آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
عمران خان: اداروں کے تصادم کے خواہشمندوں کے لیے مایوسی کا دن ہے
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ آج کا دن ان عناصر کے لیے مایوسی کا باعث بنا ہو گا جو ملک کو اداروں کے درمیان تصادم کے ذریعے غیر مستحکم ہوتا دیکھنا چاہتے تھے۔
ان کی جانب سے یہ بیان پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو چھ ماہ کی مشروط توسیع دیے جانے کے بعد ٹوئٹر پر سامنے آیا ہے۔
ادھر حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اور ان کے وزرا کے بیانات سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اپوزیشن اور حکومت میں اس معاملے پر ڈیڈ لاک ہو جائے۔
عمران خان نے کہا کہ اداروں میں تصادم ہو نہ سکا اور یہ ہمارے بیرونی دشمنوں اور اندرونی مافیا کے لیے یقیناً باعثِ مایوسی ہو گا۔
ٹوئٹر پر اپنی سلسلہ وار ٹویٹس میں عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ وہ مافیا ہیں جنھوں نے اپنا لوٹا ہوا مال بیرون ملک چھپایا ہوا ہے اور اس لوٹے ہوئے مال کو بچانے کے لیے ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پاکستان کی تاریخ کے بہترین قانونی ماہرین میں سے ایک ہیں اور وہ ان کی دل سے عزت کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ عمران خان ماضی میں بطور اپوزیشن رہنما سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کی کھل کر مخالفت کرتے رہے تھے اور انھوں نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ افراد اہم نہیں ہوتے بلکہ اداروں کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ نے جمعرات کو اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ حکومت فوج کے سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع یا ان کی دوبارہ تقرری کے بارے میں چھ ماہ میں قانون سازی کرے اور عدالت چھ ماہ بعد اس معاملے کا دوبارہ جائزہ لے گی۔
'اپوزیشن کیا کرے گی یہ بعد کی بات ہے‘
عدالت کے اس حکم پر اس بحث نے بھی جنم لیا ہے کہ اس معاملے پر حکومت کو دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کرنا ہو گی اور تحریکِ انصاف کی حکومت کا اپوزیشن کے ساتھ پارلیمان میں ٹریک ریکارڈ اس سلسلے میں اچھا نہیں۔
اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر الزمان کائرہ کا کہنا ہے کہ حکومت کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا اور 'اپوزیشن کیا کرے گی یہ بعد کی بات ہے، حکومت کیا کر رہی ہے اور کیا کرے گی اصل معاملہ یہ ہے۔'
انھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عمران خان اور ان کے وزرا کی ٹویٹس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم اور ان کے وزرا کے ٹویٹس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اپوزیشن اور حکومت میں ڈیڈ لاک ہو جائے۔
’ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم یہ چاہتے ہیں کہ یہ بحران پیدا ہو بلکہ شاید انھوں نے جان بوجھ کر یہ مسئلہ پیدا کیا اور اگر مستقبل میں اس مسئلے کو کسی حل کی طرف لے کر جانا ہے تو یہ کوشش بھی سبوتاژ کر دو۔ جو کہ بہت بد قسمتی کی بات ہے۔'
انھوں نے کہا 'اپوزیشن کل بھی ملک کو بحران سے نکالنا چاہتی تھی لیکن یہ حکومت ملک کو نئے بحرانوں میں ڈالتی جاتی ہے۔'
قمر زمان کائرہ نے کہا 'یہ حکومت قومی یکجہتی کو جوڑنے کی بجائے توڑے کے حق میں ہے، ہم حکومت سے اپنی قیادت کے لیے کوئی رعایت نہیں مانگ رہے لیکن حکومت سوائے گالیاں دینے کے کچھ نہیں کرتی۔'
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے حکومت کو درپیش چیلنجز پر بات کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ نے کہا کہ حکومت کا سب سے بڑا چیلنج خود کو قائم رکھنا ہے۔
'یہ حکومت نالائقی اور غیر ذمہ داری میں تمام حدیں پار کر چکی ہے۔ اور اب اس کی نالائقی ہر مہر سپریم کورٹ میں لگ چکی ہے۔' ان کے مطابق 'اگر دو چار ماہ میں قانون سازی نہ ہو سکی تو یہ حکومت چلی جائے گی اور کوئی اور حکومت آ کر اس پر قانون سازی کرے گی۔'
’ قانون سازی ایک نوٹیفیکیشن سے زیادہ مشکل کام ہوتا ہے‘
سابق گورنر سندھ اور مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما محمد زبیر کا کہنا ہے کہ یہ سارا معاملہ عدالت اور آرمی چیف کی توسیع سے متعلق ہے لیکن وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنا ڈالا ہے اور ’ہمیں ملک دشمنی کے ساتھ جا ملایا ہے‘۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اس دوران اپوزیشن نے ایک دفعہ بھی پریس کانفرنس نہیں کی ہے، ہم نے حکومت کو اس پر شرمندہ نہیں کیا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت میں اہلیت بالکل بھی نہیں ہے۔ بار بار ناکامی سامنے آرہی ہے۔ اتنے وزرا، سکیریٹریز، وزیر اعظم اور صدر کے ہوتے ہوئے یہ سب ہوا جو عجیب بات ہے۔
انھوں نے کہا ’یہ حکومت ایک آرمی چیف کا نوٹیفیکیشن نہیں سنبھال سکی ہے تو یہ ملک اور فیصلہ سازی کیسے کرے گی۔ ہم مکمل تحقیقات کا مطالبہ کریں گے۔ شواہد یہی کہتے ہیں کہ صدر پاکستان نے کہیں پچھلی تاریخوں والی سمری پر دستخط کر دیے۔'
قانون سازی سے متعلق ان کا کہنا تھا آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق قانون سازی اب ہماری کورٹ میں ہے۔
’اگر حکومت نے قانون سازی کا ماحول نہ پیدا کیا تو پھر یہ قانون سازی کا مرحلہ مشکل ہو جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی ایک نوٹیفیکیشن سے زیادہ مشکل کام ہوتا ہے، دیکھنا ہو گا کہ حکومت کیسا مسودہ لے کر آتی ہے۔