آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
احساس پروگرام کے تحت مالی معاونت: کیا بیروزگاری کے باعث وطن لوٹنے والوں کی امداد کی جائے گی؟
- مصنف, سحر بلوچ
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
وزیرِ اعظم کی معاونِ خصوصی برائے سماجی تحفظ اور احساس کیش پروگرام کی سربراہ ثانیہ نشتر نے کہا ہے کہ خلیجی ممالک سے نوکریاں ختم ہونے کے باعث وطن لوٹنے والوں کو احساس پروگرام میں شامل کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے اور اس بارے میں حتمی فیصلہ پاکستان کی وفاقی کابینہ کرے گی۔
حال ہی میں وزارت برائے بیرونِ ملک پاکستانی کی جانب سے خلیجی ممالک سے کورونا وائرس کے باعث وطن واپس لوٹنے والے اُن پاکستانیوں کے اعداد و شمار بتائے جن کی نوکریاں ان ممالک میں ختم ہو چکی ہیں۔
ان اعداد و شمار میں سے صرف پانچ خلیجی ممالک سے لوٹنے والوں کی کُل تعداد 20 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے احساس کیش پروگرام میں ان پاکستانیوں کو بھی شامل کیا جائے گا؟
یہ بھی پڑھیے
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ ’ایمرجنسی کیش ٹرانسفر میں اور بھی بہت لوگ آ سکتے ہیں۔ ہمیں بہت ساری درخواستیں مختلف وزارتوں سے موصول ہو رہی ہیں جو چاہتے ہیں کہ ان کو اس فہرست میں شامل کیا جائے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
’ہم ہر فہرست کو اپنے اصولوں کے مطابق پرکھ رہے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ موجودہ پروگرام تین حصوں میں بٹا ہوا ہے جو عید کے بعد ختم ہو جائے گا لیکن نچلے طبقے کے افراد کی مالی مدد کا عمل چلتا رہے گا۔
اس کے بعد اگر حکومت کو ضرورت محسوس ہوتی ہے تو مزید لوگوں کو شامل کیا جا سکتا ہے۔
احساس کیش پروگرام کیا ہے اور اس سے کن لوگوں کی مدد ہو گی؟
حال ہی میں اجرا ہونے والے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کو 144 ارب روپے کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ اس پروگرام کے ذریعے ایسے لوگوں کی مالی معاونت کی جائے گی جن کی نوکریاں کورونا وائرس کی وبا کے باعث متاثر ہوئی ہوں۔
ثانیہ نشتر نے بتایا کہ اس پروگرام کے ذریعے ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں تک پہنچا جائے گا جن میں فی خاندان 12 ہزار روپے مختلف درجہ بندیوں کے تحت بانٹے جائیں گے۔
ان لوگوں میں دیہاڑی پر کام کرنے والے اور مزدور سرِفہرست ہیں۔
ثانیہ نشتر نے کہا کہ پاکستان لیبر فورس سروے کے مطابق دو کروڑ 40 لاکھ ایسے لوگ ہیں جو یا تو دیہاڑی پر یا پَر پیِس ریٹ کماتے ہیں۔ ان دو کروڑ 40 لاکھ افراد کا روزگار کورونا وائرس کی وجہ سے بہت بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ گذشتہ مردم شماری میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ایگ گھر میں تقریباً چھ اعشاریہ پانچ افراد ہوتے ہیں تو اس طرح اگر اندازہ لگایا جائے تو یہ تعداد ملک کی آبادی کا دو تہائی بنتی ہے یعنی 16 کروڑ سے زیادہ ایسے لوگ ہیں جن کا گزر بسر دیہاڑی اور پَر پیِس ریٹ پر ہوتا ہے۔
کن درجہ بندیوں کے تحت مالی معاونت کی جائے گی؟
ان درجہ بندیوں میں کفالت پروگرام کے تحت 45 لاکھ موجودہ صارفین کو ماہانہ دو ہزار روپے کے ساتھ ساتھ اگلے چار ماہ کے لیے ایک ہزار روپے کی اضافی رقم دی جائے گی۔
دوسرے درجے میں شامل ہونے والے افراد کو 12 ہزار روپے کی ماہانہ رقم یک مُشت ادا کی جائے گی۔
اس کے علاوہ ایس ایم ایس مہم شامل ہے۔ جس کے ذریعے لوگ 8171 پر ایس ایم ایس بھیج کر پروگرام میں شامل ہونے کی اپنی اہلیت جان سکیں گے۔
جو لوگ اہل ہوں گے انھیں ایس ایم ایس کے ذریعے رقم وصول کرنے کی اطلاع دی جائے گی۔
اندازاً 40 لاکھ افراد قومی و سماجی اعداد و شمار کے ذریعے اور 35 لاکھ افراد ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے شامل کیے جائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ جن لوگوں کے کوائف کی تصدیق قومی سماجی و معاشی سروے کے ذریعے نہیں ہو سکے گی ان کو ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کرنے کا کہا جائے گا اور ضلعی انتظامیہ سے تصدیق شدہ افراد کو ہی شامل کیا جائے گا جبکہ ان تمام افراد کی تصدیق نادرہ کی مدد سے کی جائے گی۔
یہ رقم لوگوں تک کیسے پہنچائی جائے گی؟
ثانیہ نشتر نے کہا کہ ’اس کے لیے ہم نے نادرا اور بینکوں سے تعاون مانگا ہے جس کے ذریعے لوگ بایومیٹرک نظام کے تحت اپنی رقوم وصول کر سکیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک منظم نظام لانے اور اس کو باقاعدگی سے چلانے کی ضرورت ہے۔
لیکن اسی طرح کا ایک نظام بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام بھی تھا جو موجودہ حکومت میں تبدیل کیا گیا۔ ایک موجودہ نظام کو ختم کر کے اسی طرز کے نئے نظام کو متعارف کروانا کتنا آسان یا مشکل تھا؟
اس بارے میں ثانیہ نشتر نے کہا کہ سب سے پہلے تو یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام کو تبدیل نہیں کیا گیا ہے۔ بِسپ ویسے ہی ایک حکومتی ادارہ ہے جیسے پی ٹی اے اور اوگرا ہے۔
انھوں نے کہا کہ لوگ اس لیے پریشانی کا شکار ہیں کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ بِسپ کا نام تبدیل کرکے احساس رکھ دیا گیا ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ جو لوگ پالیسی اور حکمتِ عملی کو سمجھتے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ احساس ایک حکمتِ عملی کے تحت کام کر رہا ہے۔
کیا حکومت احساس پروگرام کو لمبے عرصے کے لیے چلانا چاہتی ہے؟
تاحال جاری ایمرجنسی کیش پروگرام عید کے بعد ختم ہو جائے گا۔
ثانیہ نے کہا کہ ’اگر آپ اس پروگرام کی بات کریں تو وہ ایک دفعہ کی گرانٹ ہے۔ وزیرِ اعظم کے کہنے پر ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں کو دیا گیا لیکن اس کے علاوہ ہمارا جو موجودہ کیش ٹرانسفر کا کام ہے، جس میں معاشی طور پر سب سے نچلے طبقے کے افراد شامل ہیں وہ جاری رہے گا اور اس بارے میں نئی رجسٹریشن جاری ہے۔‘
دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وبا اور اس سے منسلک صورتحال بہت جلد ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اس صورت میں اس کیش پروگرام کا مستقبل کیا ہوگا؟
’ایمرجنسی کیش میں اور لوگ بھی آسکتے ہیں۔ لیکن جن لوگوں کو ہم نے رقم دی ہے کیا انھیں ایک اور مرحلے میں رقم دینا ہے یا نہیں، لاک ڈاؤن کا اثر کب تک رہتا ہے اور اس کے نتیجے میں کیا مزید رقم دینا بنتا ہے، کیا کوگوں کے روزگار تب تک بحال ہو جائیں گے یا نہیں۔ یہ سب پالیسی بحث اور اس کے نتیجے میں ہونے والے فیصلوں کا نتیجہ ہے۔
ثانیہ نے کہا کہ اس وقت وکلا اور اخبار ایسوسیشن کے نمائندے بھی اس کیش پروگرام میں شامل ہونا چاہ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس پر فیصلہ کرنا کابینہ کا استحقاق ہے۔
مالی معاونت کے گرانٹ کی یہ رقم کہاں سے آرہی ہے؟
ثانیہ نے بتایا کہ اس وقت کورونا ریلیف فنڈ کے ذریعے ایک کھرب کے پیکج میں سے احساس پروگرام کے لیے 144 ارب روپے کا پیکج انھیں ملا تھا۔
جس کے ذریعے ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں کو رقم دی جا رہی ہے اور صرف احساس ہی نہیں بلکہ اس سے منسلک دیگر پروگرام کو بھی کورونا وائرس کے تناظر میں دیکھنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’جیسے ہمارا بلا سُود قرضے کا پروگرام، احساس آمدن پروگرام، سکالرشپ پروگرام یا احساس لنگر اور راشن ہے۔ ان تمام پروگرامز کو اب ہمیں نئے سِرے سے تشکیل دینا ہے۔‘
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ثانیہ نشتر کی برقعے میں تصویر کے پیچھے کیا وجہ تھی؟
حال ہی میں ثانیہ نشتر کی برقعے میں ملبوس ایک تصویر پر سوشل میڈیا پر خاصی بحث ہوئی کہ آیا اُن کا اس طرح سے کسی محکمے میں جانا صحیح ہے یا نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’زیادہ تر وزرا پلان کے تحت محکموں کا چکر لگاتے ہیں اور ایسے دوروں میں جو چیز بظاہر دکھ رہی ہوتی ہے ویسی دراصل ہوتی نہیں۔
’میں نے چھپ کر وہاں پہنچنے کی کوشش کی لیکن میرے پہنچنے سے پہلے ہی اس محکمے میں لوگوں کو کسی طرح پتا چل گیا تھا کہ میں آ رہی ہوں۔‘