کورونا وائرس: پاکستان میں ڈاکٹروں سمیت طبی عملے کے 1904 افراد متاثر، کم از کم 30 ہلاک

،تصویر کا ذریعہEPA
- مصنف, عزیز اللہ خان
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
دنیا بھر میں کووڈ 19 کے خلاف برسر پیکار فرنٹ لائن پر موجود طبی عملہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور بڑی تعداد میں ڈاکٹرز، نرسیں اور دیگر عملہ اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں بھی کورونا وائرس سے اب تک 1904 ڈاکٹرز اور عملے کے دیگر افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں سے کم از کم 30 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ چار کی حالت تشویشناک ہے۔
اس وائرس سے وہ ڈاکٹر بھی متاثر ہوئے ہیں جو اپنے نجی کلینکس پر مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں اور وہ طبی عملہ بھی جو ہسپتالوں میں قائم کورونا کملپکس یا وارڈز میں مریضوں کے علاج کے لیے موجود رہتے ہیں۔
پاکستان میں وزارت صحت کی جانب سے 29 مئی کو جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق کورونا وائرس سے 1035 ڈاکٹرز، 299 نرسیں اور دیگر صحت کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے 570 افراد متاثر ہوئے ہیں۔ ان متاثرین میں سے بیشتر کو اپنے اپنے گھروں میں قرنطینہ کیا گیا ہے جبکہ 170 فرنٹ لائن ورکر اس وقت ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
ان میں چار افراد کی حالت تشویشناک ہے اور انھیں وینٹیلیٹرز پر رکھا گیا ہے جبکہ 17 ڈاکٹرز اور عملے کے دیگر افراد فوت ہو چکے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر جیسے جیسے کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں اور اموات میں اضافہ ہو رہا ہے، طبی عملے کے افراد بھی اسی رفتار سے متاثر ہورہے ہیں اور ان کی اموات میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی

سندھ میں کیا ہو رہا ہے؟
صوبہ سندھ میں کورونا وائرس سے متاثر یا ہلاک ہونے والے ڈاکٹرز کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
وزارت صحت کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق صوبہ سندھ میں اس وائرس سے متاثر ہونے والے کل عملے کی تعداد 538 ہے ان میں 411 ڈاکٹرز اور 44 نرسیں شامل ہیں۔ صوبہ سندھ میں اب تک آٹھ ڈاکٹرز اور عملے کے دیگر افراد جانیں گنوا چکے ہیں جبکہ چار افراد اس وقت بھی وینٹیلیٹرز پر ہیں۔
کورونا وائرس کے ابتدائی دنوں یعنی اس سال فروری کے اواخر میں ایران سے واپس پاکستان آنے والے افراد کی بڑی تعداد کراچی اور صوبے کے دیگر شہروں میں واپس آئے تھے جس وجہ سے اس صوبے میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔ صوبائی حکومت نے اس پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات بھی کیے لیکن اس کے باوجود وائرس کو پھیلاؤ پر قابو نہیں پایا جا سکا۔
پاکستان کے دیگر صوبوں سے بھی لوگ علاج کے لیے کراچی کے ہسپتالوں کو ترجیح دیتے ہیں شاید اس لیے بھی سندھ میں وائرس سے متاثر ہونے والے ڈاکٹرز اور طبی عملے کی تعداد باقی صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

،تصویر کا ذریعہEPA
خیبر پختونخوا کے ہیلتھ ورکرز کس حال میں ہیں؟
نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے ایک سکھ ڈاکٹر رات گئے اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں دم توڑ گئے ہیں۔ ڈاکٹر پھاگ چند سینیئر ڈاکٹر تھے اور چند سال پہلے وہ ڈسٹرکٹ ہسپتال نوشہرہ سے ریٹائر ہوگئے تھے لیکن انھوں نے اپنے نجی کلینک پر پریکٹس جاری رکھی۔
مقامی ڈاکٹروں کے مطابق ان میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو گئی تھی اور حالت خراب ہونے پر انھیں اسلام آباد لے جایا گیا تھا۔
ڈاکٹر اعظم کے بعد ڈاکٹر پھاگ چند دوسرے ڈاکٹر ہیں جن کا تعلق نوشہرہ سے ہے۔ خیبر پختونخوا میں اب تک پانچ ڈاکٹر اور ایک نرس اس وائرس میں مبتلا رہنے کے بعد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے رہنما ڈاکٹر احمد زیب کے مطابق صوبے میں اب تک 325 ڈاکٹرز اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ دیگر عملے کی تعداد اس سے بڑھ کر ہے۔
وزارت صحت کے 29 مئی کو جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں 249 ڈاکٹروں اور 97 نرسوں سمیت کل 552 ہیلتھ کیئر ورکزر اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں 10 ہسپتالوں میں داخل ہیں اور ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی گئی ہے کوئی بھی اس وقت وینٹیلیٹر پر نہیں ہے۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے رہنما ڈاکٹر احمد زیب نے بی بی سی کو بتایا کہ کل 326 ڈاکٹرز اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جن میں 100 خواتین ڈاکٹرز شامل ہیں اور ان میں 80 ڈاکٹرز وہ ہیں جو گائنی وارڈ میں تعینات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف پشاور میں 153 ڈاکٹروں میں یہ وائرس پایا گیا ہے جبکہ صوے کے دیگر تمام شہروں میں 173 ڈاکٹرز اس وائرس کا نشانہ بنے ہیں۔
فرنٹ لائن پر موجود عملے میں ڈاکٹرز نرسز اور دیگر طبی عملہ زیادہ وقت ان مریضوں کے ساتھ گزارتے ہیں جو کووڈ 19 وائرس سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کی حالت تشویشناک ہوتی جاتی ہے۔ فرنٹ لائن پر موجود دیگر عملہ جیسے پولیس ،امدادی کارکن، صحافی اور دیگر افراد بھی ان مریضوں کے قریبی تعلق میں ضرور آتا ہے لیکن وہ ایک محدود وقت کے لیے ہوتے ہیں۔
پنجاب میں بھی درجنوں ڈاکٹرز متاثر
کورونا وائرس کے وار فرنٹ لائن پر بر سر پیکار صوبہ پنجاب کے عملے پر بھی جاری ہیں اور وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 108 ڈاکٹروں اور 108 نرسوں سمیت 341 طبی عملے پر اس وائرس نے حملہ کیا ہے ان میں 117 ہسپتالوں میں قرانطینہ میں ہیں اور سب کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق صوبہ پنجاب میں اس وائرس سے ڈاکٹروں اور نرسوں سمیت طبی عملے کا کوئی ایک بھی فرد ہلاک نہیں ہوا جبکہ صوبہ پنجاب کے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ صوبہ پنجاب میں چھ ڈاکٹر اور دو نرسیں اس وائرس سے متاثر ہو کر جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملہ لاہور اور ملتان میں متاثر ہوئے ہیں۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے سربراہ ڈاکٹر عمار نے بتایا کہ دو نرسیں اور چھ ڈاکٹر اس وائرس سے انتقال کر چکے ہیں جن میں گنگا رام ہسپتال کی نرس اور ایک نرس کا تعلق گجرات سے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت طبی عملے کو مکمل حفاظتی سامان فراہم نہیں کر پائی اور اس کے علاوہ دنیا بھر کے سپتالوں میں جب او پی ڈی بند تھی پاکستان میں او پی ڈی کھول دی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے اس بارے میں کوئی ضابطہ کار بھی نہیں بنایا یعنی کوئی ایس او پیز جاری نہیں کی گئی تھیں جس سے طبی عملہ اس وائرس سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔

،تصویر کا ذریعہEPA
بلوچستان کا کیا حال ہے؟
کورونا وائرس کی عالمی وبا سے ہر ملک میں ڈاکٹر متاثر ہوئے ہیں لیکن ان علاقوں میں جہاں سہولیات یا بنیادی ضروریات کا فقدان رہا ہے وہاں طبی عملے کو زیادہ مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
صوبہ بلوچستان میں 173 ڈاکٹروں سمیت طبی عملے کے 237 افراد متاثر ہوئے ہیں اور ان سب نے خود ہی اپنے اپنے گھروں میں ہی خود کو قرنطینہ کر لیا تھا۔
وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں دو ڈاکٹر اس وائرس سے ہلاک ہوئے ہیں۔
بلوچستان کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں کسی حد تک ڈاکٹروں کو بنیادی ضروریات فراہم کی گئی تھیں لیکن صوبے کے دیگر پسماندہ علاقوں میں ڈاکٹروں کی حفاظت کے لیے انھیں کوئی سامان فراہم نہیں کیا گیا تھا۔ اس پر ڈاکٹروں نے احتجاج بھی کیا تھا جس کے بعد بنیادی سامان کی فراہمی شروع کر دی گئی تھی۔
وفاقی دارالحکومت میں بھی طبی عملہ محفوظ نہیں رہا
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز پمز اسلام آباد میں بڑی تعداد میں مریض پہنچنے کے بعد یہاں کے ڈاکٹر بھی وائرس سے محفوظ نہیں رہ سکے۔
وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں 84 ڈاکٹروں اور 46 نرسوں سمیت طبی عملے کے 185 افراد اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت میں ایک ڈاکٹر اس وائرس سے ہلاک ہو گئے تھے اور تین متاثرہ افراد اس وقت ہسپتالوں میں داخل ہیں جن کی حالت خطرے سے باہر بتائی گئی ہے۔

،تصویر کا ذریعہReuters
گلگت بلتستان
پاکستان میں کووڈ 19 فروری میں اس وقت سامنے آیا تھا جب ایران سے تفتان کے راستے کچھ افراد کراچی پہنچے تھے اور مارچ تک یہ وائرس ملک کے بیشتر علاقوں تک پھیل چکا تھا۔ اور اس وائرس سے کسی ڈاکٹر کی پہلی ہلاکت گلگت بلتستان سے رپورٹ ہوئی تھی۔
ڈاکٹر اسامہ ریاض کی عمر 26 سال تھی جب ان میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی اور 23 مارچ کو وہ انتقال کر گئے تھے۔
گلگت بلتستان میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 6 ڈاکٹروں اور دو نرسوں سمیت طبی عملے کے 42 افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں 20 کو ہسپتال میں آیسولیشن وارڈ میں رکھا گیا ہے اور سب کی حالت خطرے باہر ہے کوئی بھی وینٹیلیٹر پر نہیں ہے ۔ گلگت بلتستان میں دو ڈاکٹرز اس وائرس سے متاثر ہو کر جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کورونا وائرس سے متاثرہ طبی عملے کی تعداد سب کم رہی ہے اور یہاں سے اب تک طبی عملے کے کسی فرد کی ہلاکت نہیں ہوئی۔












