آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
راولپنڈی میں دو لڑکیوں کی ’شادی‘ کے خلاف عدالت میں درخواست دائر، 15 جولائی کو سماعت
- مصنف, شہزاد ملک
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں دو لڑکیوں کی آپس میں ’شادی‘ کا انکشاف ہوا ہے اور عدالت نے دونوں لڑکیوں کو 15 جولائی کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس صداقت علی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کا سنگل بینچ اس درخواست کی سماعت کرے گا۔
راولپنڈی کے رہائشی امجد شاہ کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ان کی 20 سالہ بیٹی جو کہ ایک مقامی پرائیویٹ سکول میں پڑھتی تھی، وہاں پر اس کے تعلقات ایک اور خاتون ٹیچر کے ساتھ ہوگئے۔
اسی حوالے سے مزید پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
درخواست میں کیا ہے؟
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ جس لڑکی کے ساتھ اس کی بیٹی کے تعلقات قائم ہوئے تھے وہ بھی اس کے گھر کے پاس ہی رہتی تھی اور اُس لڑکی نے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اس نجی سکول میں بطور استاد نوکری کی تھی۔
درخواست گزار کے مطابق جب اسے معلوم ہوا کہ ان دونوں کے درمیان ناجائز تعلقات ہیں تو اُنھوں نے اپنی بیٹی کو سکول جانے سے روک دیا لیکن اس کے باوجود بھی ان دونوں کے آپس میں تعلقات رہے۔
درخواست گزار کے مطابق دوسری لڑکی نے جعلسازی کے ذریعے اپنے شناختی کارڈ میں خود کو لڑکا ظاہر کیا اور کچھ دنوں کے بعد دونوں گھر سے بھاگ گئے اور کورٹ میرج کرلی۔
درخواست گزار کے مطابق راولپنڈی کی مقامی عدالت نے بھی حقائق کو دیکھے بغیر ان کو میرج سرٹیفکیٹ جاری کردیا۔
اس درخواست میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جب درخواست گزار کو اس بات کا علم ہوا تو اُنھوں نے مقامی پولیس سے رابطہ کیا اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بارے میں کہا لیکن ان کی درخواست پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔
لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی اس پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مذہب اسلام میں ہم جنسوں کے درمیان شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے اور اس طرح کے تعلقات نہ صرف مذہب بلکہ پاکستانی معاشرتی روایات کے بھی خلاف ہے۔
اس پٹیشن میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت لاہور ایڈشنل سیشن جج کی عدالت کی طرف سے جاری کیے گئے میرج سرٹیفکیٹ کو منسوخ کرے بلکہ اس کی بیٹی کو ورغلانے اور شناختی کارڈ میں خود کو لڑکا ظاہر کرنے پر جلعسازی کا ارتکاب کرنے والی لڑکی کے خلاف بھی قانونی کارروائی کرے۔
درخواست گزار کے وکیل کے مطابق ان کے موکل کی بیٹی سے جس لڑکی نے ’شادی‘ کی ہے، اس سے جب رابطہ ہوا تو انھوں نے بتایا کہ اس نے اپنی جنس تبدیل کروائی ہے جبکہ درخواست گزار کے بقول پاکستان میں جنس کی تبدیلی ناممکن بھی ہے اور غیر شرعی بھی ہے۔
عدالت نے مقامی پولیس کو پابند کیا ہے کہ وہ دونوں لڑکیوں کو آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کریں۔
’آئین پاکستان میں جنس تبدیلی کا قانون نہیں ہے‘
قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان کے آئین میں جنسی کی تبدیلی کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ قانونی ماہر راجہ امجد محمود جنجوعہ، جو اس درخواست کی پیروی کرر ہے ہیں، کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے دونوں لڑکیوں کے درمیان شادی کے خلاف درخواست دائر کرنے کے لیے ملک بھر کے ماہر سرجنز سے رابطہ کیا اور ان سے اس بارے میں رائے بھی لی گئی۔
اُنھوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کی رائے میں جب تک قدرتی طور پر کسی انسان میں مخالف جنس کی علامات ظاہر ہونا شروع نہ ہوں تو اس وقت تک جنس کی تبدیلی کے حوالے سے کوئی آپریشن نہیں کیا جا سکتا۔
راجہ امجد کے مطابق ڈاکٹروں کی رائے میں مخالف جنس کی علامات ظاہر ہونے میں دو سے تین سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور اس دوان جنس کی تبدیلی کے حوالے سے چار یا پانچ بڑے آپریشن کرنا پڑتے ہیں اور اس آپریشن کے لیے والدین کی اجازت حاصل کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ اور یورپی ممالک میں ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جہاں پر لڑکیوں نے آپریشن کروا کر مردوں کے اعضا لگوائے ہیں تاہم ان اعضا کے آپریشنل ہونے کے بارے میں ان ممالک کے ڈاکٹروں نے بھی کوئی حتمی رائے نہیں دی۔