نواز شریف کا شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد پارٹی سے خطاب، وزیراعظم عمران خان اور احتساب کے عمل پر تنقید

پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے اسٹیبلشمینٹ پر تنقید کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ حکومت کو لانے والے اب پچھتا رہے ہیں۔ نواز شریف نے اپنے بھائی شہباز شریف کی گرفتاری کے تناظر میں حکومت اور احتساب کے عمل کو ایک مرتبہ پھر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

نواز شریف پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کر رہے تھے۔

یاد رہے کہ نواز شریف کے اس خطاب سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے بدھ کو ہی العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں انھیں اشتہاری قرار دینے سے متعلق کارروائی کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

عدالت نے اس کیس میں آئندہ سماعت پر برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکار راؤ عبدالمنان کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرنے کا حکم دیا ہے۔

پارٹی کے اجلاس سے خطاب میں نواز شریف نے ملکی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’جسے لائے ہیں اس کا ذہن خالی ہے، پچھتا تو رہے ہوں گے، آپ لائے، آپ کو ہی جواب دینا ہوگا۔ یہ بندہ (عمران خان) تو قصوروار ہے ہی لیکن لانے والے اصل قصور وار ہیں، اس کا جواب بھی انھیں ہی دینا ہو گا۔‘

یہ بھی پڑھیے

اپنے بھائی شہباز شریف کی گرفتاری پر انھوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ 'گرفتار تو عاصم سلیم باجوہ کو ہونا چاہیے تھا لیکن گرفتار شہباز شریف کو کر لیا گیا۔ عاصم سلیم باجوہ نے اربوں روپے کیسے بنا لیے؟ اس کا حساب کسی نے نہیں پوچھا؟'

پاکستان میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف منی لانڈرنگ ریفرنس میں گرفتاری کے بعد 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ہیں۔

نواز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ’عاصم سلیم باجوہ کو کلین چٹ دے دی گئی، جس طرح ثاقب نثار نے بنی گالہ کو دے دی تھی۔‘

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے سنہ 2018 میں وزیر اعظم عمران خان کی اسلام آباد کے مضافات میں بنی گالہ کے مقام پر نجی رہائش گاہ کو جرمانہ یا فیس ادا کرکے باضابطہ بنانے کا حکم دیا تھا لیکن باقی کئی علاقوں میں غیرقانونی تعمیرات کو فوراً گرانے کا حکم جاری کیا تھگ۔

دوسری جانب امریکہ میں مقیم پاکستانی صحافی احمد نورانی نے حال ہی میں اپنی ایک خبر میں باجوہ خاندان کے مالی مفادات کے بارے میں الزامات عائد کیے تھے۔ لیفٹیننٹ جرنل ریٹائرڈ عاصم باجوہ وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ہونے کے ساتھ ساتھ پاک چین اقتصادی راہداری کے سربراہ بھی ہیں اور انھوں نے ان تمام الزامات کی سختی سے تردید کی تھی اور تفصیلی پریس ریلیز میں خود پر لگائے گئے الزامات کا تفصیلی جواب دیا تھا۔

’عدالتوں پر دباؤ ڈال کر مرضی کے فیصلے لیے جاتے ہیں‘

ملک میں عدلیہ کے نظام پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’عدالتوں پر دباؤ ڈال کر مرضی کے فیصلے لیے جاتے ہیں؟ کیا ہم ایسے ہی یہ سب چلنے دیں؟ اس سے بڑی اور کیا بدقسمتی ہو گی کہ عدالتوں سے مرضی کے فیصلے لیے جائیں۔‘

حکومت کی جانب سے پارٹی قائدین پر بنائے جانے والے مقدمات پر بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ’ہمارے بچوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے، تاریخ میں ایسا سیاہ رویہ کبھی روا نہیں رکھا گیا۔ شہباز شریف نے بے مثال جرات وبہادری اور استقلال کا مظاہرہ کیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے ’ہمارے بیانیے کو تقویت دینے میں کردار ادا کیا۔ اپنے بھائی پر بہت فخر ہے جس نے وفاداری اور نظریاتی وابستگی کی مثال قائم کی۔‘

انھوں نے ملک میں سیاسی حالات پر بات کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر الیکشن میں مبینہ دھاندلی کی شکایت بھی کی۔

فوج کے ملکی سیاست میں کردار پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرتی تو مولانا عبدالغفور حیدری کے بیان کا کیا مطلب ہے؟ کیا مولانا عبدالغفور حیدری کے بیان کی کوئی تردید ہوئی؟ اس بیان کا کیا مطلب ہے؟‘

’جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بار کے اجلاس میں کیا کہا؟ کیا اس پر کوئی کارروائی ہوئی؟‘

ان کا کہنا تھا کہ سابقہ ڈی جی آئی ایس آئی ظہیرالاسلام نے جو کیا سب کو معلوم ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ظہیرالاسلام نے کہا کہ نواز شریف استعفیٰ دیں، یہ دھرنوں کے دوران کی بات ہے۔ آدھی رات کو مجھے پیغام ملا کہ اگر استعفی نہ دیا تو مارشل لا بھی لگ سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ استعفی نہیں دوں گا جو کرنا ہے کر لو۔‘

’لوگوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس پارلیمنٹ کو کوئی اور چلا رہا ہے‘

ملک میں جمہوریت پر بات کرتے ہوئے انھوں نے پارٹی اراکین سے سوال کیا کہ ’جس پارلیمنٹ کے آپ رکن ہیں وہ کتنی خود مختار ہے، مجھے لوگوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس پارلیمنٹ کو کوئی اور چلا رہا ہے، دوسرے لوگ پارلیمنٹ میں آ کر بتاتے ہیں کہ آج ایجنڈا کیا ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بڑی سوچنے والی بات ہے، یہ تو پارلیمنٹ پر سمجھوتا کیا ہوا ہے، ظلم، زیادتیوں کے خلاف کھڑے ہونے کا قوم نے فیصلہ کر لیا تو تبدیلی برسوں میں نہیں چند مہینوں اور ہفتوں میں آئے گی۔‘

نواز شریف کا کہنا تھا کہ آج سے وہ روزانہ کی بنیاد پر پارٹی کو دستیاب ہوں گے اور پارٹی جو فرض سونپے گی وہ ادا کریں گے۔

مسلم لیگ ن لیگ کے سی ای سی اجلاس کا مقصد حکومت کے خلاف مہنگائی اور بے روزگاری سمیت دیگر عوامی مسائل پر احتجاج کا لائحہ عمل تشکیل دینا تھا۔ اس حوالے سے نواز شریف نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے دور حکومت سے متعلق مختلف دعوے کیے۔

ملک کا گروتھ ریٹ آج منفی ہو چکا

نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں شروع کیے جانے والے ترقیاتی منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 'سکھر حیدرآباد موٹر وے کا ایک حصہ رہ گیا ہے، اگر دورانیہ مکمل ہونے دیا جاتا تو صورتحال آج کہیں مزید بہتر ہوتی۔'

ان کا کہنا تھا کہ ’چار سال کی مدت میں رکاوٹوں کے باوجود بھی ہم نے بھرپور کامیابیاں حاصل کیں۔ دھرنوں کے باوجود ہم نے ترقیاتی کاموں کو مکمل کیا۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت 5.8 فیصد پر گروتھ ریٹ چھوڑ کر گئے تھے جو آج منفی ہو چکا ہے۔

مہنگائی سے عوام کی زندگی اجیرن ہو گئی

ملک میں مہنگائی اور عوام کی معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کے عوام ہمارے دور میں سکھ کی زندگی گزار رہے تھے، سستی اشیاء لوگوں کو دستیاب تھیں، مہنگائی کا مسئلہ حل ہوگیا تھا، لیکن آج عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے، بجلی، گیس کے بل ان پر بم بن کر گر رہے ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں 22 کروڑ عوام کے لیے جدوجہد کرنا ہے کیونکہ عوام کی مشکلات اور دکھوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے‘۔

’عوام بجلی اور گیس کا بل دینے کے قابل نہیں رہے، دو وقت کی روٹی امتحان بن گئی ہے۔ لوگوں کی سفید پوشی کا جنازہ نکال دیا گیا ہے، بچوں کی سکول کی فیس ادا کرنے کے قابل نہیں، دوائیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ جان بچانے والی ادویات بھی عوام کی رسائی سے باہر ہوچکی ہیں‘۔

سابق وزیر اعظم کو اشتہاری قرار دینے کا عمل شروع کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے سے متعلق کارروائی کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

عدالت نے اس کیس میں آئندہ سماعت پر برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکار راؤ عبدالمنان کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرنے کا حکم دیا ہے۔

راؤ عبدالمنان عدالتی احکامات کی تعمیل کروانے کے لیے لندن میں واقع ایون فیلڈ اپارٹمنٹس گئے تھے جہاں سابق وزیر اعظم نواز شریف رہائش پذیر ہیں۔ اہلکار کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد سابق وزیر اعظم کو اشتہاری قرار دینے کا مرحلہ شروع ہو جائے گا۔

بدھ کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں ان کی ضمانت کی منسوخی سے متعلق دائر کی گئی درخواست کو بھی سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے۔

ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی ضمانت کی منسوخی کی درخواست قومی احتساب بیورو کی طرف سے دائر کی گئی ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ’مجرم کا بیرون ملک چلے جانا پورے نظام کی تضحیک ہے۔‘

جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے بدھ کے روز العزیزیہ سٹیل ملز اور ایون فیلڈ ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر سے استفسار کیا کہ عدالت نے مجرم کے جو ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے ان کی تعمیل میں کیا پیش رفت ہوئی، جس پر ایڈشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کا ایک اہلکار ایون فیلڈ اپارٹمنٹس جہاں پر سابق وزیر اعظم رہائش پذیر ہیں، عدالتی احکامات کی تعمیل کروانے کے لیے گیا لیکن وہاں پر موجود ایک شخص نے عدالتی وارنٹ وصول کرنے سے انکار کر دیا۔

مزید پڑھیے

اُنھوں نے کہا کہ اس سے قبل میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز کے سیکریٹری نے پاکستانی ہائی کمیشن میں فون کیا تھا اور کہا تھا کہ سابق وزیر اعظم عدالتی وارنٹ وصول کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن پھر ایسا نہیں ہوا۔

بینچ کے سربراہ جسٹس عامر فاروق نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ان عدالتی احکامات کی تعمیل کے لیے دولت مشترکہ یا کاؤنٹی کورٹ سے تعمیل کروانے کے بارے میں کیا پیش رفت ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے حکام نے کامن ویلتھ کے دفتر میں فون کر کے اس بارے میں پوچھا تھا تو اُنھوں نے جواب دیا کہ عدالتی احکامات کی تعمیل کروانا ان کی ذمہ داری نہیں ہے، جس پر بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔

بینچ میں موجود جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے مجرم کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا سابق وزیر اعظم جان بوجھ کر عدالتی احکامات کی تعمیل نہیں کر رہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اس ساری مشق کا مقصد ہے کہ کل کو مجرم واپس آئے تو یہ نہ کہے کہ اسے معلوم نہ تھا۔

عدالت نے نیب کے پراسکیوٹر جہانزیب بھروانہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کہ وہ اس مقدمے میں مرکزی سٹیک ہولڈر ہیں، جبکہ نواز شریف کے وکیل بیان دے چکے کہ انھیں وارنٹ گرفتاری کا علم ہے۔ اس پر نیب کے پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اگر عدالت مطمئن ہے تو نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کرنی چاہیے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہمیں شواہد کے ساتھ خود کو مطمئن کرنا ہے کہ عدالت نے وارنٹس کی تعمیل کے لیے اپنی پوری کوشش کی۔

نیب کے پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ مجرم خود کو جان بوجھ کر چھپا رہا ہے جس پر بینچ کے سربراہ نے حیرانی سے پوچھا کہ کیا مجرم خود کو چھپا رہا ہے؟ اُنھوں نے کہا کہ مجرم پوری قوم سے خطاب کر رہا ہوتا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ملزم کو پتہ ہے کہ وہ سارے سسٹم کو شکست دے کر گیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ملزم وہاں بیٹھ کر پاکستان کے سسٹم پر ہنس رہا ہو گا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف کا بیرون ملک جانا پورے نظام کی تضحیک ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ آئندہ وفاقی حکومت کو بھی خیال رکھنا چاہیے کہ کیسے کسی کو باہر جانے دینا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ جتنی کوشش ایک مجرم کو وارنٹ پہنچانے میں لگ رہی ہے، اس میں کئی سائلین کو ریلیف دیا جاسکتا ہے۔ بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ایک کیس کی وجہ سے باقی کیس التواء کا شکار ہیں۔ ان اپیلوں کی سماعت سات اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔

گذشتہ روز ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو وطن واپس لانے کا اعلان تو کیا ہے تاہم حکومت میں ہی شامل اہم شخصیات کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم کو وطن واپس لانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔

ان شخصیات کا کہنا ہے کہ برطانیہ نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو واپس کرنے سے انکار کر دیا تھا، میاں نواز شریف تو پھر بھی سابق وزیر اعظم ہیں۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرموں کے تبادلوں کا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔