آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
’یہ حکومت ناکامیوں کا انبار ہے‘ : نواز لیگ کا حکومت کی دو سالہ کارکردگی پر وائٹ پیپر
- مصنف, اعظم خان
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
مسلم لیگ نواز نے پیر کو تحریک انصاف حکومت کی دو سالہ کارکردگی پر وائٹ پیپر جاری کر دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مہلت ملنے کے باوجود وزیر اعظم عمران خان کی حکومت ملک چلانے میں ہر محاذ پر ناکام رہی ہے۔
مسلم لیگ نون کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے پیر کو اپنی جماعت کے سینیئر ارکان کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حکومت کو جتنی ’غیر معمولی حمایت ملی‘ ہے اس کے باوجود موجودہ حکمران کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔
شہباز شریف نے کہا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو سے بھی رابطہ کریں گے اور مشاورت کے ساتھ اب آل پارٹیز کانفرنس کی تاریخ کا تعین کریں گے۔
اس سے قبل یہ قیاس آرائیاں تھیں کہ شہباز شریف اے پی سی کے انعقاد پر آمادہ نہیں ہیں اور وہ بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان کو ملاقات کا وقت بھی نہیں دے رہے۔
شہباز شریف کے مطابق ’ہم نے قوم کو کہا تھا کہ ہم ان (اس حکومت) کو وقت دینا چاہتے ہیں مگر اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ حکومت ناکامیوں کا انبار ہے۔
ان کے مطابق عمران خان کی حکومت نے ’دو سال میں جو قرضہ لیا ہے وہ وہ نواز شریف کے تین ادوار سے بھی زیادہ ہے۔‘
پریس کانفرنس سے خطاب میں خواجہ آصف نے حکومت کی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حکومت کی سب سے بڑی ناکامی کشمیر پر ہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق اور مفتاح اسماعیل نے بھی حکومت کی مختلف شعبوں میں کارکردگی پر سوالات اٹھائے۔
مسلم لیگ کے وائٹ پیپر میں کیا ہے؟
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
انگریزی میں جاری کیے جانے والے وائٹ پیپر کا عنوان ’ڈسٹرکشن آف نیشنل پاور‘ ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ دو سال میں تحریک انصاف نے اپنی نااہلی، ناکامیوں اور بدعنوانی کی وجہ سے قومی طاقت کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
’عمران خان کی خارجہ محاذ پر ناکامیاں‘
مسلم لیگ کے رہنماؤں نے وائٹ پیپر میں تحریک انصاف کی خارجہ پالیسی کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ سابق وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کے مطابق حکومت کی سب سے بڑی ناکامی کشمیر ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کشمیر کے مسئلے پر کچھ کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے اور انڈیا میں جس طرح مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے وہ پاکستانی کی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔
خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے کہ کشمیر پر ہمارے 72 سال کا خون شامل ہے۔
مسلم لیگ نون کے وائٹ پیپر کے مطابق خارجہ پالیسی میں کئی بڑی غلطیاں کی گئیں۔ عمران خان کی انڈیا کو خوش کرنے کی پالیسی سے انڈیا کے وزیر اعظم مودی کو یہ شہہ ملی کہ وہ کشمیر کو انڈیا میں شامل کر دے۔
مسلم لیگ ن کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے انڈیا کے اس اقدام کے خلاف کوئی مؤثر حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی اور عمران خان اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں اس مقدمے کو لڑنے میں ناکام رہے۔
’یہ ایسا اقدام تھا جس کا انڈیا گذشتہ 72 برس میں ایسا کرنے کی جرات نہ کر سکا۔‘ وائٹ پیپر کے مطابق عمران خان اپنی ناکامیوں کی وجہ اب دوست اور دشمن ملک میں فرق نہیں کر پا رہے ہیں۔‘
تحریک انصاف نے گذشتہ حکومت کے چین، روس اور وسطی ایشیا کی جانب پالیسی کو نظر انداز کیا ہے۔
سابق وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کے مطابق حکومت کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے اب ہم ملیشیا کے رہے اور نہ ہی سعودی عرب کو خوش رکھ سکے۔ ان کے مطابق اس وقت آپ کے کہنے پر او آئی سی میں کمیٹی لیول کا اجلاس بھی نہیں ہوتا اور یہ ادارہ بھی غیر فعال بنا دیا گیا ہے۔
انھوں نے سعودی عرب سے متعلق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ یہ لہجہ کسی صورت سفارتی آداب سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ ان کے مطابق سعودی عرب ہمارا وہ دوست ہے کہ جس نے اپنی بحریہ کی دونوں گن بوٹس 1971 کی جنگ میں ہمیں بھجوا دیں تھیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ چین کے ساتھ سٹریٹجک تعلقات ہمارے لیے لائف لائن ہیں لیکن اس حکومت نے سی پیک جیسے منصوبے کو بھی نہیں بخشا اور حکومت میں آتے ہیں وزرا نے اس منصوبے کے خلاف بیانات دینے شروع کر دیے۔
سابق وزیر خارجہ کے مطابق سی پیک ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے، چین کے ساتھ تعلقات ہی کی وجہ سے جے ایف تھنڈر طیاروں کا حصول بھی ممکن ہو سکا۔
ان کے مطابق یہ حکومت پاکستان میں قید انڈین جاسوس کلبھوشن کی سہولت کار بن گئی ہے، انھوں نے آئی سی جی میں کیس بھی ٹھیک سے نہیں لڑا اور اب یہاں کلبھوشن کو بچانے کے لیے قانون سازی ہو رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت نے امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات میں کچھ حاصل نہیں کیا۔ ان کے مطابق ہم بھی امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں مگر آپ سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے اب تک کیا حاصل کیا۔
وائٹ پیپر کے مطابق عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل میں قومی سلامتی کے معاملے میں سمجھوتہ کیا اور اس میں منی لانڈرنگ کا ذکر کر کے آئی ایم ایف کی ڈیل کو براہ راست ایف اے ٹی ایف کے ساتھ جوڑ دیا۔
’عمران خان ایک فاشسٹ حکمران‘
مسلم لیگ نواز کے وائٹ پیپر میں وزیر اعظم عمران خان کو ایک فاشسٹ رہنما کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جنھوں نے آزادی اظہار رائے سے لے کر عدلیہ کی آزادی، آئینی وفاقی نظام، پارلیمانی نظام کی حاکمیت اور شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
وائٹ پیپر کے مطابق عمران خان کی حکومت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کا اپوزیشن کو ہراس کرنے اور دبانے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال جاری رکھا ہوا ہے۔
مسلم لیگ نون کے مطابق اعلیٰ عدلیہ کے متعدد فیصلوں، یورپی یونین کی آبزرویشن اور ہیومن رائٹس واچ کے اعلامیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کی حکومت احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین سے بدلہ لے رہی ہے اور ان پر ظم ڈھا رہی ہے۔
وائٹ پیپر میں خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلیمان رفیق کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا تفصیلی حوالہ بھی دیا گیا ہے جس میں عدالت نے نیب کے کنڈکٹ سے متعلق سخت ریمارکس دیے تھے۔
وائٹ پیپر میں عمران خان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان کی حکومت نے ججز پر دباؤ ڈال کر ملک کے تین بار سابق وزیر اعظم کے خلاف بے بنیاد مقدمات میں فیصلے دلوائے اور مختلف حیلے بہانوں سے عدالتوں سے ضمانت میں تاخیر کرائی۔
عمران خان کی حکومت نے آزاد خیال ججز کو دبانے کے لیے یا تو انھیں برطرف کیا یا پھر ان کے خلاف جعلی ریفرنس دائر کیے۔ حکومتی ارکان پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے ساتھ نہ صرف الجھتے ہیں بلکہ وہ ہاتھا پائی سے بھی گریز نہیں کرتے۔
تحریک انصاف حکومت نے قانون سازی کے مرحلے میں پارلیمنٹ اور اس کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو کئی بار نظر انداز کیا ہے اور صدارتی آرڈیننس جاری کرائے گئے۔
چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے انتخابات سے متعلق وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے سینٹ میں ہارس ٹریڈنگ کی رسم کے ذریعے ایوان بالا کا تقدس مجروح کیا۔
اپوزیشن جماعت کے مطابق عمران خان نے خود اور اپنے وزرا کے ذریعے 18 ویں ترمیم اور فنانس کمیشن کے خلاف متعدد بار بیانات دے کر جبکہ سندھ میں منتخب حکومت کے خاتمے کے لیے ’آئینی آپشنز‘ جیسے الفاظ استعمال کر کے خود آئین پر حملہ آور ہوئے ہیں۔
وائٹ پیپر میں میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے مذموم مقاصد کے لیے میڈیا کو معاشی نقصان پہنچانا جاری رکھا ہوا ہے اور اپوزیشن رہنماؤں کے انٹرویوز تک سینسر کرائے ہیں۔
وائٹ پیپر کے مطابق میڈیا کے اداروں کو مجبور کیا گیا کہ وہ صحافیوں کو ملازمتوں سے برطرف کریں۔ اپوزیشن جماعت کے مطابق جب نجی میڈیا ہاؤس جنگ اور جیو گروپ نے حکومت کے سامنے جھکنے سے انکار کیا تو اس میڈیا ہاؤس کے مالک میر شکیل الرحمان کو نیب کے ذریعے گرفتار کر لیا گیا جبکہ ان دو سالوں میں بلاگرز اور سماجی کارکنان کے خلاف ایف آئی اے کو استعمال کیا گیا ہے۔
وائٹ پیپر میں عمران خان کی حکومت کو اشرافیہ کی حکمرانی قرار دیا گیا ہے جہاں ہر طرف چور بازاری اور بدعنوانی ہو رہی ہے۔ اپوزیشن نے ایسے متعدد فیصلوں، ٹھیکوں اور بی آر ٹی جیسے منصوبوں کا نام لیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں اقربا پروری اور بدعنوانی ہوئی ہے۔
حکومت کی ناکامیوں اور بدعنوانیوں کی فہرست میں چینی سکینڈل اور گندم بحران کا ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ کیسے حکومت میں بیٹھے اشرافیہ نے حکومت میں آ کر عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا ہے اور متنازعہ فیصلوں سے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے۔
ترقیاتی کاموں میں عدم دلچسپی اور سی پیک
وائٹ پیپر کے مطابق ملازمتوں میں کمی کی بڑی وجہ صحت اور تعلیم کے بجٹ اور ترقیاتی کاموں میں کٹوتی ہے۔
اپوزیشن جماعت کے مطابق تحریک انصاف نے ایک ہزار بلین سے زائد کے ترقیاتی بجٹ کو کم کر کے 650 بلین کر دیا ہے۔ اسی طرح میر پور۔ مظفر آباد۔ مانسہرہ اور گلگلت-چترال-چکدرہ روڈ کی سی پیک منصوبے کے تحت منظوری دی جا چکی تھی مگر تحریک انصاف نے ابھی تک اس منصوبے پر کام ہی شروع نہیں کیا۔
ایم ایل ون ریلوے ٹریک کے لیے ابھی تک صرف چھ بلین مختص کیے گئے ہیں اور اگر اس رفتار سے اس منصوبے پر کام جاری رہا تو اس پر دو صدیاں لگ سکتی ہیں۔
سی پیک کے تحت نو اکنامک زون 2020 تک تیار ہونے تھے مگر ابھی تک کوئی ایک بھی زون تعمیر نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس کے علاوہ بھی تحریک انصاف کسی بڑے منصوبے پر کام کا آغاز تک نہیں کر سکی ہے۔
وائٹ پیپر کے مطابق ملک پر کل قرضے 29،879 بلین سے بڑھ کر 42،820 ہو گئے ہیں۔
اسی طرح گرددشی قرضے 2018 کے 1026 بلین سے بڑھ کر سال 2020 میں 2200 بلین ہو گئے۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے مطابق ان گردشی قرضوں میں روزانہ 1.2 بلین روپے کا اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق ملکی تاریخ میں بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کے باوجود ان قرضوں میں اضافہ ہو رہا ہے جو کہ تشویشناک ہے۔ انھوں نے دیگر ناکامیوں کے علاوہ ڈیزل سے مہنگی بجلی پیدا کرنے کو ان قرضوں میں اضافے کی بڑی وجہ قرار دیا۔
وائٹ پیپر میں دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کا بھی خصوصی ذکر شامل کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ کیسے ان کے منصوبوں کے ٹھیکے عمران خان نے اپنی ہی کابینہ کے ارکان کی ذاتی کمپنیوں کو دیے ہیں۔
وائٹ پیپر کے مطابق حکومت جس رفتار سے دیامر بھاشا ڈیم پر کام کر رہی ہے اس طرح اس منصوبے کی تکمیل کے لیے 50 سال کا عرصہ درکار ہو گا۔
وائٹ پیپر کے مطابق نہ صرف یہ کہ حکومت نے توانائی کے شعبے میں کوئی نیا منصوبہ نہیں شروع کیا بلکہ ایل پی جی ایئر مکس منصوبوں کی تنسیخ کا فیصلہ کیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے مطابق حکومت نے ایل این جی کی سپلائی میں کمی لائی اور فرنس آئل کی درآمد کو یقینی بنایا جس سے ملک میں پھر سے توانائی کا بحران پیدا ہوا اور کچھ خاص لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے چار سال بعد دوبارہ ڈیزل سے بجلی پیدا شروع کرنی شروع کر دی۔
وائٹ پیپر کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت نے صرف دو برس میں بجلی کی قیمتوں میں 50 فیصد سے زائد اضافہ کیا جو کہ ملکی تاریخ میں ریکارڈ اضافہ ہے۔
اپوزیشن کی جماعت نے پیٹرول اور گیس کی کمی اور پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافے پر بھی سوالات اٹھائے۔
تحریک انصاف کی معاشی کارکردگی
وائٹ پیپر کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت نے 2018 میں حکومت سنبھالی تو اس وقت ترقی کی شرح نمو 5.8 فیصد تھی لیکن دو سال میں یہ کم ہو کر منفی 0.4 رہ گئی، جس کی وجہ سے کئی لاکھ پاکستانیوں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔
اپوزیشن جماعت کے مطابق ورلڈ بینک کے اندازے کے مطابق 2020 تک یہ شرح نمو بڑھ کر چھ فیصد ہو جائے گی۔
اس پیپر کے مطابق 2014 سے لے کر 2018 تک عام آدمی کی آمدن میں 24 فیصد اضافہ ہوا جبکہ دو گذشتہ دو برس میں یہ 16 فیصد تک کم ہو گئی یعنی 1652$ سے کم ہو کر یہ 1388$ رہ گئی۔
ان دو سالوں میں معیشت کا حجم 315$ بلین سے کم ہو کر 264$ بلین رہ گیا۔
مسلم لیگ نواز کے وائٹ پیپر کے مطابق اگر گذشتہ حکومت کی شرح پیداوار کو اسی طرح برقرار رکھا جاتا تو معیشت کا حجم 350$ بلین تک بڑھایا جا سکتا تھا۔
تحریک انصاف نے حکومت سنبھالتے ہی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور وزیر خزانہ اسد عمر نے غلط بیانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ معیشت دیوالیے کے دھانے تک پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم عمران خان کے مشیر رزاق داؤد نے بھی دیوالیہ پن سے متعلق غلط بیانی کی، جس کے نتیجے میں باہر کے بینکوں اور مارکیٹوں نے پاکستان سے سرمایہ کاری کرنے سے گریز کیا اور اپنا سرمایہ بھی نکال دیا۔
گذشتہ حکومت میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے مطابق حکومتی وزرا کے ایسے بیانات کے بعد کون پاکستان میں سرمایہ کرنے کو ترجیح دے سکتا تھا۔ ان کے مطابق حکومت نے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کی۔
وائٹ پیپر کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت برآمدات بڑھانے میں بھی ناکام رہی ہے۔ عمران خان کی حکومت کے پہلے سال میں سٹیٹ بینک کے چھ فیصد کے پالیسی ریٹ کو بڑھا کر 13 فیصد تک کر دیا، جس سے صنعت کا نقصان ہوا۔
اپوزیشن جماعت کے مطابق شرح پیداوار اور مینیفیکچرنگ میں سست روی کی بڑی وجہ بھی پالیسی ریٹ میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔
وائٹ پیپر کے مطابق حکومت کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے بیرونی قرضوں کا حجم 1500 ارب سے بڑھ کر تقریباً 3000 بلین ہو گیا۔
تحریک انصاف کے دو سال میں 50 فیصد تک بے روزگار افراد میں اضافہ ہوا جبکہ روزگاری کی شرح 5.8 فیصد سے بڑھ کر 10 فیصد تک پہنچ گئی۔ وائٹ پیپر کے مطابق تحریک انصاف ٹیکس کے حصول میں بھی ناکام رہی اور کم ٹیکس جمع ہونے کی وجہ سے ملک کو معاشی نقصان اٹھانا پڑا۔
ملک میں افراط زر میں اضافہ ہوا جس سے مہنگائی کا طوفان آیا۔ مسلم لیگ ن کے وائٹ پیپر میں کچھ اشیائے ضروریہ کی فہرست بھی دی گئی ہے، جس میں یہ موازنہ کیا گیا ہے کہ کیسے ان اشیا کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔
تحریک انصاف کی حکومت کا موقف
تحریک انصاف کی حکومت نے شہباز شریف اور مسلم لیگ ن کے دیگر رہنماؤں کی پریس کانفرنس اور وائٹ پیپر کا جواب دینے میں کسی قسم کی کوئی تاخیر نہیں کی۔
جیسے ہی پریس کانفرنس ختم ہوئی تو دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز عمران خان کی کابینہ کے ایک اور رکن حماد اظہر کے ساتھ کیمروں پر آ گئے اور حکومت پر لگائے گئے الزامات کے جوابات دینا شروع کر دیے۔
وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ یہ عمومی نوعیت کےالزامات ہیں، جن کا جواب دینے کی بھی ضرورت نہیں محسوس کرتے مگر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ جن باتوں کا ذکر انھوں نے پریس کانفرنس میں کیا ہے اس کے ذمہ دار یہ خود ہیں۔
ان کے مطابق چاہے اداروں کا مفلوج ہونا ہو یا تعلیم کا نظام ہو انھوں سب یہاں تک پہنچایا اور اب یہ عوام کے ساتھ آکر ہمدردی جتانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شبلی فراز کا کہنا ہے کہ یہ جو مہنگائی ہے یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ جو اچانک ہو گئی ہو۔
مسلم لیگ ن پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا اپنی حکومت میں ’ون پوائنٹ ایجنڈا تھا جتنا مال بنا سکتے ہو بناؤ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے ہر ادارے کو استعمال کیا۔ انھوں نے اداروں میں ایسے لوگ بٹھائے جو ان کی معاونت کرتے تھے۔‘
شبلی فراز کے مطابق اس بات پر تو آپ کو بھی ہنسی آئی ہو گی کہ کیسے آج اشرافیہ کے نمائندے ہمیں یہ طعنے دے رہے تھے کہ ہم (تحریک انصاف کی حکومت والے) اشرافیہ کے لوگ ہیں۔
انھوں نے حکومتی کارکردگی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف نے صحت کارڈ کے ذریعے غریب کو بہتر علاج کے مواقع دیے ہیں۔ وزیر اطلاعات کے مطابق ’ہمارے بی آر ٹی منصوبے پر بہت طنز ہوتے تھے، اب پشاور کے لوگ اس منصوبے سے بہت خوش ہیں، میں خود اس شہر سے ہوں، اب یہ پروجیکٹ لوگوں کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔‘
شبلی فراز نے بجلی مہنگی ہونے کی وجہ ماضی میں کیے گئے معاہدوں کو قرار دیا۔
وزیر اعظم عمران خان کے وزیر اطلاعات نے کہا کہ ’انھوں (اپوزیشن) نے کمشن اور کک بیکس لے کر ملک کے مستقبل کو گروی رکھوایا۔ ہم ان معاہدوں میں رہتے ہوئے کوشاں ہیں کہ بجلی کی سستی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔ ان کے مطابق بجلی کے حصول کے لیے معاہدے حکومتوں نے کیے ہیں اور اب ہم ان سے باہر نہیں نکل سکتے ہیں۔
عمران خان کی کابینہ کے معاشی معاملات میں اہم سمجھے جانے والے رکن حماد اظہر نے معاشی پہلوؤں پر وائٹ پیپر میں لگائے گئے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ خسارہ ایک دم نہیں بڑھا۔
ان کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت نے پہلے دو سال میں بیرونی قرضے واپس کیے ہیں۔ مسلم لیگ نواز پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان کے دور میں بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں نے ان کی کارکردگی کو ڈاؤن پلے کیا تھا۔