آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
چائلڈ پورنوگرافی: ’بچوں سے زیادتی کر کے ویڈیوز بیچنے والے‘ ملزم کے خلاف دو مزید مقدمات درج
- مصنف, شہزاد ملک
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان کے شہر راولپنڈی میں بچوں سے جنسی زیادتی کر کے ان کی ویڈیوز بنانے اور انھیں انٹرنیٹ پر فروخت کرنے والے ایک ملزم کے خلاف دو مزید مقدمات درج کر لیے ہیں۔
46 سالہ چارٹرڈ اکاؤٹنٹ سہیل ایاز کے خلاف جمعرات کو درج ہونے والے مقدمات میں اغوا، قید، نشہ آور اشیا دینے اور بد فعلی کی دفعات شامل ہیں۔
تھانہ روات میں درج ایک مقدمے میں ایک مقامی شخص نے کہا ہے کہ سہیل ایاز انھیں ’کام کے بہانے اپنے گھر لے آئے اور رات کے وقت کوئی نشہ آور چیز دی۔‘
انھوں نے الزام عائد کیا کہ سہیل ایاز نے ’میرے ساتھ زبردستی بد فعلی کی اور (کسی کو نہ بتانے کی) دھمکی دی۔‘
تھانہ روات میں ایک دوسرے مقدمے میں ایک اور شخص نے الزام لگایا کہ سہیل ایاز نے ان کے 11 سالہ بھتیجے کو اغوا کرنے کے بعد بد فعلی کا نشانہ بنایا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
سہیل ایاز کو منگل کو گرفتار کیا گیا تھا اور بدھ کو مقامی عدالت میں مختصر سماعت کے بعد پانچ روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
سہیل ایاز ماضی میں برطانیہ اور اٹلی میں ایسے ہی جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود خیبر پختونِخوا کی صوبائی حکومت کے ایک منصوبے میں بطور مشیر کام کر رہے تھے۔
’30 بچوں سے جنسی زیادتی کا اعتراف‘
سی پی او راولپنڈی فیصل رانا کے مطابق گرفتار ہونے والا شخص سہیل ایاز عرف علی بچوں سے جنسی زیادتی کر کے اُن کی ویڈیوز عالمی ڈارک ویب پر فروخت کرتا تھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے بتایا کہ دورانِ تفتیش ملزم نے 30 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا اعتراف کیا ہے۔ سی پی او کے بقول جنسی تشدد کا شکار ہونے والے بچوں کی عمریں ایک سال سے لے کر 17 سال کے درمیان تھیں۔
سماعت کے موقعے پر ملزم کے والد کا کہنا تھا کہ پولیس نے ’سستی شہرت کے لیے‘ ان کے بیٹے سے متعلق جھوٹی کہانی بنائی ہے۔
پولیس کے مطابق ملزم سہیل ایاز چارٹرڈ اکاؤٹنٹ ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں سول سیکریٹیریٹ میں ملازم رہا ہے تاہم خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ ملزم صوبائی حکومت کا ملازم تھا۔
ادھر پاکستان میں ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ملزم کو خیبرپختونخوا حکومت نے کثیر الجہتی ٹاسک فورس کے منصوبوں کے لیے بطور مشیر نوکری پر رکھا تھا اور وہ عالمی بینک کا ملازم نہیں تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم ماضی میں برطانیہ میں ایک 14 سالہ بچے کے ریپ کے کیس میں چار سال قید کی سزا بھی کاٹ چکا ہے۔
گرفتاری کیسے عمل میں آئی؟
حکام کے مطابق اسلام آباد کے نواحی علاقے کی رہائشی ایک خاتون نے تھانہ روات میں درخواست دی تھی کہ ان کے 13 سال کا بیٹا رات کے وقت راولپنڈی کی ایک رہائشی سکیم میں قہوہ بیچتا تھا۔
ملزم کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ چند روز قبل ملزم سہیل ایاز نے ان کے بیٹے کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور اپنے ساتھ لے گیا، جہاں وہ اسے نشہ آور چیزیں کھلا کر اسے چار روز تک جنسی تشدد کا نشانہ بناتا رہا۔
شکایت کے مطابق چار روز کے بعد ملزم سہیل ایاز نے جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے بچے کو دھمکی دی کہ اگر اُس نے اِس بارے میں کسی کو بتایا تو اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی جائے گی۔
سی پی او راولپنڈی کے مطابق ملزم سہیل ایاز کے بارے میں پولیس کو پہلے سے شک تھا تاہم اس ضمن میں کوئی بھی پولیس کو درخواست دینے کو تیار نہیں تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ ملزم کو جنسی تشدد کا نشانہ بننے والے بچے کی نشاندہی پر ہی گرفتار کیا گیا۔
اُنھوں نے کہا کہ ملزم گذشتہ چار سال سے بچوں کو اپنے گھر میں ہی لا کر اُنھیں نشہ آور اشیا کِھلا کر اُنھیں جنسی تشدد کا نشانہ بناتا رہا ہے۔
بین الاقوامی گروہ سے تعلقات
سہیل ایاز کو 2009 میں ایک برطانوی عدالت نے ایک 14 سالہ بچے کے ریپ کے اعتراف کے بعد چار سال قید کی سزا سنائی تھی۔ سہیل نے عدالت میں اس بچے کی تصاویر تقسیم کرنے اور 397 دیگر غیر اخلاقی تصاویر اپنے پاس موجود ہونے کا بھی اعتراف کیا تھا۔
وہ بچوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی برطانوی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے سابق ملازم ہیں۔
سہیل کے تعلقات رومانیہ کے ایک بچوں سے زیادتی میں ملوث گینگ سے پائے گئے۔
سنہ 2008 میں برطانیہ میں ورک ویزا کے ذریعے داخل ہونے والے سہیل ایاز کو فروری 2009 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب اٹلی کے شہر روم کی پولیس نے ایک بچوں سے زیادتی کرنے والے ایک اطالوی شخص کے خلاف تحقیقات شروع کیں۔
انھیں معلوم ہوا کہ سہیل نے اطالوی ملزم کو 15 رومانیئن بچوں کی تفصیلات فراہم کی تھیں۔
سہیل مبینہ طور پر بچوں سے زیادتی کرنے والے ایک سوئیڈش شخص کے مڈل مین تھے جن کا کہنا تھا کہ وہ زیادتی کرنے کے لیے رومانیئن بچے فراہم کر سکتے ہیں۔
اطالوی پولیس نے برطانوی پولیس کو خبردار کیا جس کے بعد ان کے خلاف برطانیہ میں تحقیقات شروع ہوئیں۔
سہیل کے فلیٹ میں 2000 سے زائد غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز پائی گئیں جن میں نہایت کم عمر بچوں اور زیادتی کا نشانہ بنائے گئے بچوں کی تصاویر بھی شامل تھیں۔
پولیس حکام کے مطابق برطانوی حکومت نے سہیل ایاز کو جولائی 2009 میں اٹلی کی حکومت کے حوالے کیا تھا۔
مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم اٹلی میں بھی بچوں کے ساتھ زیادتی کے مقدمات بھگت چکا ہے اور اٹلی سے بھی ملزم کو اسی جرم کے بعد ملک بدر کر دیا گیا تھا۔
سی پی او راولپنڈی کے مطابق ملزم کے کمپیوٹر سے جو ڈیٹا ملا ہے اس سے ملنے والی معلومات کو برطانوی حکام کے ساتھ بھی شیئر کیا جائے گا تاکہ تفتیش میں مدد مل سکے۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر پولیس کو تفتیش کے لیے ایف آئی اے کی بھی مدد درکار ہوئی تو اس بارے میں وفاقی حکومت کو لکھا جائے گا۔
تھانہ روات کے ایس ایچ او کاشف محمود نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا کہ وہ اب تک پاکستان میں 30 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا چکا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ ملزم کے ساتھ دیگر افراد بھی کام کر رہے تھے اور اس گینگ میں شامل دیگر افراد کی گرفتاری سے متعلق فیصلہ تفتیش کے دوران ہونے والی پیش رفت کے بعد کیا جائے گا۔
ایس ایچ او تھانہ روات کے مطابق ملزم کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے 13 نومبر کو مقامی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔