی فوری معاشی اور ڈھانچہ جاتی ترقی کے لیے پیش کیے تھے۔

اسلام آباد

،تصویر کا ذریعہcda.gov.pk

،تصویر کا کیپشنکیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام جنرل ایوب خان کو اسلام آباد کے مقام پر شہر کے ماسٹر پلان کے بارے میں بریفنگ دے رہے ہیں

اُنھوں نے برلن یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کی تھی جہاں انھوں نے سنہ 1937 میں قدیم یونان کی شہری منصوبہ بندی پر اپنے مقالے کا دفاع کیا تھا۔ اُن کے سوانح نگار مارک ڈائیسشیل نے لکھا کہ ’برلن سے ان کی واپسی پر دوسری جنگ عظیم چھڑ چکی تھی جس پر وہ جرمن قبضے کے خلاف یونانی مزاحمت کا حصہ بن گیا۔ یہ ہی وہ مرحلہ تھا جہاں ان کے برطانوی انٹیلیجنس کے ساتھ رابطے استوار ہوئے، جس نے مغربی مفادات کے ایک بااعتماد شخص کے طور پر ان کی تمام عمر کی شہرت کی بنیاد رکھی۔‘

اسلام آباد کے ٹاون پلانر کے طور پر پاکستانی حکومت کے لیے اُن کی خدمات حاصل کرتے وقت اور ان کی مدت ملازمت کے دوران ایوب خان کی حکومت کے بہت سارے لوگ اُس کے بارے میں یہ سوچتے تھے کہ وہ امریکی ’سی آئی اے (خفیہ ایجنسی) کے براہ راست ’کانٹیکٹ‘ (رابطہ) ہیں۔ لیکن پاکستان حکومت کے لیے ان کی ’کنسلٹینسی‘ (مشاورت ومعاونت) کا معاوضہ واشنگٹن ڈی سی میں امریکی حکومت نہیں بلکہ نجی ’فورڈ فاؤنڈیشن‘ ادا کرتی تھی۔

بریفنگ

،تصویر کا ذریعہCDA.GOV.PK

ایوب خان جس وقت راولپنڈی کے قریب نیا دارالحکومت بنانے اور بسانے کا تصور عام کرنے میں مصروف تھے اُس وقت پاکستان میں ایک نئی بحث یہ چھڑ چکی تھی کہ کس طرح اس نئے شہر کو اسلامی اقدار کی اوج کمال پر لے جایا جائے۔ اس نئے شہر کا نام ’اسلام آباد‘ تجویز کیا گیا تاہم ملک میں دائیں بازو کے طبقات کا جوش اس سے کہیں بڑھ کر تھا جنھوں نے تجویز کرنا شروع کیا کہ تعمیرات اور شہری منصوبہ بندی میں اسلامی طرز ثقافت کی بھی صاف صاف جھلک نظر آنی چاہیے۔

چند ایک کا خیال تھا کہ شاہراہوں اور عمارتوں کو قبلہ رُخ (یعنی خانہ کعبہ کی طرف) ہونا چاہیے۔

ڈوکسی ایڈس کا خیال اس سے برعکس تھا، اُن کی سوچ تھی کہ ’شاہراہوں کا رُخ زمین کی ساخت، شکل وصورت کے مطابق متعین ہونا چاہیے، ماحولیاتی ضروریات اور مستقبل میں بڑھتی گنجائش، ٹریفک کے بہاؤ اور دیگر عملی مسائل کو مدنظر رکھنا چاہیے۔‘

اسلام آباد

،تصویر کا ذریعہcda.gov.pk

،تصویر کا کیپشندارالحکومت اسلام آباد کے ابتدائی دنوں میں شاہراہ دستور پر ایوان صدر کی زیر تعمیر عمارت کا منظر

’ڈوکسی ایڈس کی سوچ یہ تھی کہ شہری منصوبہ بندی میں اسلامی طرز کی مناسب حد تک جھلک دکھانا ہی ممکن ہو سکتا تھا، ان کا دھیان مقامی ثقافت کو تعمیرات میں سمونے کے ساتھ ساتھ گھروں اور مراکز کے قابل استعمال ہونے کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی مذہبی و ثقافی ضروریات کے جاں گُسل مسئلے کی طرف زیادہ تھا۔‘

’مسلمانوں کے شہر کی منصوبہ بندی کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہاں کے شہریوں کے لیے مساجد کی فراہمی، بازاروں، چائے خانوں اور غسل خانوں کی تعمیر تھی، ایک ایسا شہر جہاں پردے کی اسلامی اقدار اور قدامت پسند خاندانی زندگی کے پہلو مدنظر رہیں۔‘

ڈوکسی ایڈس کون تھے؟

ڈوکسی ایڈس سنہ 1913 میں بالکان جنگ شروع ہونے سے قبل یونان کے قصبے مشرقی رومیلیا (موجودہ بلغاریہ) میں پیدا ہوئے تھا۔ پیدائش کے فوری بعد ان کا خاندان یونان سے جبری نقل مکانی پر مجبور ہوا تاکہ نسل کشی سے خود کو بچا سکے۔ ان کے والد ایک حکومتی وزیر تھے جو پناہ گزینوں کی آباد کاری میں شریک رہے تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب کمال اتاترک کی قیادت میں ترکوں کے ہاتھوں شکست پر سلطنت عثمانیہ کی یونانی آبادی ترکی سے فرار ہو رہی تھی۔ اس کی ابتدائی زندگی کے یہ تجربات پاکستان کی تاریخ میں شہری آباد کاری کے منصوبے کو بنانے میں ان کے کام آئے۔

ڈوکسی ایڈس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جنگ کے خاتمے کے بعد ڈوکسی ایڈس سان فرانسیسکو میں اقوام متحدہ کے پہلے اجلاس میں یونانی وفد کے رکن کے طور پر عالمی سیاسی منظرنامے پر ابھر کر سامنے آئے۔ پوری جنگ کے دوران وہ جنگ کے معاشی زندگی پر اثرات اور یونان میں تعمیراتی ماحول کے بارے میں معلومات جمع کرتے رہے۔

یہ تمام تاثرات اور اپنے تجربے کا نچوڑ جنگ کے بعد تعمیر نو کی جاری بحث پر اثرانداز ہونے کے لیے انھوں نے کتابوں، اخباری مضامین اور عالمی نمائشوں میں پیش کرنا شروع کر دیے۔

مارشل پلان سے کچھ پہلے جب یونان میں ’فنڈنگ‘ (امدادی رقوم) آنے لگی تو ڈوکسی ایڈس کو تعمیرِ نو کی وزارت کا انچارج بنا دیا گیا۔ سنہ 1950 تک انھوں نے اِس منصب پر خدمات جاری رکھیں۔

اُن کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ’اگرچہ یہ مکمل طور پر واضح نہیں کہ ان کا کام کس حد تک کامیاب رہا تاہم ڈوکسی ایڈس کا کمیونسٹ باغیوں کے خلاف یونان میں ایک خونریز اور قدیم خانہ جنگی میں ملوث ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ سرد جنگ میں ایک قابل اعتماد جنگجو کے طورپر اپنی شہرت کو مزید بڑھائیں۔‘

جنگ کے بعد یونان جیسے ملک میں یہ بحث اس وقت زوروں پر تھی کہ ڈھانچہ جاتی عملی تعمیر نو اور معاشی ترقی کیسے ہو۔ یونان مغربی دنیا کے سیاسی عمل میں معاشی ترقی کا ایک 'ٹیسٹ کیس' (تجرباتی نمونہ) بن کر سامنے آیا، جس کے حاصل کردہ سبق کو پاکستان جیسے ملک میں اپنایا گیا۔ اس طرز عمل کا ایک نہایت ناگزیر مقصد نوآبادیات کے چنگل سے نجات پانے والی دنیا کو کمیونسٹوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکنا تھا۔

ڈوکسی ایڈس نے معاشی اور عملی ترقی کے مغربی ماڈل کی نمائندگی کیسے کی؟

ڈوکسی ایڈس پہلی بار پاکستان اکتوبر 1954 میں آئے تھے۔ کرشمہ ساز شخصیت کا حامل یونانی ماہر تعمیر ڈوکسی ایڈس سرد جنگ کے بعد کی سب سے اہم بین الاقوامی ترقی کے کاروباری ادارے کے فیصلہ سازوں میں شامل تھے۔

وہ ایتھنز سے براستہ قبرص اور بیروت سے دارالحکومت کراچی پہنچے، وہ ایک ماہ کے طویل مشاہداتی سفر پر تھے جس میں وہ پہلے ڈھاکہ اور پھر مشرقی پاکستان کے دیگر شہروں میں جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ان کا یہ سفر کراچی سے شروع ہوا، اس سفر میں دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ خیرپور، سکھر، رحیم یار خان، بہاولپور سے ہوتے ہوئے وہ لاہور پہنچے، وہاں سے لائلپور (موجودہ فیصل آباد)، سرگودھا، پشاوراور خیبر پاس (درہ خیبر) تک کا سفر کیا۔ اس دورے کا مقصد ملک کو سمجھنا تھا۔

سنہ 1954 میں پاکستان آنے کے بعد چار سال تک ڈوکسی ایڈس پاکستان کی سرکاری چکا چوند سے دور رہے۔ اس عرصے کے دوران بیوروکریسی (سرکاری افسران)، وزرا اور سول و ملٹری قائدین سے میل ملاقاتیں ان کا معمول تھیں۔

اسلام آباد

،تصویر کا ذریعہcda.gov.pk

،تصویر کا کیپشناسلام آباد کی تعمیر کے ابتدائی دنوں میں سیکٹر جی فائیو میں قائم ایم این اے ہوسٹلز کی زیر تعمیر عمارت کا منظر

سنہ 1958 میں فوجی بغاوت کے بعد ان کی قسمت چمک اٹھی۔ پاکستانی تاریخ نویس اور سیاسی تجزیہ کار عموماً ڈوکسی ایڈس کے مقدر بدلنے کی وجہ سیاسی صورتحال میں تبدیلی کو بتاتے ہیں جس کی وجہ 1958 کے بعد فوجی بغاوت کے نتیجے میں آنے والی تبدیلیاں تھیں، ملک کے اندر سیاسی اخلاقیات بدل گئیں اور سست روی کا شکار بیوروکریسی نے ایوب خان کی فوجی حکومت کی معاشی ترقی کی پالیسیوں کو راستہ دینا شروع کر دیا۔

پاکستان میں ڈوکسی ایڈس کی باوقار نوکری کا خوشیوں کا سفر سنہ 1958 سے سنہ 1961 کے درمیان شروع ہوا جس میں ایک سبب ’امریکی اِیڈ (امدادی) پالیسی‘ تھی جو تبدیل ہوتے عمومی حالات کے علاوہ پاکستان کے حوالے سے بھی خاص اہمیت کی حامل تھی۔

یہ بھی پڑھیے

اُس کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ’یہ قطعی حیران کن نہیں کہ ڈوکسی ایڈس امریکی بین الاقوامی مفادات کے ہم رکاب تھے۔ یہاں تک کہ ان کی زیادہ تر فنڈنگ نجی فورڈ فاؤنڈیشن کے ذریعے آتی تھی نہ کہ واشنگٹن ڈی سی میں امریکی حکومتی اداروں سے۔ پاکستان میں چند ہی لوگ جانتے تھے کہ ان کا انتخاب مغرب کے ہم نوا اور کمیونسٹ مخالف ہونے کی وجہ سے ہوا ہے ناکہ اس کی فنی مہارت کے سبب۔‘

بعض حکومتی وزرا کو یہاں تک شک تھا کہ اس کا تعلق براہ رساست امریکی سی آئی کے ساتھ ہے۔

1958 کی فوجی بغاوت کے بعد ڈوکسی ایڈس کا مقدر کیسے بدلا؟

ڈوکسی ایڈس کے سوانح نگار اپنی کتاب ’اسلام آباد اینڈ دی پالیٹیکس آف انٹرنینشل ڈویلپمنٹ اِن پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ ’فوجی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایوب خان نے فوری طور پر جنرل اعظم خان کو پناہ گزینوں کی بحالی کا وزیر تعینات کیا۔ جنرل اعظم خان کو فن تعمیر اور منصوبہ بندی کے امور سے کچھ خاص ہی لگاﺅ تھا۔

’فوج کے اندر ان کی شہرت اپنے مقصد کو پا لینے والے شخص کی تھی۔ وہ ان دستوں کی قیادت کر چکے تھے جنھوں نے پاکستان میں لگنے والے پہلے مارشل لا کے دوران احمدی بلوؤں اور فسادات کے دوران سنہ 1953 میں لاہور کا کنٹرول واپس لیا تھا۔‘

’جنرل اعظم نے کورنگی منصوبے کے پیچھے کار فرما اصل دماغ کے طور پر ڈوکسی ایڈس کا انتخاب کیسے کیا تھا؟ اس بارے میں اگرچہ دستاویزی تفصیلات تو موجود نہیں ہیں لیکن پورے وثوق سے جو بات کہی جا سکتی ہے، وہ بذات خود فوجی بغاوت ہے۔ فوجی بغاوت کے فوری بعد چند ہفتوں میں ہی بہت کچھ انتہائی تیزی سے بدل گیا اور گذشتہ برسوں میں ہونے والی ’لابنگ‘ (جوڑ توڑ) بے ثمر رہی تاہم ڈوکسی ایڈس کی چیف کنسلٹنٹ کے طور پر تقرری کے بارے میں امریکی سفارتی حکام یہ نشاندہی کرتے ہیں کہ دسمبر 1958 میں پناہ گزینوں کے بحران کو حل کرنے کے لیے چیف کنسلٹنٹ کے طور پر ان کی تقریری پہلے ہی ہو چکی تھی۔‘

ان کے مطابق عینی شاہدین بیان کرتے ہیں کہ کیسے اعظم خان کی ڈوکسی ایڈس سے فورڈ فاﺅنڈیشن کے زیر اہتمام ایک تقریب میں ملاقات ہوئی جہاں ان کی شخصیت اعظم خان کو بھا گئی تھی اور اسی مقام پر ڈوکسی ایڈس کی خدمات حاصل کر لی گئی تھیں۔ ڈوکسی ایڈس کو بتایا گیا تھا کہ ’چھ ماہ کی مدت کے اندر 15 ہزار سے 20 ہزار گھروں کو تعمیر کیا جانا ہے۔‘

اسلام آباد

،تصویر کا ذریعہcda.gov.pk

،تصویر کا کیپشنسنہ 1963 میں اسلام آباد کی معروف آبپارہ مارکیٹ کا ایک منظر

ڈوکسی ایڈس ایوب خان کی فوجی حکومت میں ’چیف ٹاؤن ڈویلپر‘ (شہری ترقی کے معمار) کے طور پر سامنے آئے، اس لیے نہیں کہ وہ بہت ہی باصلاحیت ’ٹاؤن ڈویلپر‘ تھے بلکہ مغرب کی ’نیو لبرل اکنامسٹس کی ہینڈ بُک‘ کے مطابق چونکہ وہ پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک کے مسائل کے فوری حل پیش کر دیتے تھے۔

’ڈویلپمنٹ‘ ایک ایسی نئی مہم تھی جو نوآبادیات کے بعد متعارف ہوئی۔ جنگ عظیم دوم کے بعد چلائی جانے والی یہ مہم ایک مساوی دنیا کی تعمیر کی ایک کوشش تھی۔

’بزرگ افراد استدلال دیتے ہوئے اگرچہ اکثر اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ بعض بڑے منصوبوں میں سے اکثر کی بنیادیں دراصل قدیم نوآبادیاتی دور میں ہی رکھی گئی تھیں۔ تاہم وہ ان مثالوں کو نوآبادیات سے الگ ہونے کی ابتدا قرار دیتے ہیں، جو اکثر و بیشتر غیر معمولی اور روشن خیال افراد کی مرہون منت تھیں۔ ترقیاتی مہم کا نکتہ آغاز اقوام متحدہ، بریٹن ووڈ معاہدے جیسی بنیادوں پر استوار رہا۔‘

زیادہ تر مغربی ماہرین مغربی نگرانی میں تیسری دنیا کے ممالک میں معاشی ترقی کے حوالے سے ڈوکسی ایڈس کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران اسے مغربی بلاک کے ’پُرتیژی‘ (فرانسیسی زبان کا لفظ مطلب محافظ) کے طور پر دیکھا گیا جسے ایوب خان کی مغرب کی حامی فوجی حکومت نے گلے لگا لیا۔ اسی نظر سے ڈوکسی ایڈس کے ’سٹار‘ یعنی شاہکار منصوبے مطلب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نئے دارالحکومت کی تعمیر کو بھی دیکھا گیا۔

امریکی سماجی علم بشریات کے ماہر ڈاکٹر چاڈ ہینز نے سنہ 2013 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت مقامی اخبارات نے ان سے انٹرویو بھی کیے۔ انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ اسلام آباد اپنے قلب میں (درحقیقت) ایک ’اتھاریٹیرین‘ (آمرانہ) شہر ہے جو فوجی ریاست کی ضرورت کی عکاسی کرتا ہے۔

مقامی اخبار میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر ہینز کا کہنا تھا کہ ’اسلام آباد ایک ایسا شہر ہے جو اپنے دور کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ فوجی آمر ایوب خان کے آمرانہ دور کی پیداوار ہے۔ نوآبادیاتی دور کے بعد ’نقشہ نگاری کے اشتیاقات‘ کے ساتھ تقسیم سے پیدا ہونے والے پاکستان کے حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ تیسری دنیا کی بین الاقوامی حکومت یعنی ورلڈ بنک، عالمی مالیاتی فنڈ کی منصوبہ بندی و ترقی اور شہریت سے متعلق وسط صدی کے جدیدیت پر مبنی خیالات، ڈوکسی ایڈس کے تصور کی یہ ہی بنیاد تھی۔‘

دیگر ماہرین ڈوکسی ایڈس کو سردجنگ کے ایک جنگجو کے طور پر دیکھتے ہیں جو اسلام آباد میں ’کنسلٹنٹ‘ کے طور پر کردار ادا کر رہا تھا جو امریکی فورڈ فاﺅنڈیشن کی طرف سے ثقافتی پروگرامز میں شریک کار تھا تاکہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک میں کمیونزم کے اثرات کا تدارک کر سکے۔

سنہ 2016 میں اسلامی فن تعمیر کے عالمی جریدے میں شائع شدہ کینساس یونیورسٹی میں پاکستان اور امریکی امور کے ماہر فرحان کریم کے ایک تحقیقی مضمون کے مطابق ’ڈی اے (ڈوکسی ایڈس) کی سوچ کو اُس یقین کی پیچیدہ یکجائی سے سمجھنا چاہیے جس میں ایک طرف مارشل لا حکومت کی توقعات تھیں تو دوسری جانب فورڈ فاؤنڈیشن کی سرد جنگ کی ثقافتی سیاست: اسے فن تعمیر کے ایک خود مختار ماہر کا مرکب کہا جا سکتا ہے۔‘