چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں شکست کے بعد پی ڈی ایم کا مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟

    • مصنف, سحر بلوچ
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے گزشتہ روز ہونے والے انتخاب میں حکومتی امیدواروں کی کامیابی کے بعد حزب اختلاف کے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے رہنما اب کیا حکمت عملی اپنانے کا سوچ رہے ہیں؟ اور ان کا مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟

یہ وہ سوالات ہیں جو بارہا پی ڈی ایم کی قیادت سے پوچھے جا رہے ہیں۔

واضح رہے کہ 12 مارچ کو پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے نئے چیئرمین کے انتخاب میں حکومتی امیدوار صادق سنجرانی 48 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے اور وہ لگاتار دوسری مرتبہ اس عہدے پر منتخب ہوئے ہیں۔ دوسری جانب ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ بھی حکومتی امیدوار کے نام ہوا جس پر مرزا محمد آفریدی 98 میں سے 54 ووٹ لے کر منتخب ہوئے۔

سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں صادق سنجرانی کے مدمقابل اپوزیشن کے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کو 42 ووٹ ملے۔ یوسف رضا گیلانی کو ملنے والے سات ووٹ مسترد ہوئے جس پر اپوزیشن اب یہ معاملہ الیکشن ٹریبونل میں لے جانے پر غور کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئیرمین کے انتخاب کے فوراً بعد کی جانے والی پریس کانفرنس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ ’مشترکہ طور پر فیصلہ کر کے یا تو عدالت جائیں گے یا پھر عدم اعتماد کی تحریک چلائیں گے۔ لیکن حتمی فیصلہ پی ڈی ایم کی قیادت کرے گی۔‘

اس بارے میں مسلم لیگ نواز کے رہنما احسن اقبال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں جو ہوا اس سے ہمارے بیانیے کو مزید تقویت ملی ہے۔ حکومت نے تو وہ ثابت کر دیا جو ہم کہتے آ رہے تھے۔‘

حکومتی امیدوار ڈپٹی چیئرمین مرزا آفریدی کے 98 میں سے 54 ووٹ حاصل کرنے اور اپوزیشن اراکین کے بھی چند ووٹ لینے کے معاملے پر مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ’جب چیئرمین ایک پارٹی کا بن جائے تو کچھ اراکین پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ اگر ہمارے چیئرمین یوسف رضا گیلانی بنتے تو آپ دیکھتے کہ ڈپٹی چیئرمین بھی ہمارا آ جاتا۔ یہ زیر اثر آنے کی بات ہوتی ہے۔‘

سینیئر صحافی محمد ضیاء الدین نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن ایک 11 جماعتی اتحاد ہے۔ اپوزیشن کا کردار حکومتِ وقت کو الرٹ رکھنا ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں معیشت ایک بہت اہم مسئلہ ہے جیسا کہ مہنگائی اور بے روزگاری وغیرہ۔

محمد ضیاء الدین کے مطابق اپوزیشن کی طرف سے استعفے دینے والی بات محض دھمکی تھی کیونکہ بہت جلد پھر الیکشن ایک بہت مشکل کام ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ضمنی انتخابات کے ذریعے بھی اپوزیشن حکومت کو دباؤ میں لائی۔ انھوں نے کہا کہ اگر حکومت کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو اپوزیشن کے امیدوار کو ایسے عہدے پر نہیں پہنچایا جا سکتا تھا جو قائم مقام صدر بھی بن جائے۔

ضیاء الدین کے مطابق اہم فیصلے تو فوج ہی کرتی ہے۔ ’انھوں نے یوسف رضا گیلانی کو جیت تو دلوا دی مگر اب انھیں چئیرمین سینیٹ نہیں منتخب کرایا جا سکتا تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ حکومت اسے ایک بڑی فتح کے طور پر دیکھ رہی ہے جبکہ یہ تو ایسی کوئی فتح نہیں ہے جس پر حکومت جشن منائے۔

’یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ کس نے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کے عہدے تک پہنچایا اور پھر ان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد بھی ناکام بنائی۔‘

’اب اپوزیشن الیکشن کی طرف بھی نہیں جائے گی مگر وہ ہڑتال کروا سکتی ہے۔‘

ایک سوال کے جواب ضیاء الدین کا کہنا تھا کہ ماضی میں بے نظیر بھٹو نے لاہور سے مارچ شروع کرنا تھا مگر پھر بعد میں کوئی ایسا دباؤ آیا کہ وہ مارچ نہ ہو سکا۔

’بے نظیر نے خود مجھے بتایا تھا کہ مارچ نہ کرنے کے نتائج آپ جلد دیکھ لیں گے۔‘

ضیاء الدین کہتے ہیں کہ نواز شریف کی حکومت چند روز بعد ختم ہو گئی کیونکہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے نئے انتخابات کا راستہ استوار کیا تھا۔ ضیاء الدین کا کہنا تھا کہ اگر تو اپوزیشن لانگ مارچ کرتی ہے تو یہ بہت بڑی ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ حکومت اس سے ہل کر رہ جائے۔ تاہم ان کے خیال میں آثار یہی ہیں کہ اپوزیشن ایسا نہ کرے۔

’عدالت سے ریلیف کی توقع کرنا خام خیالی ہو گی‘

محمد ضیاء الدین کے مطابق موجودہ صورتحال میں بظاہر اپوزیشن کو اس مقدمے میں عدالت میں بھی کوئی کامیابی نہیں مل سکے گی۔

صحافی اور تجزیہ کار مبشر زیدی نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ تو اپوزیشن کی خام خیالی ہو گی کہ ان کو عدالتوں سے کوئی ریلیف مل سکے گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں وہ ہی ہوا ہے جو سینیٹ انتخابات میں حکومتی امیدوار عبدالحفیظ شیخ کے ساتھ ہوا تھا۔

’اس طرح اپوزیشن کا کیس بھی اتنا ہی کمزور ہے جتنا حکومت کا سینیٹ انتخابات میں جنرل نشست ہارنے کے بعد تھا۔‘

جبکہ مسلم لیگ ن کے احسن اقبال کا خیال ہے کہ ’یہ ووٹ کسی بھی طرح سے مسترد نہیں ہو سکتے تھے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں جن میں عدالت نے کہا ہے کہ ووٹر کی نیت معنی رکھتی ہے۔ نشان نام کے اوپر لگایا جا سکتا ہے۔‘

احسن اقبال کا مزید کہنا تھا کہ ’اس انتخاب کی شفافیت پر سے پردہ اٹھ گیا ہے۔ ہم تو آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں اور اگر ایوانِ بالا کے انتخاب میں اتنی دھاندلی ہو سکتی ہے تو دیگر انتخابات میں کیا ہوتا ہو گا یہ بھی سامنے آ گیا۔ ہماری تحریک اور مضبوط ہو گئی ہے اور اس میں لانگ مارچ کی اہمیت اب اور بھی بڑھ گئی ہے۔‘

یاد رہے کہ پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کے بارے میں ایک اہم اجلاس چار فروری کو ہوا تھا جس میں پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان کے علاوہ مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، محمود خان اچکزئی اور دیگر رہنما شریک ہوئے تھے۔

اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ ’پورے ملک سے 26 مارچ کو اسلام آباد کی جانب روانہ ہوں گے۔‘

تاہم پی ڈی ایم نے استعفوں سے متعلق کسی بھی فیصلے کو سینیٹ کے انتخابات کے بعد تک ملتوی کر دیا تھا۔

واضح رہے کہ سنہ 2018 کے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اپنی جماعت کی خواہشات کے برعکس پاکستان پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کی نشست کے لیے آگے کیا تھا۔

ماضی میں ہونے والی اس پیشرفت کو اب سیاسی مبصرین پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادیوں کے لیے ایک امتحان سمجھ رہے ہیں۔ جبکہ پی ڈی ایم کے گیارہ جماعتی اتحاد میں موجود تین بڑی جماعتوں کے مختلف اہداف دکھائی دیتے ہیں۔

اس بارے میں مبشر زیدی کا کہنا تھا کہ ’عوام کے لیے ان کا ہدف ایک ہو سکتا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے مہنگائی کی اور نئے انتخابات کروا کر انھیں گھر بھیجنا ہو گا۔ دوسری جانب سٹیبلشمنٹ بھی اس طرح پھنس چکی ہے کہ کیا وہ ان لوگوں کو دوبارہ لے کر آئیں گے جن کی وہ پشت پناہی کرتے رہے ہیں؟‘

انھوں نے کہا کہ جہاں تک سٹیبلشمنٹ کو سیاست میں گھسیٹنے کی اور ان کی مداخلت کو روکنے کی بات ہے تو ’اس کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے سے ایک سیاسی قوت تصور کی جاتی ہے۔ لہذا اس وقت پی ڈی ایم کے پاس لانگ مارچ کرنے کا ایک آپشن موجود ہے۔‘

دوسری جانب احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس اس وقت دو بہت ہی واضح راستے ہیں۔ ایک طرف پاکستان کی عدالتوں میں سینیٹ انتخاب میں ہونے والی دھاندلی کا معاملہ لے کر جانا اور دوسرا اس دھاندلی اور خفیہ کیمرے ملنے کے نتیجے میں پی ڈی ایم کے مؤقف کو جو تقویت ملی ہے اس کے ذریعے اپنی مہم کو مزید مضبوط کرنا۔‘