آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
پی ڈی ایم کا لاہور جلسہ: اگر اجتماع کورونا کے پھیلاؤ کا سبب ہو سکتا ہے تو سیاسی کارکنان کیوں جائیں گے؟
- مصنف, عمردراز ننگیانہ
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
احسن عباس رضوی جب گوجرانوالہ کے جلسے میں گئے تو حالات اس قدر خراب نہیں تھے۔ پھر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) مختلف شہروں میں جلسے کرتی رہی اور وہ ساتھ ساتھ رہے۔ انھی دنوں ملک میں کورونا وائرس کی دوسری لہر نے سر اٹھانا شروع کیا۔
گذشتہ ماہ کے آخر میں احسن رضوی کو پاکستان کی حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کے لیے صوبہ پنجاب کے شہر ملتان جانا تھا۔ مگر اب کورونا کی صورتحال یکسر مختلف تھی۔
حکومتی ادارے بتا رہے تھے کہ نہ صرف کورونا کے متاثرین کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا، وائرس کی اس لہر میں زیادہ سختی نظر آ رہی تھی اور اموات بھی زیادہ ہو رہی تھیں۔
مگر کیا یہ خطرہ احسن رضوی جیسے سیاسی کارکن کو ملتان جانے سے روک سکا؟
اسی حوالے سے مزید پڑھیے
لاہور سے تعلق رکھنے والے احسن رضوی پاکستان پیپلز پارٹی کے ان سیاسی کارکنوں میں شامل ہیں جو خود کو 'جیالا' کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں 'جب جیالے پر مشکلات بڑھتی ہیں تو جیالا اور بھی زیادہ دلیر ہو جاتا ہے۔'
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
حکومت نے پی ڈی ایم کو ملتان میں جلسہ کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔ سیاسی کارکنان کی گرفتاریاں ہوئیں، جلسہ گاہ کو بند کیا گیا، مقدمات درج ہوئے، مگر احسن رضوی اور ان کے ساتھی نہیں رکے اور وہ ہزاروں افراد کے اس اجتماع میں شریک ہوئے۔
تاہم گوجرانوالہ کے برعکس اس مرتبہ وہ زیادہ محتاط تھے۔ انھوں نے ماسک پہن رکھا تھا۔ جیب میں سینیٹائزر کی شیشی تھی اور گھر واپس لوٹنے پر وہ تین روز تک قرنطینہ میں رہے تھے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ خطرہ تو ہے۔
'میں کورونا کے حوالے سے روزانہ کے اعداد و شمار دیکھتا رہتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا کی دوسری لہر آ چکی ہے اور یہ جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔'
یہی وجہ ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے وہ اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ میل جول میں بھی احتیاط برت رہے ہیں۔ گھر میں ان کا کمرہ بھی الگ ہے۔
تاہم احسن رضوی کہتے ہیں کہ 'میں تمام جلسوں میں جاتا رہا ہوں لیکن میں نے ہمیشہ احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں، قرنطینہ بھی کیا ہے، مجھے تو چھینک بھی نہیں آئی۔ میری تو اب پھر تیاری ہے۔'
اب وہ اتوار کے روز لاہور میں ہونے والے پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کے لیے پر عزم ہیں۔
حزبِ اختلاف کا اتحاد اس جلسے کو بڑا بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز گزشتہ چند روز سے ریلیوں کی صورت میں لوگوں کو دعوت دینے کی غرض سے شہر کے مختلف علاقوں میں جا چکی ہیں۔
دوسری جانب حکومت نے کورونا کے پھیلاؤ کے خطرے کے پیشِ نظر اجتماعات نہ کرنے کی تلقین کی ہے اور ان پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
سیاسی کارکن احسن رضوی بھی مانتے ہیں کہ اس جلسے سے 'کورونا کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کا خدشہ تو موجود ہے۔'
تو پھر وہ خود کیوں جا رہے ہیں۔ 'اگر مجھے مارکیٹ جانا ہو اور وہ بھی بڑے پیمانے پر کورونا کے پھیلاؤ کا سبب بن رہا ہو اور مجھے جلسے میں جانا ہو جو سپر سپریڈر ہو سکتا ہو تو میں اپنی جماعت سے وفاداری نبھاتے ہوئے شاید مارکیٹ نہ جاؤں لیکن میں جلسوں میں ضرور جاؤں گا۔'
یہ جذبہ رکھنے والے احسن رضوی اکیلے نہیں۔ بی بی سی نے پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے چند سرگرم سیاسی کارکنان سے بات کی۔
وہ تمام تسلیم کرتے ہیں کہ 'اتوار کا جلسہ سپر سپریڈر ہو سکتا ہے' تاہم وہ پھر بھی 'جلسے میں ضرور شریک ہوں گے۔'
'ہم بھی انسان ہیں، ہمارا بھی خاندان ہے'
پیپلز پارٹی لاہور کی سیاسی کارکن شہناز کنول کہتی ہیں کہ ایسا بھی نہیں کہ انھیں کوئی خوف ہی نہیں ہے۔
'ہم بھی انسان ہیں، ہمارا بھی خاندان ہے اور جب خاندان کو کچھ ہو تو زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔' لیکن شہناز بھی جلسے میں شرکت کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
ن لیگ کے سرگرم کارکن ہارون بھٹہ حال ہی میں لاہور میں ہونے والے تمام ریلیوں میں پیش پیش تھے۔
ان ہی کی جماعت کی کارکن زہرہ بخاری بھی اتوار کے روز ہونے والے جلسے میں شرکت کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
تو سوال یہ ہے کہ یہ سیاسی کارکنان جانتے بوجھتے خطرہ مول ہی کیوں لے رہے ہیں؟ ان کے پاس اس کا ایک جواب وہی ہے جو ان کی جماعتوں کا مؤقف ہے۔
ان سب کا کہنا تھا: 'ہم حالیہ حکومت کو ہٹانا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اس کی وجہ سے ملک کے عوام تنگ آ چکے ہیں اور یہ کہ ان کی پالیسیاں ملک کے لیے نقصان دہ ہیں۔'
تاہم سوال یہ ہے کہ کیا وہ ذاتی حیثیت میں وہ کورونا وائرس کا شکار ہونے یا اس کے پھیلاؤ کا سبب بننے سے خوفزدہ نہیں ہیں۔
'میرا ووٹ کہاں گیا؟ اس کی حفاظت کیسے کرنی ہے؟‘
ن لیگ کے کارکن ہارون بھٹہ ہاتھ میں وہ ماسک تھامے ہیں جس پر ان کی جماعت کا نعرہ 'ووٹ کو عزت دو درج ہے۔' وہ کہتے ہیں ان کے لیے جلسے میں شریک ہونا زیادہ اہم ہے۔
'ہم پر ایک ایسی حکومت مسلط کر دی گئی جو حکومت کا حق نہیں رکھتی تھی۔ ہمارا ووٹ چوری ہوا اور ہم اپنے قائد نواز شریف کے ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے پیچھے کھڑے ہیں۔ اس تحریک سے ہم یہ چاہتے ہیں کہ ووٹ کی چوری کا یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔'
پی پی پی کے سیاسی کارکن احسن رضوی بھی ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں۔
'اب لوگ باشعور ہو چکے ہیں۔ انھیں معلوم ہو گیا ہے کہ ان کا ووٹ کہاں گیا، کون لے گیا اور اس کی حفاظت کیسے کرنی ہے۔'
وہ جلسوں میں اس لیے شریک ہوتے ہیں کیونکہ 'اس ملک میں حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہم جس کو ووٹ ڈالیں، ڈبے میں سے اسی کا نکلے۔'
'موجودہ حکومت وائرس سے زیادہ بڑا خطرہ ہے'
ن لیگ کی کارکن زہرہ بخاری کہتی ہیں کہ وہ احتیاط ضرور برتتی ہیں تاہم وہ جلسے میں شرکت سے خوفزدہ نہیں۔
ان کے خیال میں 'موجودہ حکومت کورونا سے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ اس کی وجہ سے کورونا سے زیادہ بڑا خطرہ غربت ہے، مہنگائی ہے اور بے روزگاری ہے۔'
پاکستان پیپلز پارٹی کی شہناز کنول کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں 'موجودہ حکومت کو ہٹایا جانا ضروری ہے کیونکہ عوام سخت پریشان ہیں اور موجودہ حلات کی وجہ سے سخت غصے میں ہیں۔ ہم ان کی آواز بن رہے ہیں۔'
تاہم وہ تسلیم کرتی ہیں کہ اس قدر بڑے اجتماعات میں سماجی فاصلہ برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوتا اور وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات ہو سکتے ہیں۔
'آیت الکرسی پڑھ کر پھونک لیں'
ن لیگ کی کارکن زہرہ بخاری اس سے خوفزدہ نہیں۔ 'میرا تو ایمان ہے آپ آیت الکرسی پڑھ کر خود پر پھونک لیں اور پھر گھر سے نکلیں۔ اس کے بعد دو فرشتے آپ کی حفاظت کرتے ہیں اور آپ کو ہر قسم کی بلا سے اور وائرس سے محفوظ رکھتے ہیں۔'
اس کے بعد وہ سمجھتی ہیں کہ ماسک اور ہینڈ سینیٹائزر کا استعمال کیا جائے تو وائرس کے پھلاؤ کے امکانات کم ہوں گے۔ ن لیگ کے ہارون بھٹہ نے بتایا کہ ان کی جماعت نے اسی امر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پانچ لاکھ ماسک تیار کروا رکھے ہیں۔
'ہم لوگوں کو نہ صرف شرکت کی دعوت دے رہے ہیں بلکہ ان کو آگاہی بھی دے رہے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ہمارے رضاکار جلسہ گاہ کے باہر ماسک لے کر کھڑے ہوں گے جو لوگوں کو دیے جائیں گے۔'
'ہمیں اس وائرس کے ساتھ زندہ رہنا ہے'
پی پی پی کی کارکن شہناز کنول کا استدلال ہے کہ ایسا نہیں کہ کورونا وائرس اب جلد مکمل طور پر ہماری زندگیوں سے چلا جائےگا۔
'یہ ایک تلخ حقیقت ہے مگر ہمیں اب اس وائرس کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔ اب ایک سال گزر چکا ہے اور لوگوں میں اس حوالے سے کافی شعور آ چکا ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ ماسک لگانا ہے اور سماجی فاصلہ رکھنا ہے۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ جلسے سے زیادہ لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔'
ان ہی کی جماعت کے احسن رضوی کی جلسے کے شرکا کے لیے تجویز ہے۔ 'اگر ہر شخص خود سے اس بات کا خیال رکھے کے وہ سپر سپریڈر نہ بنے تو یہ جلسہ سپر سپریڈر نہیں ہو گا۔'
'ہمارے جلسوں میں کورونا، ان کے میں نہیں'
بی بی سی سے بات کرنے والے تمام کارکنان کہتے ہیں کہ اس حکومت اور اس کے عہدیدار خود اجتماعات کا انعقاد کرتے رہے اور ان میں شرکت کرتے ہیں تو پی ڈی ایم کے جلسوں سے انہیں مسئلہ کیوں ہے۔
احسن رضوی سمجھتے ہیں 'کہ یہ محض پی ڈی ایم کو جلسوں سے روکنے کے بہانے ہیں۔'
'اگر حکومت ایس او پیز پر عملدرآمد کروانے کے لیے سنجیدہ ہے تو بہت سے ایسے کام ہو رہے ہیں جن سے کورونا پھیلنے کا خطرہ ہے۔ مارکیٹیں کھلی ہیں، سکولوں میں استادوں کو بلایا جا رہا ہے۔ مذہبی جماعتیں اجتماعات کر رہی ہیں اور دیگر سرگرمیاں جاری ہیں۔'
وہ کہتے کہ معمولاتِ زندگی بھی چلانے ہیں اور چلائے جا رہے ہیں۔ 'جب باقی سب کچھ ہو رہا ہے تو پھر سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کیوں؟'