آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
اسلام آباد ہائیکورٹ کا ہاتھی کاون کی منتقلی کا حکم، امریکی گلوکارہ شیر حکومت پاکستان کی شکرگزار
اسلام آباد کی ہائی کورٹ نے شہر کے چڑیا گھر میں موجود ہاتھی کاون سمیت دیگر جانوروں کو دو ماہ کے اندر اندر محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مرغزار چڑیا گھر کی حالت پر اپنے تحریری فیصلے میں حکم دیا ہے کہ اس عمل کی نگرانی چیئرمین وائلڈ لائف کی سربراہی میں قائم کیا جانے والا بورڈ کرے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ چڑیا گھر میں ’کاون‘ نامی ہاتھی کو اذیت ناک حالات میں رکھا گیا ہے۔
عدالت نے محکمہ جنگلی حیات کے سربراہ کو حکم دیا ہے کہ وہ سری لنکا کے ہائی کمشنر کی مشاورت سے کاون کو ایک ماہ کے اندر مناسب پناہ گاہ میں منتقل کرنے کا انتظام کریں۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
خیال رہے کہ سنہ 2016 میں بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ کاون کو مناسب دیکھ بھال کے لیے کمبوڈیا وائلڈ لائف سینکچری کے حوالے کر دیا جائے مگر اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
اڑتیس سالہ کاون کو چھ سال کی عمر میں اسلام آباد چڑیا گھر میں لایا گیا تھا اور گذشتہ چند برس کے دوران اس کے بچاؤ کے لیے بین الاقوامی اور ملکی سطح پر مہم چلائی جاتی رہی ہے۔
اس مہم میں امریکی گلوکارہ شیر بھی پیش پیش رہی ہیں اور انھوں نے جمعرات کو عدالت کے فیصلے پر خوشی کا اظہار بھی کیا ہے۔
ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا ’میں حکومتِ پاکستان کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔‘
عدالت نے حکم نامے میں کہا ہے کہ مرغزار چڑیا گھر میں جانوروں کے لیے سہولیات کا فقدان ہے جس کے باعث جانور اذیت میں مبتلا ہیں جو کہ جنگلی حیات کے آرڈیننس کی خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے حکم دیا ہے کہ چڑیا گھر کے تمام جانوروں کو اندرونِ ملک یا ملک سے باہر پناہ گاہوں میں منتقل کیا جائے اور اس سلسلے میں وزارت موسمیاتی تبدیلی اور اسلام آباد کی انتظامیہ اور وائلڈ لائف بورڈ مل کر کام کریں۔
عدالت نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ بورڈ اس وقت تک چڑیا گھر میں کوئی نیا جانور نہیں رکھے گا جب تک کوئی نامور بین الاقوامی ایجنسی یا تنظیم جو چڑیا گھر سے متعلق معاملات میں مہارت رکھتی ہو، اس بات کی تصدیق کر دے کہ چڑیا گھر میں جانوروں کی ہر نوع کی معاشرتی اور جسمانی ضروریات پورا کرنے کے لیے سہولیات اور وسائل دستیاب ہیں۔
کاون کے حق میں فیصلہ آنے میں پانچ برس لگے
یہ سنہ 2015 کے وسط کی بات ہے۔ پاکستانی نژاد امریکی شہری ثمر خان اپنے اہلخانہ کے ہمراہ چھٹیاں گزارنے پاکستان آئی ہوئی تھیں۔ پاکستان میں ان کا تعلق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے ہے۔
بی بی سی کے نامہ نگار دانش حسین کے مطابق سنہ 2015 میں وہ اسلام آباد کے چڑیا گھر بھی گئیں جہاں انھوں نے دیکھا کہ پنجرے میں موجود کاون اپنے سر کو ادھر سے ادھر ہلا رہا ہے۔
چونکہ وہ ویٹرینری کی طالبہ تھیں تاہم انھیں یہ معلوم ہونے میں کچھ وقت نہ لگا کہ عموماً ہاتھی اپنا سر اس انداز میں اس وقت ہلاتے ہیں جب وہ ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔
امریکہ واپس جا کر انھوں نے ایک آن لائن پیٹیشن کا آغاز کیا جس میں انھوں نے کاون کی کیفیت کی بابت آگاہ کرتے ہوئے حکام سے درخواست کی کہ اسے چڑیا گھر سے نکال کر جانوروں کی کسی محفوظ پناہ گاہ پہنچایا جائے۔
یہ پہلی ایسی باقاعدہ کوشش تھی جس میں ہاتھی کو چڑیا گھر سے آزاد کرنے کی بات کی گئی تھی۔ اس سے قبل چڑیا گھر میں جانوروں کے لیے سہولیات کی کمی کی بات تو کی جاتی تھی مگر انھیں چڑیا گھر سے نکالنے کی نہیں۔
اس آن لائن پیٹیش پر دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے افراد نے دستخط کیے اور اب اس کے سپورٹرز کی تعداد چار لاکھ سے زائد ہے۔
اس پیٹیشن کے بعد جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے چند اداروں اور اسلام آباد کے شہریوں نے ہفتہ وار بنیاد پر چڑیا گھر کے سامنے مظاہرے کرنے شروع کیے اور کاون کو محفوظ پناہ گاہ بھیجنے کی درخواستیں کی جاتی رہیں۔
ابتدا میں ان مظاہروں کا انعقاد فریال گوہر اور سنیل جمیل نامی اسلام آباد کے نوجوانوں کی جانب سے ہوتا تھا اور سوشل میڈیا پر یہ نوجوان شہریوں کو مظاہروں میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شرکت کی دعوت دیتے تھے۔
ان مظاہرین سے سی ڈی اے کے افسران کی ملاقاتیں بھی رہیں تاہم سی ڈی اے انتظامیہ نے کاون کو محفوظ پناہ گاہ بھیجنے کے بجائے یہ مؤقف اختیار کیا کہ کاون میں ذہنی تناؤ اس کی مادہ کے نہ ہونے کے باعث ہے اور یہ کہ وہ سری لنکن حکام سے رابطے میں ہیں اور جلد ہی ایک نئی مادہ کو چڑیا گھر لایا جائے گا۔
چڑیا گھر کے سامنے کاون کے حق میں شہریوں کے مظاہروں کا سلسلہ لگ بھگ چھ ماہ جاری رہا۔ اس کے بعد گذشتہ پانچ برسوں کے دوران گاہے بگاہے کاون اور دیگر جانوروں کے لیے آواز اٹھائی جاتی رہی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں کاون کی حالت زار سے متعلق پیٹیشن دائر کرنے والے ایڈوکیٹ اویس اعوان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عدالت کے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
بی بی سی کی نامہ نگار سارہ عتیق بتاتی ہیں کہ سنہ 2017 میں جب امریکی سنگر شیر کے نمائندہ مارک پاکستان آئے تھے تو انھوں نے کاون کی بگڑتی ذہنی صحت پر توجہ دلانے کے لیے ایک پریس کانفرنس کی تھی۔
سارہ بتاتی ہیں کہ اس پریس کانفرنس کو کوور کرنے کے لیے وہ بھی وہاں پر موجود تھیں اور تمام صحافیوں کے جانے کے بعد چڑیا گھر اتنظامیہ نے انھیں اور مارک کو کاون کے جنگلے کے اندر جانے دیا جہاں پر کاون کو زنجیروں میں جکڑا اور دیوار سے اپنا سر مارتے پایا گیا، جو اس بات کی عکاسی کرتا تھا کہ وہ کس قدر ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔
بی بی سی کی نامہ نگار فرحت جاوید نے بھی ہمیں بتایا کہ سنہ 2013 میں انھوں نے اسلام آباد کے چڑیا گھر میں ایک ہتھنی ’سہیلی‘ کی موت پر ایک رپورٹ بنا کر اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز کیا تھا۔
فرحت بتاتی ہیں کہ انھیں چڑیا گھر کے عملے کے ایک رکن نے بتایا تھا کہ کاون اکیلا تھا اس لیے چڑیا گھر میں سہیلی لائی گئی تھی۔
فرحت کے مطابق بعد میں دیکھا گیا کہ کاون کو باندھنے کے لیے زنجیریں لائی گئیں۔
’یہ ایک نہایت تکلیف دہ منظر تھا جب کاون کو باندھا گیا۔ میں کافی دیر وہیں رہی اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے کاون بہت تکلیف میں ہے۔‘
اسی دن وہاں موجود ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فرحت جاوید کو بتایا کہ کاون سمیت ہر نر ہاتھی غصیلہ ہوتا ہے اور انھیں قابو میں رکھنے کے لیے دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ان کے لیے سری لنکا سے مخصوص شراب درآمد کی جاتی ہے۔ مگر کاون کے لیے آنے والی شراب یا تو بیچ دی جاتی ہے اور باقی حصہ محکمے کے افراد استعمال کر لیتے ہیں۔