کورونا وائرس: پاکستان میں آبادیوں کے اندر قرنطینہ مراکز بنانے پر مقامی لوگ ناخوش

تفتان سے پنجاب آنے والے زائرین کے لیے بہاولپور میں قرنطینہ سنٹر بنانے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے بہاولپور بنچ کی جانب سے حکم امتناعی جاری کر دیا گیا ہے۔
پاکستان میں ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان سے روانہ ہونے والے زائرین جب اپنے علاقوں میں لوٹے تو کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا جس کے باعث وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بیماری کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ملک کے کئی حصوں میں قرنطینہ مراکز قائم کیے ہیں۔
بذریعہ تفتان ایران سے پاکستان پہنچنے والے زائرین کو چودہ روز کا قرنطینہ مکمل کرنے کے بعد ان کے صوبوں کی طرف روانہ کیا جا رہا ہے۔ جہاں انہیں ایک مرتبہ پھر صوبائی حکومتوں کی جانب سے قرنطینہ میں رکھا جائے گا۔ جس کے لیے صوبائی حکومتوں نے مختلف شہروں میں قرنطینہ سنٹر قائم کیے ہیں۔
پنجاب کے قرنطینہ سنٹر پر شہریوں کی مزاحمت
بی بی سی کی نامہ نگار ترہب اصغر کے مطابق حکومت پنجاب نے تفتان سے آنے والے زائرین کو ایک مرتبہ پھر سے قرنطینہ کرنے کے لیے بہالپور سمیت ڈی جی خان اور ملتان شہر کا انتخاب کیا۔ حکومت پنجاب کی جانب سے فی الوقت 777 زائرین کو ڈی جی خان کے مختلف قرنطینہ مراکز میں رکھا گیا ہے۔ جبکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزید 1177 زائرین کو قرنطینہ میں رکھنے کے لیے بہاولپور میں انتظامات کیے گئے تھے۔ جس پر شہریوں نے اپنے اعتراضات اٹھائے اور تشویش کا اظہار کیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی 15 مارچ کی ویڈیو میں ایک شخص کو پریس کانفرس کے دوران یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ 'تحریک انصاف کا ورکر ہونے کی وجہ سے لوگ ہم پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ یہ حکومت کیا کر رہی ہے۔ جبکہ ہمارے لیڈر ہمارا فون نہیں اٹھا رہے ہیں۔ حکومت ہمیں بتائے کہ ہم کس کے پاس جائیں اور کس کے آگے روئیں؟‘

،تصویر کا ذریعہJamal Tarakai
جس کے بعد صدر بہاولپور بار ایسوسی ایشن راجہ سہیل کی جانب سے کورٹ میں پٹیشن دائر کی گئی جس میں شہریوں کے خدشات اور نامکمل حکومتی انتظامات کا ذکر کیا گیا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے صدر بہاولپور بار ایسوسی ایشن راجہ سہیل کا کہنا تھا کہ ’انتظامیہ نے زائرین کو قرنطینہ میں رکھنے کے لیے بہاولپور میں چھ ہاسٹل خالی کروائے ہیں۔ جس میں چار لڑکیوں اور دو لڑکوں کے ہاسٹل شامل ہیں۔ جس پر تمام شہری پریشان ہیں کہ شہر کے اندر قرنطینہ سنٹر بنانے سے یہ وبا شہر میں پھیل سکتی ہے کیونکہ بہاولپور میں ابھی ایک بھی کورونا وائرس کا مریض موجود نہیں ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ قرنطنیہ سنٹر شہر کے بیچ و بیچ اسلامیہ یونیورسٹی میں بنائے جا رہے ہیں جہاں قریب ہی یونیورسٹی پروفیسروں سمیت دیگر شہریوں کے گھر ہیں۔ اسی وجہ سے کئی شہریوں نے ہم سے رابطہ کیا اور اپنے خدشات سے آگاہ کیا۔ جس کے بعد ہی ہم نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے میں ہم عدالت سے رجوع کریں گے۔
صدر بہاولپور بار ایسوسی ایشن راجہ سہیل کے مطابق ’انتظامیہ یا حکومت کی جانب سے شہر کے لوگوں کو نہ تو آگاہ کیا گیا اور نہ ہی ہمیں اعتماد میں لیا گیا۔ ایک کمیٹی بنائی گئی اور کمشنر بہاولپور کو عدالت نے حکم دیا تھا کہ شہریوں کو حکومت کے اس فیصلے پر مطمئن کریں۔ جس پر وہ ہمیں مطمئن نہیں کر سکے۔‘
عدالت نے کمشنر صاحب کو دو سے تین مرتبہ وقت دیا کہ معاملات کو حل کریں اور ہمیں بتائیں کہ آپ کتنے مریضوں کو لے کر آئیں گے؟ کتنی حفاطتی کٹس ہیں آپ کے پاس؟ علاج کے لیے ادویات اور آلات اور انتظامات کی تفصیل کے بارے میں بتائیں تاہم کمشنر صاحب تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔
ترجمان پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کئیر کے مطابق عدالت کے اس حکم کے بعد حکومت قرنطینہ کے لیے کوئی متبادل جگہ بھی دیکھ رہی ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
بلوچستان کی صورتحال
صوبہ پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں بھی آبادی کے قریب قرنطینہ مرکز بنانے پر صوبائی حکومتوں کو عوام کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
بی بی سی کے نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق افغانستان سے متصل بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں بھی کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر ایک بڑا قرنطینہ سینٹر قائم کیا جا رہا ہے۔
ایران میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد یہ بلوچستان میں خیموں پر مبنی تیسرا بڑا قرنطینہ مرکز ہوگا۔ اس سے قبل ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان اور کوئٹہ شہر کے قریب ہزار گنجی میں قرنطینہ سینٹر قائم کیے گئے تھے۔
اس قبل تفتان میں بنائے جانے والے قرنطینہ سینٹر کے حوالے سے بلوچستان حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔
جبکہ سندھ اور وفاقی حکومت کے بعض حکام کا یہ کہنا ہے کہ تفتان میں لوگوں کو غیر محفوظ طریقے سے رکھا گیا تھا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اس کے بارے میں جب بلوچستان میں پی ڈی ایم اے کے ترجمان فیصل نسیم پانیزئی سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ چمن میں لوگوں کو الگ الگ خیموں میں رکھنے کے لیے انتظامات کیے جارہے ہیں۔ جبکہ چمن میں قرنطینہ سنٹر میں ایک ہزار سے زائد افراد کی گنجائش ہوگی۔
تاہم انھوں نے اس بات کی تردید کی کہ تفتان یا ہزار گنجی میں انتظامیہ نے لوگوں کو اکٹھا رکھا تھا اور کہا کہ الگ الگ انتظامات کے باوجود لوگ خود اکٹھے ہو جاتے تھے۔
کوئٹہ شہر میں پرانے قائم حاجی کیمپ کو نذر آتش کیا گیا ہے جس کے باعث اس کے مختلف حصے بری طرح سے متائر ہوگئے ہیں۔ جس عمارت کو نذر آتش کیا گیا ہے وہ نئے حاجی کیمپ سے متصل ہے۔ متاثرہ عمارت کو اس وقت دیہی ترقیاتی اکیڈمی کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ پولیس کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ اسے ان بلوائیوں نے نذرآتش کیا ہے جو کہ اسے قرنطینہ بنانے کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ سینئر اہلکار نے بتایا کہ اس واقعہ کا مقدمہ خروٹ آباد پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا ہے جس میں ویڈیو میں نظر آنے والے بلوائیوں کے علاوہ نامعلوم افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔
بعض عینی شاہدین نے بتایا کہ آگ کی وجہ سے عمارت زیادہ متاثر ہوئی ہے اور یہ رہنے کے قابل نہیں ہے تاہم سینئر پولیس اہلکار کے مطابق یہ معمولی متاثر ہوئی ہے۔ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ چونکہ حاجی کیمپ میں سہولیات زیادہ ہیں اس لیے حکومت اسے قرنطینہ مرکز میں تبدیل کرنا چاہتی ہے تاکہ اس میں لوگوں کو زیادہ اور بہتر سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
متاثرہ عمارت کہاں واقع ہے؟

،تصویر کا ذریعہJamal Tarakai
دیہی ترقیاتی اکیڈمی (پرانا حاجی کیمپ) اور اس کے ساتھ نیا حاجی کیمپ کوئٹہ شہر کے مغرب میں جبل نورالقرآن کے قریب واقع ہیں۔
اس عمارت کے چاروں اطراف میں رہائشی علاقے ہیں۔ حکومت نے اس عمارت کو عارضی طور پرمرکز بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور اس مقصد کے لیے تیاریاں جاری تھیں۔ خروٹ آباد ، پشتون باغ اور گرد و نواح کے دیگر آبادیوں کے لوگوں نے اس منصوبے کے خلاف منگل اور بدھ کی درمیانی شب سے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تھا اور انھوں نے اس علاقے سے کوئٹہ اور چمن کے درمیان مغربی بائی پاس کو بند کیا تھا۔
احتجاج کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ سینٹر کسی ایسے علاقے میں بنائے جائیں جہاں آبادی نہ ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ زائرین کی بڑی تعداد کو اس میں منتقل کرنے سے کورونا وائرس قرب و جوار کی آبادیوں میں پھیل جائے گا ۔ جبکہ احتجاج کرنے والوں کا یہ موقف ہے کہ اگر اس بڑی آبادی متائثر ہوئی تو حکومت ان کا علاج کیسے کرے گی جبکہ یہاں ہسپتالوں میں زکام اور دیگر معمولی بیماریوں کے لیے علاج معالجے کی صحیح سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔
اس سے قبل کوئٹہ میں میاں غنڈی کے لوگوں نے وہاں سینٹر قائم کرنے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ اس وقت میاں غنڈی میں قائم کوارنٹین سینٹر میں 417 زائرین سمیت پانچ سو افراد کو رکھا گیا ہے۔ اس سینٹر میں مقیم لوگ بھی سردی میں مطلوبہ سہولیات کے فقدان کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اس کے علاوہ بلوچستان کے شہر ماشکیل جو ایران سے متصل سرحدی شہر ہے اور ضلع واشک کا حصہ ہے ۔وہاں سے تعلق رکھنے والے بلوچستان اسمبلی کے رکن ضابط ریکی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس علاقے میں لوگوں کی سکریننگ کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے۔ جبکہ منگل کو بھی ایران سے تین چار لوگ ماشکیل آئے تھے جن میں سے ایک شخص بازار میں گرگیا۔ ان کا کہنا تھا کہ معلوم نہیں وہ کس مرض میں مبتلا تھا لیکن اس سے بازار میں خوف و ہراس پھیل گیا اور لوگوں نے دکانیں بند کر دیں۔
رکن اسمبلی نے کہا کہ ان کی درخواست پر وہاں کے کمپاﺅنڈر نے اس شخص کو بنیادی مرکز صحت منتقل کیا لیکن ان کے پاس اس کے علاج کے لیے کچھ نہیں تھا اور نہ ہی کہیں اور منتقل کرنے کے لیے درست حالت میں کوئی ایمبولینس۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ ماشکیل میں ایران سے آنے والے افراد کی مانیٹرنگ اور سکریننگ کا انتظام کیا جائے تاکہ علاقے میں کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکا جاسکے ۔
خیبر پختونخواہ میں احتجاج
بی بی سی کے نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق خیبر پختونخوا کو بلوچستان سے ملانے والی شاہرہ آج دو دن بعد احتجاج کے بعد ٹریفک کے لیے کھول دی گئی۔ جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درازندہ میں مقامی افراد تفتان سے کورونا وائرس کے متاثرہ افراد کو لانے پر احتجاج کر رہے تھے۔ اس احتجاج میں مقامی افراد بڑی تعداد میں شامل تھے اور دو روز تک روڈ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا تھا۔ آج مقامی انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد احتجاج ملتوی کر دیا گیا اور روڈ ٹریفک کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔

انتظامیہ نے مقامی افراد کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان پندرہ افراد کے بعد مزید متاثرہ افراد کو درازندہ نہیں لایا جائے گا جبکہ ان پندرہ افراد کی چودہ روز کی مدت مکمل ہونے کے بعد انھیں اپنے اپنے علاقوں کو روانہ کر دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ انتظامیہ نے ہسپتال میں، جہاں قرنطینہ قائم کیا گیا ہے، جراثیم کش ادویات سے مکمل صفائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ تفتان سے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درازندہ انیس افراد منتقل کیے گئے تھے جن میں سے 15 افراد میں وائرس کی تصدیق ہو گئی تھی اور ان افراد کو درازندہ کے ہسپتال میں رکھا گیا ہے۔
درازندہ کا علاقہ صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی شہر ڈیرہ اسماعیل سے کوئی 60 کلومیٹر دور مغرب میں واقع ہے۔ قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے پہلے یہ نیم قبائلی علاقہ یعنی ایف آر ڈی آئئ خان کہلاتا تھا۔ اس کے علاوہ اب خیبر پختونخواہ حکومت نے ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں واقع گومل میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں صوبے کا سب سے بڑا قرنطینہ سنٹر قائم کر دیا ہے۔ اس ہاسٹل میں بڑی تعداد میں کمرے ان متاثرہ افراد کے لیے مختص کیے ہیں جہاں تفتان سے مزید کوئی 200 سے زیادہ افراد کو لایا جائے گا۔
اس ہاسٹل کے طلبا نے بھی اس بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا جبکہ مقامی سطح پر بھی اس بارے میں نا پسندیدگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ مقامی انتظامیہ نے طلبا کے کمروں سے سامان دوسری جگہ منتقل کر کے تمام کمرے تفتان سے آنے والے افراد کے لیے خالی کرا دیے ہیں۔ صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا نے ٹوئٹر پر اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ یہ ایک مشکل گھڑی ہے اور اس وقت ہم کو متحد رہنا ہے اور اس وائرس کے خلاف ہم نے لڑنا ہے اس کے لیے حکومت کا ساتھ دینا ضروری ہے۔
گومل میڈیکل کالج ڈیرہ اسماعیل خان میں اسی روڈ پر واقع ہے جو خیبر پختونخوا کو بلوچستان سے ملاتی ہے۔ اس کالج کے ساتھ مفت محمود ٹیچنگ ہسپتال واقع ہے جہاں حکومت کے مطابق تمام سہولیات فراہم کر دی گئی ہیں۔











