پاکستان کے سیاہ فام شہری: شیدی برادری کی تاریخی داستان

شیدی

،تصویر کا ذریعہUK National Archive

،تصویر کا کیپشنسنہ 1875 میں کینیا کے شہر مومباسا کے نزدیگ غلاموں سے بھری کشتیوں سے بازیاب کروائے گئے غلام جنھیں خلیج فارس، گلف اور مکران کوسٹ بھیجا جا رہا تھا (فائل فوٹو)
    • مصنف, سحر بلوچ
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام

امریکہ میں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی پولیس کی تحویل میں ہلاکت کے بعد سے پیدا ہونے والی بحث کے نتیجے میں پاکستان کی افریقی نژاد برادری پر ایک بار پھر تمام تر توجہ مرکوز ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر موجود صارفین صدیوں سے اس خطے میں موجود اس برادری کے بارے میں اب سب کچھ جاننا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ کہاں سے آئے، کیسے رہتے ہیں اور کیوں ان کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی جاتی۔

پاکستان میں افریقی نژاد برادری کئی برسوں سے آباد ہے۔ ان پر ہونے والی زیادہ تر بات چیت کا دارومدار ان کی رنگت، کام اور رقص کرنے تک محدود رہا ہے۔ اس کے باوجود اقلیت سے تعلق رکھنے والے یہ افراد خاموشی سے اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔

خطے میں افریقی نژاد برادری کی خرید و فروخت اور آمد

محمد صدیق مسافر کی سندھی زبان میں لکھی ہوئی کتاب ’غلامی آین آزادی جا عبرتناک نظارہ‘ کو افریقی نژاد لوگ اپنی تاریخ کا مستند حوالہ مانتے ہیں۔ اس کمیونٹی کی بات کرتے ہوئے زیادہ تر لوگ اسی کتاب کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔

اس کتاب میں جہاں ایک طرف محمد صدیق نے اپنے لوگوں کی عبرتناک غلامی کے دنوں کا احوال لکھا ہے وہیں انھوں نے برادری کے ہی ایسے لوگ گنوائے ہیں جو آزادی کی جنگ میں پیش پیش تھے۔

یہ بھی پڑھیے

وہ لکھتے ہیں کہ سیاہ فام لوگوں کی غلامی کی تاریخ فرعون کے وقت سے شروع ہوتی ہے، جس کی تصدیق قدیمی مصری فن میں بھی واضح ہے۔ افریقہ کی مشرقِ وسطی سے قربت کے باعث زیادہ تر لوگ عربستان اور وہاں سے دیگر ملکوں میں غلام کے طور پر لائے گئے۔

’مصری اور عرب لوگوں کو شیدی افراد بطور غلام رکھنے کا دوہرا فائدہ ہوتا تھا۔ ایک طرف اُن کو جہاں جانور خریدنے سے منافع ملتا تھا وہیں سیاہ فام شخص کو بیچنے کا بھی فائدہ تھا۔ جانور خریدنے والے کو جانور پر خرچ کی جانے والی بڑی رقم کا صرف آدھا حصہ سیاہ فام انسان کی دیکھ بال میں خرچ کرنا پڑتا تھا۔۔۔اس لیے غلاموں کی مانگ زیادہ تھی۔‘

جہاں ایک طرف سیاہ فام بطور غلام مصر اور عربستان میں پہنچائے گئے وہیں دوسری جانب ان کو میدانِ جنگ میں بھی بطورِ سپاہی استعمال کیا جاتا رہا۔

سیاہ فام

،تصویر کا ذریعہSlaveryimages.org

،تصویر کا کیپشنفاقہ کشی کا شکار افریقی مردوں اور لڑکوں کے ایک گروپ کو غلاموں کی ایک کشتی سے بازیاب کروایا گیا۔ ان غلاموں کو مشرقی افریقی ساحل پر سفر کرنے والے ایک برطانوی بحری جہاز کے عملے نے بازیاب کروایا تھا۔ ان سیاہ فام غلاموں کو خلیج فارس اور مکران کے ساحل لے جایا جا رہا تھا (فائل فوٹو)

ساحلی علاقوں کے ذریعے غلاموں کی تجارت کا سلسلہ صدیوں سے جاری تھا۔ تجارت دو مراحل میں ہوتی تھی۔ اس کا ایک عبرتناک مرحلہ آٹھویں سے نویں صدی میں دیکھا گیا جب سیاہ فام افراد فوجی غلامی کا شکار ہوئے۔

فوجی غلامی کے تحت جنگ لڑنے کے لیے مقامی لوگوں کی ضرورت ہوتی تھی اور دستے کافی نہیں تھے تو اس مقصد کے لیے سیاہ فام افراد کو مختلف علاقوں جیسے کہ افریقہ، ترکی اور دیگر ممالک سے جنگ لڑنے والے ممالک بھیجا جاتا تھا۔

محققین کے مطابق اتھیوپین جنگجو عربستان کے جنوب میں رہ گئے اور وہیں کے مقامی علاقوں میں ضم ہو گئے۔

جبکہ عربستان اور مشرقِ وسطی کے ساحلی راستوں کے ذریعے بہت سے افراد ایشیا میں لائے گئے جس کے بعد بہت سے جنوبی ایشیائی ممالک میں رہ گئے اور اسی ماحول میں خود کو ڈھال لیا۔

ایتھیوپیا سے غلام بنا کر لائے جانے والے سیاہ فام افراد اپنی طاقت اور بہادری کے لیے مشہور تھے۔

قدیم زمانے یعنی 10ویں، 11ویں اور 12ویں صدی تک افریقہ ترک اور جارجیا سے غلاموں کو لایا جاتا رہا۔

’سیاہ فام شیدی؟‘

جنوبی ایشیا میں افریقی نژاد افراد کی ایک بہت بڑی آبادی سندھ کے شہروں حیدرآباد اور ٹھٹھہ میں موجود ہے، اس علاقے کو لاڑ بھی کہا جاتا ہے اور اس کا شمار سندھ کے زیریں علاقوں میں ہوتا ہے۔ یعنی وہ علاقے جو سندھ کے شہر کراچی سے نزدیک ہیں۔

انھیں زیادہ تر شیدی کے عرف عام سے جانا جاتا ہے۔ جبکہ اسی برادری سے تعلق رکھنے والے بھی خود کو شیدی کہتے ہیں یا نام کے ساتھ شیدی لگاتے ہیں، تاہم ایسا سب نہیں کرتے۔

اگر تاریخ کو دیکھا جائے تو قدیم زمانے میں افریقی افراد کو جس خطے سے ان کا تعلق ہے اُسی نام سے پکارا جاتا تھا۔

مثال کے طور پر شیہان ڈی سِلوہ کی یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر کے لیے کی گئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایتھیوپیا سے تعلق رکھنے والوں کو حبشی، بحیرہ مکران سے تعلق رکھنے والوں کو مکرانی، زنزیبار سے تعلق رکھنے والوں کو زنجی، یہاں تک کے کافر اور بابورا بھی کہا گیا ہے۔

ان تمام ناموں میں شیدی آج بھی پکارا جاتا ہے۔

سیاہ فام

،تصویر کا ذریعہAtlas of the Transatlantic Slave Trade

اٹھارویں صدی میں عمانی سلطنت میں یمن، خلیجِ عمان اور ساحلِ مکران شامل تھے۔ اس دور میں سلطنت شجرکاری، ہاتھی دانت کی خرید و فروخت کرتی تھی جس کو یقینی بنانے کے لیے غلاموں کی خرید و فروخت کے مطالبات بھی دن بہ دن بڑھ رہے تھے۔

اسی دوران، تقریباً سنہ 1851 کے سمندری ریکارڈ میں شیدی لفظ کا استعمال ہونا شروع ہوا جو عمانی سلطنت سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

اسی طرح برٹش راج کے دور میں بھی بمبئی میں ملکہ کے لیے بحری جہازوں پر کام کرنے والے لڑکوں کو شیدی بوائز کہہ کر پکارا جاتا تھا۔

اسی بارے میں ڈی سِلوہ لکھتے ہیں کہ مغربی انڈیا میں شیدی کا لفظ دراصل عزت یا خطاب کے طور پر ان افراد کو دیا جاتا تھا جو دکن کے بادشاہوں کے لیے بڑے عہدوں پر فائز تھے۔

جبکہ اسی دوران مہاراشٹرا اور گجرات میں بحری جہازوں پر کام کرنے والے افریقی نژاد افراد کو بھی شیدی پکارا جاتا تھا۔

جبکہ باقی کئی ماہرین اور لکھنے والے بتاتے ہیں کہ شیدی لفظ دراصل عربی زبان کے لفظ سید سے لیا گیا ہے جس میں اس کے معنی استاد یا آقا کے ہیں۔

پاکستان میں افریقی نژاد افراد کو مکرانی، شیدی، سیاہ، غلام، ڈاڈا اور زنجیباری پکارا جاتا ہے۔

سیاہ اور غلام کا لفظ زیادہ تر بلوچستان میں پکارا جاتا ہے جو ایک توہین آمیز لفظ ہونے کی وجہ سے افریقی نژاد افراد اپنے لیے استعمال نہیں کرتے۔

جبکہ کافر کا لفظ قدیم زمانے میں افریقی نژاد افراد کا کسی خاص مذہبی طبقے سے تعلق نہ رکھنے کے باعث دیا گیا۔ پاکستان میں بھی اس طرح کا تاثر بنا جس کے نتیجے میں طالبان کی طرف سے کیے جانے والے حملوں کے ڈر سے برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے خود کو عرب یا مسلمانوں کے ہی ایک شاخ بتایا تاکہ وہ نشانہ نہ بنیں۔

شیدی برادری کی شناخت

شیدی

،تصویر کا ذریعہGul Hassan Kalmati

افریقی نژاد افراد خطے میں جہاں جہاں آباد ہوئے وہیں کی تہذیب میں خود کو ضم کر لیا۔ کئی جگہوں پر ان کے لیے وہاں کی روایات اپنانا آسان بنا اور وہ ان کی شناخت کا حصہ بن گیا۔ جبکہ دوسری جگہوں پر ان کی اپنی منفرد شناخت قائم رہی۔

سندھ اور گجرات میں ان روایات کو اپنانے کا تدارک ایک طرح سے ہوا کہ شیدی کہلائے جانے والے افراد ایک الگ طبقے میں شامل ہوئے اور اپنی شناخت بنا پائے۔ دوسری جانب تاریخی مکران کے ساحلی علاقوں میں ایک دوسرے طبقے میں شامل ہو گئے۔

محقق اور پروفیسر حفیظ جمالی اپنی آنے والی کتاب کے ایک باب ’شور لائنز آف میموری اینڈ پورٹس آف ڈیزائر‘ میں لکھتے ہیں کہ سندھ میں افریقی نژاد افراد کو شیدی کہا جانے لگا اور وہ سروائل ذات کا حصہ بننے کے باعث اپنی جگہ بنا سکے۔ ’سروائل کو مقامی درجہ بندی میں ایک کاسٹ یا ذات کا درجہ دیا گیا جس کی وجہ سے ایک شیدی شناخت سامنے آئی۔ اور ان کے اپنے پیر اور مرشد ہیں۔ جیسے منگھو پیر میں ہیں، انڈیا کےگجرات میں بابا گھور کے نام سے بھی ہیں۔‘

پروفیسر جمالی نے کہا کہ اس کے برعکس بلوچستان میں بجائے اپنی شناخت بنانے کے شیدی برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ پہلے سے موجود قبائل کا حصہ بن گئے۔ اسی طرح سے ایک درجہ بندی ٹھی اور لوڑھی کے نام سے بھی ہوئی جن میں شامل افریقی نژاد افراد شادیوں میں گانے بھی گاتے تھے اور لوہار کا کام بھی کرتے تھے۔ ایسے تمام لوگوں کو مڈل کلاس آبادی خود سے الگ اور نیچے سمجھتی تھی۔

ایسے تمام لوگوں کو گلام (یعنی غلام) اور نقیب کہا جاتا تھا۔ بعض جگہ جو مخلوط نسل افراد ہوتے تھے ان کو ’در زادگ‘ پکارا جاتا تھا۔

مکران کے سماجی ڈھانچے میں تین بنیادی خاندان تھے۔ حکمران خاندانوں سے گچکی، بلیدہ، حوت اور بزنجو شامل تھے۔ جنھیں حاکُم طبقہ مانا جاتا تھا۔ پھر مڈل طبقہ تھا جن کو صرف بلوچ کہتے تھے، ان میں زمیندار اور مویشیوں کا کام سنبھالنے والے شامل تھے۔ پھر حزمت گار (خدمت گار) طبقہ تھا جن میں سروائل، لوہار، کارپینٹر، جوتے بنانے اور سلائی کرنے والے شامل تھے۔ اس تیسرے طبقے میں بلوچستان آنے والے افریقی نژاد افراد کو شامل کیا گیا۔

شیدی میلہ

غلامی کے خاتمے کی تحریک کے بعد کئی بڑے شیدی مبصر اور دانشور سامنے آئے جن میں ایک بڑا نام سندھی دانشور محمد صدیق مسافر کا تھا۔ جس کی وجہ سے شیدی تحریک اور اصلاح کا آغاز ہوا۔

بلوچستان میں سنہ 1960 اور سنہ 1970 کی دہائی میں مکران اور وسطی بلوچستان میں جاری بلوچ قوم پرست تحریک، جو سوشلزم اور کمیونزم سے متاثر تھی، ابھر کر سامنے آئی۔ جس کے وجہ سے وہ تمام تر افراد جو سروائل قبائل اور حزمت گار طبقے میں ضم تھے ان میں موجود افریقی نژاد نوجوانوں نے غلام اور حاکم درجہ بندی کی مخالفت کی۔

حفیظ جمالی نے کہا کہ ’اس دہائی میں ہم نے دیکھا کہ زیادہ تر لوگوں نے اپنے قبائلی نام چھوڑ کر اپنے نام کے ساتھ صرف بلوچ لگانا شروع کر دیا۔‘

مرویسوں پر سندھ نہ ڈیسوں

آزادی کی جدوجہد میں سندھ سے تعلق رکھنے والے جنرل ہوش محمد شیدی کا کیا کردار رہا ہے اس بارے میں بہت کم لوگ جانتے تھے۔ اس حوالے سے معلومات تب سامنے آئیں جب سنہ 1980 کی دہائی میں خود سندھی قوم پرست تنظیموں نے اپنے مقامی ہیروز کی تلاش شروع کی۔

ایلس ایلبینیا اپنی کتاب ’ایمپائرز آف دی انڈس، دی سٹوری آف اے ریور‘ میں لکھتی ہیں کہ مارچ 1843 میں جنرل ہوش محمد شیدی برٹش افواج اور تالپور قبیلے کے درمیان ہونے والی جھڑپ کے نتیجے میں مارے گئے۔

ان کی قبر آج بھی حیدرآباد کے شمال میں موجود ہے۔ کئی سال تک ایسے ہی رہنے کے بعد سندھی قوم پرست افراد نے قبر کے ساتھ ساتھ ہوش محمد شیدی کے بارے میں معلومات بھی ڈھونڈ نکالیں اور ساتھ ہی سندھ کو ایک مقامی ہیرو بھی مل گیا۔

ہوش محمد شیدی کے بارے میں بہت کم معلومات منظرِ عام پر آئیں جبکہ ان کے بارے میں ایلس لکھتی ہیں کہ ان کی پیدائش ایک غلام کے طور پر ایک تالپور گھرانے میں ہوئی۔ انھوں نے سندھی فوج کی سربراہی کی اور کچھ وقت میں جنرل کے عہدے پر پہنچ گئے۔ برٹش راج کے ساتھ جنگ کے دوران ’مرویسوں، مرویسوں پر سندھ نہ ڈیسوں‘ (یعنی ہم لڑیں گے، مریں گے، پر سندھ نہیں دیں گے) کا نعرہ پہلی بار انھوں نے ہی لگایا تھا۔

کراچی اور لیاری

شیدی میلہ

،تصویر کا ذریعہGul Hassan Kalmati

کراچی کے علاقے لیاری کو سندھ اور بلوچستان کے درمیان ایک رابطے کی کڑی سمجھا جاتا ہے۔ یہاں پر رہائش پذیر بہت سے لوگوں کے رشتہ دار ان دو صوبوں میں بھی رہتے ہیں، جبکہ سندھ اور بلوچستان میں ہونے والی کسی بھی تحریک کا براہِ راست اثر لیاری پر رہا ہے۔

برٹش دور میں بھی کئی ایسے سیاسی نمائندے سامنے آئے جن کے خاندان کے افراد کی جڑیں افریقہ سے ملتی ہیں یا ان کے آباؤ اجداد وہاں سے ہجرت کر کے کراچی اور پھر لیاری میں آباد ہوئے ہیں۔

سنہ 1989 میں شائع ہونے والی فیروز احمد کی تحقیق ’افریقہ آن دی کوسٹ آف پاکستان‘ کے مطابق برٹش دور میں کراچی کے میئر اللہ بخش گبول کی والدہ افریقی نژاد تھیں جبکہ انھوں نے خود ایک شیدی خاتون سے شادی کی۔

ان کے وکالت سے منسلک بیٹے عبدالستار سنہ 1970 کے انتخابات میں لیاری سے پاکستان پیپلز پارٹی کی نشست پر منتخب ہوئے تھے۔

سنہ 1989 میں کراچی شہر کی آبادی میں تقریباً ساڑھے تین لاکھ بلوچ بستے تھے۔ ان میں سے ’سیاہ‘ رنگت کے کہلانے والوں کے پاس ساحل میں کام کرنے کے علاوہ زیادہ معاشی مواقع موجود نہیں تھے۔

لیاری ایک طرف جہاں سیاسی، ادبی اور قوم پرست تحریکوں کا گڑھ رہا ہے وہیں جرم اور سیاست کے نتیجے میں بننے والے گینگز بھی اس علاقے سے منسلک رہے ہیں۔ ’شیدی‘ لڑکوں کی جانب سے سیاسی فریقین سے نمٹنے کے لیے گینگ میں شمولیت بھی کی گئی جس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔

کراچی میں شیدی برادری لیاری کے علاوہ منگھو پیر کے علاقے میں بھی رہائش پذیر ہے۔

لیکن کراچی کے بدلتے حالات کے نتیجے میں وہ ایک جگہ بہت دیر تک نہیں رہے اور وقت کے ساتھ کئی مختلف علاقوں کی طرف ہجرت کرتے رہے ہیں۔

منگھو پیر کے ٹوٹے ہوئے میدان میں فٹبال کی تیاری کرنے والے زمان شیدی ان بچوں میں سے ہیں جو کھیل کے ذریعے جہاں اپنا نام بنانا چاہتے ہیں وہیں کھیل کے ذریعے اس علاقے سے نکلنا بھی چاہتے ہیں۔

منگھو پیر کا یہ فٹبال گراؤنڈ کئی کوششوں، جھگڑوں اور دھمکیوں کے بعد قبضہ مافیا کے ہاتھ سے نکال کر یہاں کے بچوں کے لیے 2012 میں صحیح کیا گیا تھا۔

زمان نے فٹبال کے ساتھ کھیلتے ہوئے کہا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ اتنا کھیلوں کہ اپنے لوگوں کے لیے کچھ کر سکوں۔ تاکہ یہ تاثر ختم ہو جائے کہ ہم لوگ یا تو کھیلتے ہیں یا جرم کرتے ہیں۔ ہم سب بہت کچھ کر سکتے ہیں۔‘

شیدی میلہ اور مگرمان

مگر مان ڈھول کی تھاپ پر افریقی زبان سواحلی میں ہر سال ناچتی گاتی ریلی منگھو پیر کے علاقے سے نکالی جاتی رہی ہے۔ اس میں ہر ایک شخص کا منفرد انداز دیکھنے کو ملتا ہے۔ جہاں بچے سر پر لال دوپٹے سے ڈھکی ہوئی تھالیاں اٹھائے اور سجاوٹ کا سامان پکڑے سب سے آگے موجود ہوتے وہیں بزرگ اور خواتین چھ سے آٹھ فٹ لمبے علم اٹھائے خدا کا نام لیے جھوم رہے ہوتے ہیں۔

انھیں میں خواتین چہرے پر دوپٹہ اوڑھے سواحلی زبان میں ورد کرتی ہیں جبکہ ان کے آس پاس موجود علاقے کے لوگ ان کے لیے راستہ بناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

جہاں کئی سال تک ان گیتوں اور ورد کرنے میں سواحلی کے الفاظ شامل رہے۔ وہیں اب کچھ حد تک اس میں عربی کے الفاظ جیسے کہ لا الہ الا اللہ شامل کر دیے گئے ہیں۔ تو اب جب مگارمان بجانے والا کہتا ہے لا الہ الا اللہ تو باقی سب جواب میں کہتے ہیں محمد الرسول اللہ۔

جبکہ بدین اور ٹنڈو بھاگو کے علاقوں میں کوئلے کو آگ لگا کر بچھایا جاتا ہے اور اس پر رقص کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آگ پر رقص کرتے ہوئے انسان بلندی پر پہنچ جاتا ہے اور اسے احساس نہیں رہتا کہ وہ کہاں ہے۔

شادیوں میں بھی یہی مگرمان بجایا جاتا ہے۔ جبکہ اس برادری کے لوگ بتاتے ہیں کہ اس کا زیادہ تر انعقاد جمعے کی رات کو کیا جاتا ہے۔ جس میں بہت زیادہ لوگ شامل ہوتے ہیں۔

کئی سال تک سندھ کے شہروں کراچی، حیدر آباد اور ٹھٹھہ میں مقیم افریقی نژاد افراد کا یہی طریقہ کار رہا ہے اور یہ میلہ ان کی پہچان رہا ہے۔

اس پہچان کے ساتھ اب ایک نام بھی جُڑ گیا ہے۔

تنزیلہ قنبرانی

،تصویر کا ذریعہfacebook/PPP

تنزیلہ قمبرانی کا سنہ 2018 کے انتخابات میں بطور رکنِ صوبائی اسمبلی منتخب ہونا تمام برادری کے لیے جہاں فخر کی بات تھی وہیں پاکستان میں لوگوں کے لیے بھی اہم تھا کیونکہ یہاں رہائش پذیر افراد کے بارے میں خاصی محدود سوچ رکھی جاتی ہے۔ تنزیلہ کا رکنِ صوبائی اسمبلی بننا ان تمام تر رنگ و نسل کے فرق کے منافی تھا جس کے تحت اُن کو اور ان جیسے بیشتر لوگوں کو پرکھا جاتا رہا ہے۔

تنزیلہ کے رکنِ صوبائی اسمبلی بننے پر کئی گھنٹوں تک جشن کے دوران مگرمان بجایا گیا جس میں علاقے کے تمام لوگ شامل ہوئے۔

تنزیلہ بتاتی ہیں کہ اُن کے بڑوں نے انھیں بتایا ہے کہ ان کے خاندان کو ساحلی راستے کے ذریعے سندھ لایا گیا تھا۔

تنزیلہ کی والدہ بطور ٹیچر سکول میں پڑھاتی رہی ہیں جبکہ ان کے والد ایڈووکیٹ تھے۔ ’میری بڑی بہن کی شادی تنزانیہ میں کی گئی جبکہ میری شادی میری شرط پر یہیں شیدی برادری میں کی گئی۔ تنزانیہ میں بہن کی شادی کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمارا بنیادی تعلق زنزیبار سے ہے تو وہاں کے بارے میں جاننے کی بھی خواہش ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ تنزانیہ میں ان کی بہن کو حیرانی سے سُنا جاتا ہے جب وہ دعا یا کوئی گیت گاتی ہیں۔’اُسے کہا گیا کہ وہ جو سواحلی زبان کے چند الفاظ استعمال کرتی ہیں وہ قدیمی ہیں جبکہ انھوں نے خود بھی کئی ایسے الفاظ سنے جو ہم یہاں استعمال کرتے ہیں۔‘

انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ٹنڈو بھاگو میں اب بھی بوڑھی خواتین مچھلی کو تماکی کہتی ہیں جو سواحلی کا لفظ ہے۔

’ہم قبیلہ نہیں، ایک ہی خاندان ہیں‘

شیدی میلہ اب محدود ہو گیا ہے لیکن مکمل طور پر ختم نہیں کیا گیا۔

تنزیلہ بتاتی ہیں کہ ایک وقت میں بہت سے لوگ اس کی ذمہ داری لینا چاہتے تھے۔ اس کو اپنے سے منسلک کرنا چاہتے تھے۔ غلام اکبر شیدی بہت سالوں تک اس میلے کے مہتمم رہے ہیں۔ کراچی میں منگھو پیر کے علاقے میں موجود شیدی گوٹھ سے یہ میلہ شروع ہو کر سخی سلطان کی درگاہ تک پہنچتا تھا۔ لیکن اکبر شیدی کے انتقال کے بعد اب ایک مختلف گھرانہ اس کے انعقاد کی ذمہ داری لے چکا ہے۔

شیدی میلے کا انعقاد چار گھرانوں کے ذمہ ہوتا تھا۔ جن میں حیدر آبادی، کھارا دری، لاسی اور بیلڑا گھرانے شامل ہیں جبکہ مختلف علاقوں میں قمبرانی، بلالی کے نام سے بھی اس کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن بدلتے حالات کے تناظر میں اب شیدی برادری گھرانوں کے تصور سے باہر آنا چاہتی ہے۔

تنزیلہ نے کہا کہ ’جن کو آپ سب گھرانے سمجھتے ہیں وہ دراصل قبیلے کے مانند ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ تمام شیدی ایک ہیں۔ ان کو بانٹنا ان کو الگ کرنے جیسا ہے۔ ایسا سمجھیں کہ ہم ایک ہی خاندان کے لوگ ہیں۔‘

’میرے لیے یہ ایک مشکل امتحان ہے کہ میں اپنے رنگ کی وجہ سے یہ ثابت کروں کہ میں اس عہدے کی حقدار ہوں۔ میرے مخصوص نشست پر منتخب ہونے پر میرے اپنے علاقے بدین میں کچھ لوگ خوش نہیں تھے۔ مجھے کہا گیا کہ کیا اب غلام حکمرانی کریں گے؟‘

دنیا بھر میں جاری رنگ و نسل کی بحث ایک بار پھر چھِڑ چکی ہے جو کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔

تنزیلہ اس بارے میں کہتی ہیں کہ ’ہم اپنے آس پاس برابری پیدا کریں گے تو دنیا بھر میں بھی برابری کی بات کر سکیں گے۔ میرے سامنے آنے سے لوگوں کو یہ پتا چلا ہے کہ سیاہ فام بھی انسان ہوتے ہیں اور کہیں پہنچ سکتے ہیں۔ ابھی بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ اور خاص کر ایک دوسرے سے بات کرنے اور بات سننے کی ضرورت ہے۔‘