کشمیر: عام پاکستانی یومِ کشمیر پر کیا ہی کر سکتا ہے؟
پاکستان بھر میں آج یومِ یکجہتی کشمیر منایا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ گذشتہ 30 برسوں سے چلا آ رہا ہے لیکن اہتمام کے طریقے بدل گئے ہیں۔
مارچ اور ریلیاں تو پہلے بھی نکلتی تھیں لیکن اس بار تو مرکزی شاہراؤں پر بینرز نصب کیے گئے، ہاتھ میں ہاتھ دے کر انسانی کڑیاں بنائی گئیں، اور تو اور آئی ایس پی آر نے خصوصی گانا بھی جاری کر دیا۔

سب سے دلچسپ تھے گوگل ٹرینڈز۔۔۔ کسی نے کشمیر ڈے کے واٹس ایپ سٹیٹس گوگل کیے، کوئی کشمیر کے جھنڈے کا متلاشی تھا تو اور کسی کو کشمیر ڈے کے حوالے سے نئی ڈسپلے پکچر چاہیے تھی۔

،تصویر کا ذریعہGoogle Trends
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہنگامی حالات کے باوجود یومِ یکجہتی کشمیر منانے کے رویے میں خاصی تبدیلی نہیں آئی۔ لیکن عوام اظہارِ یکجہتی اور کرے بھی کو کیسے؟
خیر صرف عوام ہی نہیں بلکہ حکومتی سطح پر بھی حال کچھ ایسا ہی ہے۔ منگل کو پریزائڈنگ افسر نے سینیٹ کا اجلاس کشمیر سے اظہار یکجہتی کے لیے متفقہ قرارداد کو پیش کرنے سے پہلے ہی ملتوی کر دیا۔ یاد آنے پر اجلاس کچھ دیر بعد دوبارہ بلایا گیا اور قرارداد منظور کی گئی۔ مگر اس قرارداد کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
یومِ یکجہتیِ کشمیر کا مقصد کیا؟ خانہ پُری؟
اس سوال کے جواب میں صحافی نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ 'حکومت کے پرانے طریقے ہیں جن کا کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن اس دن پورے پاکستان میں ایک احساس ہوتا ہے کہ یہ ایک مسئلہ ہے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ ہم کشمیر پر جو بات کر رہے ہیں اس کا مواد کیا ہے؟‘
وہ کہتی ہیں کہ لوگوں کے جو جذبات حکومت تک پہنچ رہے ہیں وہ کسی پالیسی کا حصہ نہیں بن رہے۔
یومِ یکجہتی کشمیر منانے کے بارے میں تجزیہ نگار راجہ قیصر کا خیال ہے کہ پانچ اگست کے بعد سے حالات کی سنگینی اس چیز کی متقاضی ہے کہ ہمیں کچھ حقیقی اقدام اٹھانے کی ضرورت ہیں۔ کشمیریوں سے علامتی یکجہتی کوئی موثر حکمتِ عملی نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب نئے بیانیے کی ضرورت ہے جو ان زمینی حقائق کا جواب دے جنھیں مودی نے بدلا ہے۔‘
ہر سال بات ہوتی ہے تو آگے کیوں نہیں بڑھتی؟
’ایسا کوئی عمل نہیں ہے جس سے مسئلہ کشمیر فوری طور پر حل ہو جائے‘، نسیم زاہرہ
اس سوال کے جواب میں کہ اگر مسئلہ کشمیر پر ہر سال بات ہوتی ہے تو سوشل میڈیا پر تنقید کیوں، راجہ قیصر کہتے ہیں 'آج تک جب بھی کشمیر کے حوالے سے بات کی گئی تو کشمیر کے حوالے سے بات کی گئی کشمیریوں کے حوالے سے نہیں کی گئی، اسے کشمیریوں کا مسئلہ نہیں سمجھا جاتا۔'
ان کے مطابق کشمیر کو انفرادی اور انتظامی اختیارات دے کر سیاسی طور پر بااختیار بنانے کی ضرورت ہے اور اس پر یقین کریں کہ وہ دنیا کے سامنے اپنے مسئلے کو خود لے کر جائیں تو یہ زیادہ موثر ہو گا نہ کہ پاکستان اپنی طرف سے پیش کرے۔
سوشل میڈیا ردِعمل
پاکستانی عوام کسی بھی موقع پر سوشل میڈیا پر اپنی رائے دینے سے نہیں کتراتے۔ ٹوئٹر صارف کلیم جویا نے کشمیر سے متعلق اپنے خیالات کے اظہار کرنے کے لیے ایک شعر کا انتخاب کیا۔

،تصویر کا ذریعہTwitter/KaleemJoyia
آئی ایس پی آر نے یومِ یکجہتی کشمیر کے موقع پر گانا نکالا جسے کچھ صارفین نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ صارف ندیا اطہر نے ٹویٹ کیا ’آج کشمیر ڈے ہے۔ ہم نے ایک نیا ملی نغمہ ریلیز کر کے سال بھر کے لیے اپنا فرض پورا کر دیا ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہTwitter/Naddiyyaathar
ایک اور ٹوئٹر صارف فانی لکھتے ہیں کہ ’خدا کی قسم اس طرح کی یکجہتیوں سے کشمیر آزاد نہیں ہو سکتا۔‘

،تصویر کا ذریعہTwitter/Hazbullah522
یومِ یکجہتیِ کشمیر کی تاریخ کیا ہے؟
کل جماعتی حریت کانفرنس کے مرکزی رہنما سید یوسف نسیم کے مطابق پاکستان میں اس دن کو منانے کا تعلق انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں سنہ 1990 میں شروع ہونے والی عسکری تاریخ سے ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت کے امیر جماعتِ اسلامی قاضی حسین احمد نے سنہ 1990 میں پہلی دفعہ یہ مطالبہ کیا کہ کشمیریوں سے تجدیدِ عہد کے لیے ایک دن مقرر کیا جائے۔
قاضی حسین احمد کے مطالبے کو نہ صرف پنجاب، وفاق، بلکہ باقی صوبوں نے بھی اہمیت دی اور پہلی مرتبہ یہ دن 5 فروری 1990 کو منایا گیا اور اس وقت سے اب تک یہ دن منایا جاتا ہے۔
پانچ فروری ہی کیوں؟
یوسف نسیم کے مطابق جماعت اسلامی نے سنہ 1990 میں اپنے قائدین کی ایک میٹنگ بلائی۔ 'اس نشست میں یہ مشورہ سامنے آیا کہ اس مقصد کے لیے ایک دن مقرر کیا جائے۔ کیلنڈر کو دیکھا گیا اور میٹنگ میں یہ فیصلہ ہوا کہ پانچ فروری کا دن مناسب رہے گا۔'
’شاید اس وقت انھیں اندازہ نہ تھا کہ آئندہ آنے والے برسوں میں یہ دن ایک تہوار کی شکل اختیار کر جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا چونکہ مقصد نیک تھا تمام لوگ مان گئے اور پہلی بار 5 فروری 1990 کو یہ دن منایا گیا۔ اور بعد ازاں ہر سال یہ دن منایا جاتا ہے۔
'تمام پارٹیاں شاید اس لیے بھی مان گئیں کہ کشمیر کے مسئلے کو پاکستان میں ہمیشہ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر دیکھا جاتا ہے۔'
انٹرنیٹ پر ایک نظر دوڑائی جائے تو یہ اندازہ تو ہو جاتا ہے کہ پاکستانی عوام نے یکجہتی کا اظہار کرنے کے نت نئے طریقے نکال لیے ہیں مگر اس سے زیادہ کیا بھی کیا ہی جا سکتا ہے۔









