تنویر احمد رفیق: پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پاکستانی پرچم اتارنے کے جرم میں برطانوی شہری کو دو برس قید

- مصنف, سکندر کرمانی
- عہدہ, بی بی سی نیوز، اسلام آباد
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے ڈھڈیال میں ایک عوامی چوک پر نصب پاکستانی جھنڈا اتارنے پر عدالت نے برطانوی شہری تنویر احمد رفیق کو دو برس قید کی سزا سنا دی ہے۔
48 سالہ سماجی کارکن تنویر رفیق نے کشمیر کی انڈیا اور پاکستان دونوں سے آزادی کا مطالبہ کیا تھا اور پولیس ریکارڈ کے مطابق تنویراحمد کو پاکستانی جھنڈا غیرقانونی طور پر ہٹانے کے الزام میں اگست 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
تنویر احمد رفیق کے وکیل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اپنے موکل کو سنائی جانے والی سزا کی تصدیق کی۔
تنویر احمد کی اہلیہ فریزم راجپوت نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے شوہر کے خلاف سنایا جانے والا فیصلہ 'غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی' ہے۔
برطانیہ کے علاقے لوٹن میں وقت گزارنے والے تنویر احمد 15 برس قبل پاکستان کے زیر انتظام کشمیر منتقل ہو گئے تھے اور وہ اس وقت سے یہاں اس خطے کی انڈیا اور پاکستان دونوں سے آزادی حاصل کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔
اس وقت کشمیر کا خطہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان بٹا ہوا ہے لیکن انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے مقابلے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں وہاں کسی قسم کی کوئی بڑی شورش یا ہنگامہ آرائی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
تاہم یہاں آزادی کے حامی کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی خفیہ اداروں کی جانب سے دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔
برطانوی دفترِ خارجہ کے مطابق وہ تنویر رفیق کے خاندان سے رابطے میں ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ان کی اہلیہ نے نومبر میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے اپنے خاوند کی اس گرفتاری کے خلاف احتجاج کے طور پر کئی بار بھوک ہڑتال بھی کی کیونکہ انھیں نہ ضمانت دی جا رہی تھی اور وہ اب (دوران قید) بہت کمزور ہو گئے تھے۔
فریزم راجپوت کا کہنا تھا کہ انھیں یقین ہے کہ پاکستانی کی ایجنسیاں عدالتوں پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ ان کے خاوند کو قید میں ہی رکھا جائے۔
یہ بھی پڑھیے
اس سے قبل نومبر 2020 میں تنویر احمد کے برطانوی پارلیمان کے رکن ایک دوست کے خط کا جواب دیتے ہوئے برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ انھوں نے (احمد تنویر کے خلاف) 'اس بُرے طرز عمل پر' اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
برطانوی وزیر اعظم نے خط میں یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ اس معاملے پر برطانیہ کے دفتر خارجہ سے بھی بات کریں گے۔
تنویر احمد رفیق کون ہیں؟
تنویر احمد رفیق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پیدا ہوئے تھے اور وہ نوجوانی میں ہی برطانیہ چلے گئے تھے۔
سنہ 2005 میں وہ اپنی دادی کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے کشمیر آ گئے اور پھر فنانس کے شعبے میں انھوں نے اپنی ملازمت بھی چھوڑ دی تاکہ وہ اپنے آبائی علاقے میں مستقل طور پر قیام کر سکیں۔
کشمیر کا خطہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان بٹا ہوا ہے۔
دونوں ممالک اس خطے کو حاصل کرنے کے لیے کئی جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔ دونوں ممالک کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کا اس پورے خطے پر حق ہے۔

تنویر احمد متحدہ کشمیر سے متعلق اس تحریک کا حصہ ہیں جو کشمیر کی مکمل آزادی کا مطالبہ کرتی ہے۔
ان کی اہلیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خاوند پہلی بار اس وقت اس مطالبے کے حامی ہوئے جب ان کے اپنے خاندان کے لوگوں سے ملاقات کرنے کے لیے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے بعد تنویر احمد رفیق کی یہ سوچ بن گئی کہ کشمیر کو ایک ریاست ہی ہونا چاہیے اور اسے تقسیم نہیں ہونا چاہیے۔
تنویر احمد کے پراُمن سرگرمیوں نے حکام کو چوکنا کر دیا۔
ان کی اہلیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ برطانوی ہائی کمیشن کے رابطے سے قبل ان کے خاوند کو پاکستانی فوج نے تین دن کے لیے ماورائے عدالت قید میں رکھا۔
تنویر احمد رفیق کی چھوٹی بہن عاصمہ رفیق جو لندن میں رہتی ہیں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے بھائی کو ایجنسیوں کے اہلکاروں نے بتایا تھا کہ اگر اس نے اپنی سرگرمیوں کو نہیں روکا تو پھر 'ان کی کوئی آواز نہیں سن سکے اور نہ کوئی انھیں دیکھ سکے گا۔‘
بی بی سی کی طرف سے رابطہ کرنے پر پاکستان کے فوج نے اس معاملے پر کوئی جواب نہیں دیا۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کئی برس سے انڈیا کے تسلط کے خلاف پر تشدد تحریکیں بھی چل رہی ہیں اور یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ انڈیا کی سیکورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کی ہے۔ دونوں ممالک میں یہ تنازع 1947 سے چلا آ رہا ہے۔
اس مسئلے نے ایک بار پھر تب زور پکڑا جب حال ہی میں انڈیا نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کر دی۔
واضح رہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اس لیول کی بے چینی دیکھنے میں نہیں آئی اور پاکستان نے بار بار کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بات کی ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان بار بار اپنے آپ کو دنیا میں کشمیر کا سفیر قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں رائے شماری سے اس مسئلے کو حل کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں قومی سطح کے سیاسی رہنما اور عام افراد پاکستان کی ریاست کے حامی ہیں، جس وجہ سے انڈیا، پاکستان پر عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کا الزام بھی عائد کرتا ہے۔
تاہم پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پاکستان سے الحاق کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو جان بوجھ کر دبا دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے آئین میں ایسی کسی بھی سرگرمی کی ممانعت کی گئی ہے، جو ریاست سے پاکستان کے الحاق کے نظریے سے معتصبانہ اور اس نظریے کے لیے نقصان دہ ہو۔
تنویر احمد رفیق کی اہلیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خاوند کی حراست پاکستان کے اپنے مؤقف میں منفاقت کو ظاہر کرتی ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم کے پریس سیکریٹری راجہ وسیم کا اصرار ہے کہ آزادی کے حامی سرگرمیوں کی روک تھام کے قوانین کا اطلاق کبھی کبھار ہی ہوتا ہے۔
آن لائن ایک بلاگ اور ویڈیو شائع کرنے سے قبل تنویر احمد نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کئی سال تک ایک سروے کیا، جس میں دس ہزار سے زائد لوگوں کی رائے حاصل کی گئی۔ اس سروے کے مطابق 73 فیصد عوام نے اپنے آپ کو بنیادی طور پر پاکستان کے بجائے کشمیری کے طور پر متعارف کرایا۔
عالمی امور پر کام کرنے والے ایک تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس کی 2010 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 44 فیصد لوگ آزادی کے حامی ہیں جبکہ 50 فیصد عوام پاکستان سے الحاق چاہتی ہے۔
تنویر احمد رفیق کا سروے 2017 میں ایک مقامی اخبار میں شائع ہوئی مگر اس معاملے کی نزاکت کے اعتبار سے حکام نے اس اخبار کو ہی بند کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔

واقعہ کیا ہوا؟
رواں برس اگست میں پاکستان کے زیر انتطام کشمیر کے شہر ڈھڈیال کے مرکز میں پاکستانی جھنڈا لگانے والی جگہ پر تنویر احمد نے احتجاجاً بھوک ہڑتال شروع کر دی۔
اس خطے کا ایک اپنا جھنڈا اور پارلیمنٹ ہے جو اس کی آزادی کی علامت ہے۔
جیل سے تنویر احمد نے ایک پیغام بھیجا جسے بی بی سی نے بھی دیکھا ہے۔ اس پیغام میں تنویر احمد نے کہا کہ 'بطور شہری میں پرامن احتجاج کو اپنا فرض سمجھتا ہوں' اور میں نے اس وقت جھنڈا اتار دیا تھا جب حکام نے ایسا نہیں کیا۔
ایک اور سماجی کارکن نے تنویر احمد کی ویڈیو بنائی جب وہ اس سکوائر پر اس گیٹ کو پھلانگ رہے ہوتے ہیں جسے مقامی لوگوں نے کشمیری علیحدگی پسند رہنما کے نام سے منسوب کر رکھا ہے جسے انڈیا نے 1984 میں پھانسی دے دی تھی۔
پولیس سے پکڑے جانے سے قبل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تنویر احمد پاکستانی جھنڈے کو ہٹا رہے ہیں۔
یہ ویڈیو سوشل میڈیا سے لیکرانڈین میڈیا نے بھی چلانا شروع کر دی اور اس کوریج کو بھی تنویر احمد کے خلاف درج مقدمے کی ایک وجہ لکھا گیا۔ انڈین میڈیا کی یہ کوریج ممکنہ طور پر پاکستانی حکام کو بھی غصہ دلا سکتی ہے۔
تنویر احمد کی اہلیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خاوند کشمیر میں دونوں ممالک، پاکستان اور انڈیا، کی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔
جیل سے اپنے پیغام میں تنویر احمد نے کہا کہ دوران حراست انھیں 'مکے مارے گئے' اور ان کی ڈنڈوں سے پٹائی کی گئی اور پھر اس کے بعد تفتیش کی گئی۔
ان کی اہلیہ نے الزام عائد کیا کہ اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمشن کی مداخلت سے قبل ان کے خاوند کو قید تنہائی میں رکھا جا رہا تھا اور ایک ایسے سیل میں رکھا گیا جو عام طور قتل کے جرائم میں قید ملزموں کے لیے مختص ہوتا ہے۔
ان کے مطابق بھوک ہڑتال کے بعد ان کے خاوند کی زندگی خطرے میں ہے۔
برطانیہ میں تنویر احمد رفیق کا خاندان برطانوی وزارت خارجہ سے ان کی جلد رہائی سے متعلق مطالبہ کر رہا ہے۔
ان کی بہن عاصمہ رفیق نے بی بی سی کو بتایا کہ اگرچہ برطانوی ہائی کمیشن ان سے رابطے میں ہے مگر وہ اس طرح کی مدد سے مایوس ہیں جس میں بہت سست پیش رفت ہو رہی ہے۔
تنویر احمد کے مطابق مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان کی تمام چیخ و پکار کو سننے والا کوئی نہیں ہے۔
اپنے ایک بیان میں برطانوی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ وہ ایک پاکستانی نژاد دہری شہریت والے شخص کی مدد کر رہے ہیں اور وزارت کا عملہ ان کے خاندان، وکیل اور پاکستانی حکام سے باقاعدگی سے رابطے میں ہے۔
فریزم تنویر احمد کی اہلیہ کے مطابق یہ معاملہ ان کے خاندان کے لیے بہت پریشانی کا باعث بن چکا ہے۔ ’مجھے ایسے لگتا ہے کہ ہمارے تحفظات پر کوئی کان نہیں دھر رہا ہے۔‘











