آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
گوادر اور شمالی وزیرستان میں حملے: شدت پسندوں کے حملوں میں 14 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 21 ہلاک
صوبہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں میں 15 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 21 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک میں شدت پسندوں نے سکیورٹی فورسز کے ایک قافلے پر دیسی ساختہ ریموٹ کنڑول ڈیوائس (آئی ای ڈی) سے حملہ کیا۔
اس حملے میں فوج کے ایک کیپٹن عمر فاروق سمیت دو نائب صوبیدار، ایک حوالدار، ایک نائیک اور ایک لانس نائیک ہلاک ہوئے ہیں۔
دوسرا حملہ صوبہ بلوچستان کے ضلع گوادر کی تحصیل اورماڑہ میں آئل اینڈ گیس ڈیولیپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) کے قافلے پر ہوا جس میں ایف سی کے آٹھ سکیورٹی اہلکاروں اور سات سویلین محافظ ہلاک ہوئے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے بلوچستان حملے میں ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’دہشت گردی کا یہ واقعہ دشمن عناصر کی بزدلانہ کارروائی ہے۔ شرپسند عناصر کو ان کے عزائم میں ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘
بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) نے اورماڑہ میں حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
شمالی وزیرستان حملہ
نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ شمالی وزیرستان کے علاقے گڑیوم کے سرحدی علاقے زیڑ نرائی میں دو دھماکوں کی آوازیں سنی گئی تھیں جس کے بعد معلوم ہوا کہ اس حملے کی آوازیں تھیں جو سکیورٹی فورسز پر کیا گیا۔
اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔ طالبان کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ حملہ ریموٹ کنٹرول ڈیوائس سے کیا گیا ہے۔
جس علاقے میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا وہ شمالی اور جنوبی ویرستان کا سرحدی علاقہ ہے جس کے ایک طرف شمالی وزیرستان کی تحصیل گڑیوم ہے جبکہ دوسری جانب جنوبی وزیرستان کے تحصیل شکتوئی ہے۔ دونوں علاقوں کے درمیان سرحد کے طور پر ایک ندی بہتی ہے جسے مقامی زبان میں الگڈ کہا جاتا ہے۔
شکتوئی کے علاقے میں 15 سے 20 چھوٹے چھوٹے دیہات ہیں جہاں محسود قبیلہ آباد ہے۔ اسی طرح دوسری جانب شمالی وزیرستان کے تحصیل گڑیوم میں وزیر قبائل آباد ہیں۔
بلوچستان کے ضلع گوادر میں ہونے والا حملہ
صوبہ بلوچستان کے ضلع گوادر کی تحصیل اورماڑہ میں کوسٹل ہائے وے پر او جی ڈی سی ایل کے قافلے پر ہونے والے دوسرے حملے میں کل 15 افراد ہلاک ہوئے۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاءاللہ لانگو نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ واقعہ ضلع گوادر کی تحصیل اورماڑہ کے علاقے سرپٹ میں ہوا جو کہ بزی ٹاپ سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ کے مطابق مرنے والوں میں ایف سی کے آٹھ اہلکار جبکہ نجی سکیورٹی کمپنی سے منسلک سات ملازمین شامل ہیں۔
وزیر داخلہ نے بتایا کہ اوجی ڈی سی ایل کا قافلہ گوادر سے کراچی جارہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قافلے کی حفاظت پر نہ صرف اوجی ڈی سی ایل کی اپنی سیکورٹی مامور تھی بلکہ فرنٹیئر کور کی جانب سے بھی اس کو سیکورٹی فراہم کی جارہی تھی ۔
وزیر اعظم عمران خان کے آفس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے اس واقعے کی رپورٹ طلب کی گئی ہے۔
گوادر انتظامیہ کے ایک اہلکار نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس حملے میں قافلے کی حفاظت پر مامور فرنٹیئر کور کی دو گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچا۔ ان کے مطابق نامعلوم مسلح افراد نے ان گاڑیوں پر بڑے اور چھوٹے ہتھیاروں سے حملہ کیا۔
وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کا اپنے ایک پیغام میں کہنا ہے کہ حملے میں ملوث افراد کے خلاف فوری کارروائی کی جائے گی اور انھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ انھوں نے ہلاک ہونے والے سکیورٹی اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ٹوئٹر پر جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ کوسٹل ہائی وے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی جانوں کا ضیاع ’اس بات کی علامت ہے کہ دشمن بلوچستان اور اس کے عوام کو ترقی کرتے نہیں دیکھ سکتا‘۔
حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والا اتحاد ’براس‘ کیا ہے
بلوچ راجی آجوئی سنگر بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان ریپبلکن گارڈز پر مشتمل مسلح اتحاد ہے، جس کا قیام 2018 میں عمل میں آیا تھا۔
اس حوالے سے 10 نومبر کو ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا تھا۔ اس اتحاد کی کارروائیوں کا مرکز زیادہ تر چین پاکستان اقتصادی راہدری کے آس پاس کے علاقے ہیں۔
براس کے ترجمان کے مطابق 'بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچ لبریشن آرمی نے 30 اکتوبر 2017 کو اتحاد و اشتراک عمل کا اعلان کیا تھا جس کے بعد متعدد مشترکہ کارروائیاں کی گئیں اور دونوں تنظیموں کے اتحاد اور ’عملی کارروائیوں سے تحریک پا کر‘ بلوچ ریپبلکن گارڈز (بی آر جی) کی قیادت بھی 20 اپریل 2018 کو بی ایل اے اور بی ایل ایف کے اتحاد میں شامل ہو گئی۔
براس کی جانب سے اب تک 14 دسمبر 2018 کو تمپ میں فورسز کے قافلے پر حملے اور مقابلے کے علاوہ رواں سال 17 فروری کو تربت اور پنجگور کے درمیان فورسز پر حملے کے دعوے سامنے آ چکے ہیں۔
عسکریت پسند تنظیموں کے اتحاد نے جمعرات کی کارروائی سے قبل اس مقام پر گزشتہ سال یعنی 2019 میں 18 اپریل کو بحریہ سمیت دیگر فورسز کے 14 اہلکاروں کو بسوں سے اتار کر ہلاک کیا تھا۔
اورماڑہ کہاں واقع ہے؟
اورماڑہ بلوچستان کے ضلع گوادر کی کراچی کے قریب واقع ایک تحصیل ہے۔ اورماڑہ میں اپریل 2019 میں بھی سکیورٹی فورسز پر حملے میں 14 اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
اپریل 2019 میں ہلاک ہونے والے اہلکاروں کا تعلق کوسٹ گارڈ اور نیوی سے تھا۔ جبکہ مئی 2019 میں گوادر میں پرل کانٹینینٹل ہوٹل پر بھی مسلح افراد نے حملہ کیا تھا جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذزہ داری بھی بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) نے قبول کی تھی۔
گوادر انتظامی طور پر مکران ڈویژن کا حصہ ہے۔
گوادر کی طرح مکران ڈویژن کے دو دیگر اضلاع کیچ اور پنجگور بھی شورش سے متاثر ہیں۔
اگرچہ مکران ڈویژن میں حملے ہوتے رہتے ہیں تاہم سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ پہلے کے مقابلے میں ان علاقوں میں امن وامان کی صورتحال میں بہت زیادہ بہتری آئی ہے۔
بلوچستان: سنہ 2020 میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے بڑے حملے
اس سے قبل آٹھ مئی کو صوبہ بلوچستان میں ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے ایک بڑے حملے میں پاکستانی فوج کے ایک میجر سمیت چھ اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
اس حملے کے بعد پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان ایران سرحدی علاقے کے قریب بلوچستان کے ضلع کیچ میں شدت پسندوں کی ممکنہ نقل و حمل کی نگرانی کے لیے معمول کے گشت سے واپسی پر سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر ریموٹ کنٹرول دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) سے حملہ کیا گیا۔
کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
جبکہ اس کے چند روز بعد 19 مئی کو صوبے کے دو مختلف علاقوں، کچھی اور کیچ، میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں میں کم از کم سات فوجی اہلکار ہلاک جبکہ چار زخمی ہوئے تھے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق کچھی میں مچھ کے علاقے پیرغیب میں فرنٹیئر کور کی ایک گاڑی کو معمول کی گشت کے بعد کیمپ واپس جاتے ہوئے بم حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا جس میں چھ اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک نائب صوبیدار بھی شامل تھا۔
اس حملے کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ نے قبول کی تھی۔
14 جولائی کو بلوچستان کے ضلع پنجگور میں نامعلوم مسلح افراد کی جانب سے ایک اور حملہ کیا گیا جس میں سکیورٹی فورسز کے تین اہلکار ہلاک جبکہ ایک افسر سمیت آٹھ اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
پاکستان فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق یہ حملہ ضلع پنجگور کے علاقے گیچک میں اس وقت کیا گیا تھا جب اہلکار اس علاقے میں معمول کی گشت پر تھے۔