ریکوڈک: چھ ارب ڈالر جرمانے کی ادائیگی پر حکم امتناع، پاکستان کے لیے کتنا بڑا ریلیف ہے؟

بلوچستان
    • مصنف, منزہ انوار، اعظم خان
    • عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد

صوبہ بلوچستان میں سونے اور تانبے کے اربوں ڈالر مالیت کے ریکوڈک پراجیکٹ میں ورلڈ بینک کے ثالثی ٹریبونل کی جانب سے عائد کردہ چھ ارب ڈالر کے جرمانے کے فیصلے کے خلاف پاکستان نے حکم امتناعی حاصل کر لیا ہے اور اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید کے مطابق اس اقدام سے جرمانے کی ادائیگی کے سلسلے میں ملک کو مئی 2021 تک کا ریلیف حاصل ہو گیا ہے۔

گذشتہ سال جولائی میں بین الاقوامی ثالثی ٹریبیونل نے پاکستان کی جانب سے آسٹریلیا اور چلی کی ایک مشترکہ کان کنی کی کمپنی کی مائننگ لیز منسوخ کرنے پر پاکستان پر چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔

پاکستان کو کہا گیا تھا کہ وہ مائننگ کمپنی کو چار ارب ڈالر ہرجانے کی ادائیگی کے علاوہ 1.7 ارب ڈالر کی اضافی رقم بھی ادا کرے۔

تاہم اب پاکستان نے اس فیصلے کے خلاف ثالثی ٹریبیونل سے مستقل حکم امتناع حاصل کر لیا ہے جسے چند حلقے ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا ہے کہ اس فیصلے کے بعد اب پاکستان ایک نئی قانونی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھے گا۔

یہ نئی حکمت عملی کیا ہو گی اور پاکستان کے لیے یہ سٹے آرڈر کتنا مفید ہے یہ جاننے کے لیے بی بی سی نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کے علاوہ اس مقدمے سے جڑے قانونی ماہرین سے بات کی۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی عالمی فورم پھر گذشتہ دس سال سے ریکوڈک مقدمے کی پیروی کرتا آ رہا ہے۔

اس دوران پاکستان نے متعدد بار اپنی قانونی حکمت عملی اور وکلا کی ٹیمیں بدلیں لیکن نتیجہ پھر بھی پاکستان کے خلاف نکلا۔ تاہم اب مئی 2021 تک حاصل ہونے والے حکم امتناع کے بعد ایک بار پھر پاکستان نے نئی حکمت عملی پر کام شروع کر دیا ہے۔

چاغی

یہ کتنا بڑا ریلیف ہے؟

پاکستان کے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ ایک بہت اہم ریلیف ہے کیونکہ اس وقت پاکستان مالی طور پر چھ ارب ڈالر کا جرمانے ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس فیصلے کے بعد اب پاکستان کو مئی 2021 تک کا وقت مل چکا ہے۔‘

ان کے مطابق ’اب ہمارے پاس بہت سارے آپشن ہیں۔ ہم کوشش کریں گے اس عرصے میں ہم اس معاملے کا کوئی بہتر حل نکال سکیں۔‘

اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ ہماری پہلی کوشش ہو گی کہ اس مقدمے میں پاکستان کے خلاف جو فیصلہ آیا ہے اسے ختم کرایا جا سکے، جس کے اب آثار پیدا ہو گئے ہیں۔

ماضی میں اس مقدمے کی پیروی کرنے والے ایک وکیل نے بی بی سی کو بتایا کہ سٹے آرڈر سے اب پاکستان بہتر طور پر اس مقدمے کے دیگر فریقوں سے بات چیت سے حل نکال سکتا ہے۔ ان کے خیال میں اب صرف اٹارنی جنرل آفس کو بہتر حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔

ایڈووکیٹ فیصل صدیقی اس مقدمے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، اُن کے مطابق یہ ایک عارضی ریلیف ہے بالکل اسی طرح جس طرح مقامی عدالتوں سے مختلف کیسز میں عارضی ریلیف حاصل کیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر قانونی پوزیشن دیکھی جائے تو ’پاکستان یہ مقدمہ ہار چکا ہے اور اب ’ایوارڈ ریونیو‘ کرانا ہے، جس کے نظرثانی کے مرحلے میں امکانات بہت کم ہیں کیونکہ اصل مصیبت یہ ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ ابھی اپنی جگہ موجود ہے۔

ریکوڈک

،تصویر کا ذریعہRadio Pakistan

فیصل صدیقی کے اس پوائنٹ پر ردعمل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’یہ درست ہے کہ ابتدائی فیصلہ ہمارے خلاف آیا، لیکن اس کے بعد ثالثی سے متعلق کچھ ایسی پیش رفت ہوئی ہے جو پاکستان کے لیے خوش آئند ہے۔‘

اُن کے مطابق اب پاکستان کے پاس اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کا آپشن بھی موجود ہو گا۔

یاد رہے کہ ثالثی ٹریبیونل کے مطابق پاکستان نے بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ریکو ڈیک کان میں تانبے اور سونے کے ذخائر کے لیے کان کنی کی کمپنی ٹی سی سی کو غیر قانونی طور پر لیز کی تردید کی تھی۔ ٹریبونل کا کہنا تھا پاکستان نے آسٹریلیا، پاکستان دوطرفہ سرمایہ کاری معاہدے کے تحت غیر قانونی قبضہ کرنے کا ارتکاب کیا ہے۔

بعد میں ٹی سی سی نے پاکستان پر عائد جرمانے کے نفاذ کے لیے پانچ مختلف ممالک کی عدالتوں سے رجوع کیا۔

گذشتہ نومبر میں پاکستان نے کئی بنیادوں پر اس جرمانے کو منسوخ کرانے کے لیے آئی سی سی کے سامنے درخواست کی۔ جب پاکستان کی درخواست رجسٹرڈ ہوئی تو ٹی سی سی کے ذریعہ شروع کردہ عمل پر ازخود ایک عبوری قیام کی منظوری دی گئی۔

اس حکم کی تصدیق کے لیے سماعت اس اپریل میں ویڈیو لنک کے ذریعے ہوئی جبکہ بدھ کے روز ٹریبونل نے بالآخر پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا اور سٹے آرڈر کی تصدیق کی۔

سٹے آرڈر کیا ہوتا ہے؟

ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کا کہنا ہے کہ یہ ایک عارضی ریلیف ہوتا ہے، جو عدالت اپنے حتمی فیصلے سے قبل مقدمے کے کسی فریق کو دیتی ہے۔

اُن کے مطابق جب تک یہ سٹے آرڈر رہتا ہے اس وقت تک اس فریق کے خلاف دوسرا فریق کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کر سکتا۔ سادہ مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر کوئی کرائے دار کو مالک مکان فوری طور پر مکان خالی کرنے کا حکم دے اور وہ جا کر عدالت سے سٹے آرڈر لے آئے تو مالک مکان عدالت کے حتمی فیصلے سے قبل کوئی قانونی چارہ جوئی اختیار نہیں کر سکتا۔

مگر اس سٹے آرڈر کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ کرایہ دار اپنے لیے دیگر آپشنز پر غور ترک کر دے۔ فیصل صدیقی کے مطابق عالمی فورم سے حاصل ہونے والا سٹے آرڈر بھی ایسا ہی ہے کیونکہ اس مقدمے میں پاکستان کے خلاف فیصلہ آیا ہوا یعنی پاکستان یہ مقدمہ ہار چکا ہے اور اب اس وقت پاکستان نظرثانی کے مرحلے پر ہے۔ اس مرحلے کے حتمی فیصلے سے قبل پاکستان سٹے آرڈر کی صورت عارضی ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

ریکوڈک کے سٹے آرڈر کے معاملے پر سوشل میڈیا پر ملا جلا ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔ جہاں کئی افراد اس فیصلے پر کافی خوش ہیں اور اسے پاکستان کے لیے ایک بڑی کامیابی کے طور پر لیا جا رہا ہے وہیں دوسری جانب کئی افراد یہ بھی سوال بھی کر رہے ہیں کہ سٹے آرڈر کا مطلب کب سے ’بڑی کامیابی‘ ہو گیا؟

وزیرِاعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی اور سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ نے اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے اسے پاکستان کے لیے بہت بڑا ریلیف ہے۔

ان کے ٹویٹ کے مطابق وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ وہ معدنیات کے شعبے میں تیزی سے اضافے کے لیے شفاف طریقے سے جی او بی کے ساتھ مکمل تعاون کریں، بہتر نظام بنائیں، مقامی سرمایہ کاروں کو شامل کریں، اپنے انسانی وسائل استعمال کریں۔‘

عاصم

،تصویر کا ذریعہ@ASimSBajwa

شہاب صدیقی نامی صارف بھی یہی پوچھتے نظر آئے کہ ’مجھے یہ سمجھنے میں دقت ہو رہی ہے کہ سٹے آرڈر ’بڑی جیت‘ کیسے ہے؟‘

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ معاملہ عدالتی دائرہِ اختیار سے تجاوز اور ہمیں عدالتی اصلاحات کی ضرورت کیوں ہے، کی بہترین مثال ہے۔

X پوسٹ نظرانداز کریں, 1
X کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں

X پوسٹ کا اختتام, 1

مصنفہ عائشہ صدیقہ پوچھتی ہیں ’مسئلہ یہ ہے کہ مذاکرات کون کرے گا اور مذاکرات کیسے ہوں گے۔ شاہد خاقان عباسی نے بہترین سودا کیا جسے اصلی طاقتوں نے مسترد کردیا۔ حیرت ہے کہ اب ٹی سی سی کیا طے کرے گی؟‘

نسیم

،تصویر کا ذریعہ@iamthedrifter

حسن عارف لکھتے ہیں ’یہ محض ایک طرح کا عارضی ریلیف ہے۔ کوئی حتمی فیصلہ نہیں۔ کسی بھی صورت میں یہ فیصلہ پاکستان کے لیے خفت آمیز ناکامی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ قانون کے غیر متوقع، ناہموار اور غیر منطقی استعمال کے ساتھ ساتھ بدلتی سرمایہ کاری کی پالیسیاں بھی اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ ہمارے ملک میں کبھی بھی ہمارے ملک میں سنجیدہ قسم کی سرمایہ کاری نہ کرے۔‘

X پوسٹ نظرانداز کریں, 2
X کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں

X پوسٹ کا اختتام, 2

پاکستان تحریکِ انصاف کے آفیشل ہینڈل سے بھی اس فیصلے پر سب پاکستانیوں کو مبارکبار دی گئی۔

سوشل میڈیا صارف شہزاد یونس بھی اس فیصلے پر کافی خوش نظر آئے۔ انھوں نے لکھا کہ ’ریکو ڈیک کے معاملے میں پاکستان کے لیے بڑی جیت۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی کوششیں رنگ لا رہی ہیں۔‘

پی ٹی آئی

،تصویر کا ذریعہ@PTIOfficial

صارف بشیر احمد لکھتے ہیں ’پی ٹی آئی حکومت کی زبردست کارکردگی۔ ریکوڈک کیس میں پاکستان اور قانونی ٹیم کی بڑی کامیابی اکسڈ نے پاکستان کی اپیل پر چھ (6) ارب ڈالر جرمانے کی ادائیگی پر عمل درآمد حکم امتناع کے ذریعے روک دیا۔۔ شکر الحمدللہ۔‘

X پوسٹ نظرانداز کریں, 3
X کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں

X پوسٹ کا اختتام, 3

ریکوڈک بلوچستان میں کہاں واقع ہے؟

ریکوڈک ایران اور افغانستان سے طویل سرحد رکھنے والے بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے۔ بعض رپورٹس کے مطابق ریکوڈک کا شمار پاکستان میں تانبے اور سونے کے سب سے بڑے جبکہ دنیا کے چند بڑے ذخائر میں ہوتا ہے۔

ریکوڈک کے قریب ہی سیندک واقع ہے جہاں ایک چینی کمپنی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے تانبے اور سونے کے ذخائر پر کام کر رہی ہے۔ تانبے اور سونے کے دیگر ذخائر کے ساتھ ساتھ چاغی میں بڑی تعداد میں دیگر معدنیات کی دریافت کے باعث ماہرین ارضیات چاغی کو معدنیات کا 'شو کیس' کہتے ہیں۔

سپیریم کورٹ

ریکوڈک پر کام کب شروع ہوا اور یہ کب ایک کمپنی سے دوسری کو منتقل ہوا؟

بلوچستان کے سابق سیکریٹری خزانہ محفوظ علی خان کے ایک مضمون کے مطابق حکومت بلوچستان نے یہاں کے معدنی وسائل سے استفادہ کرنے کے لیے ریکوڈک کے حوالے سے 1993 میں ایک امریکی کمپنی بروکن ہلز پراپرٹیز منرلز کے ساتھ معاہدہ کیا۔

یہ معاہدہ بلوچستان ڈیویلپمنٹ کے ذریعے امریکی کمپنی کے ساتھ جوائنٹ وینچر کے طور پر کیا گیا تھا۔

چاغی ہلز ایکسپلوریشن کے نام سے اس معاہدے کے تحت 25 فیصد منافع حکومت بلوچستان کو ملنا تھا۔ اس معاہدے کی شقوں میں دستیاب رعایتوں کے تحت بی ایچ پی نے منکور کے نام سے اپنی ایک سسٹر کمپنی قائم کرکے اپنے شیئرز اس کے نام منتقل کیے تھے۔ منکور نے بعد میں اپنے شیئرز ایک آسٹریلوی کمپنی ٹھیتیان کوپر کمپنی (ٹی سی سی)کو فروخت کیے۔

نئی کمپنی نے علاقے میں ایکسپلوریشن کا کام جاری رکھا جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ریکوڈک کے ذخائر معاشی حوالے سے سود مند ہیں۔ بعد میں کینیڈا اورچِلی کی دو کمپنیوں کے کنسورشیم نے ٹی سی سی کے تمام شیئرز کو خرید لیا۔

بلوچستان

ٹی سی سی اور حکومت بلوچستان کے درمیان تنازع کب پیدا ہوا؟

ریکوڈک کے حوالے سے بلوچستان کے بعض سیاسی حلقوں میں تحفظات پائے جاتے تھے۔ ان حلقوں کی جانب سے اس رائے کا اظہار کیا جاتا رہا کہ ریکوڈک کے معاہدے میں بلوچستان کے لوگوں کے مفاد کا خیال نہیں رکھا گیا۔

اس معاہدے کو پہلے بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا مگر ہائی کورٹ نے اس حوالے سے مقدمے کو مسترد کر دیا اور بعد میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں ایک بینچ نے قواعد کی خلاف ورزی پر ٹی سی سی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ٹی سی سی نے مائننگ کی لائسنس کے حصول کے لیے دوبارہ حکومت بلوچستان سے رجوع کیا۔

اس وقت کی بلوچستان حکومت نے لائسنس کی فراہمی کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ کمپنی یہاں سے حاصل ہونے والی معدنیات کو ریفائن کرنے کے لیے بیرون ملک نہیں لے جائے گی۔ حکومت کی جانب سے چاغی میں ریفائنری کی شرط رکھنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے حصے کو بھی بڑھانے کی شرط بھی رکھی گئی۔

سیندک پراجیکٹ سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ملنے کے باعث حکومت بلوچستان کی جانب سے یہ شرائط بلوچستان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کے لیے رکھی گئی تھیں۔

کمپنی کی جانب سے ان شرائط کو ماننے کے حوالے سے پیش رفت نہ ہونے اور محکمہ بلوچستان مائننگ رولز 2002 کے شرائط پوری نہ ہونے کے باعث معدنیات کی لائسنس دینے والی اتھارٹی نے نومبر2011 میں ٹی سی سی کو مائننگ کا لائسنس دینے سے انکار کر دیا تھا۔

اس فیصلے کے خلاف ٹی سی سی نے سیکریٹری مائنز اینڈ منرلزحکومت بلوچستان کے پاس اپیل دائر کی تھی جسے سیکریٹری نے مسترد کیا تھا۔