کوئٹہ دھماکہ: سالگرہ پر ہلاک ہونے والے فلاحی تنظیم چھیپا کے رضاکار

نعیم
    • مصنف, محمد کاظم
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ

کوئٹہ کے ایک فلاحی کارکن کی اہلیہ نے پانچ ستمبر کے روز اپنے خاوند کی سالگرہ پر انھیں سرپرائز دینا تھا۔ لیکن اس دن ان کے شوہر کے بجائے ان کی لاش گھر پہنچی۔

بلوچستان کے دارالحکومت میں جمعرات کی شب یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے پیش آئے۔

غیر سرکاری فلاحی تنظیم چھیپا کے رضا کار محمد نعیم سمگلی روڈ پر واقع خیزئی چوک پر بم دھماکے میں ہلاک ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

نعیم

جس وقت نعیم کی بیوہ زینت اپنے خاوند کی سالگرہ کی باقاعدہ تیاریاں کر رہی تھیں، اس وقت نعیم پہلے بم دھماکے کے بعد جائے وقوعہ پر لوگوں کی مدد کے لیے پہنچے تھے۔

جب پہلے بم دھماکے کے بعد پولیس اہلکار، فلاحی تنظیموں کے رضاکار اور صحافی جائے وقوعہ پر پہنچے تو اس کے ساتھ ہی دوسرا دھماکہ ہو گیا۔

اس دوسرے دھماکے میں محمد نعیم کی ہلاکت کے علاوہ ایک نجی نیوز چینل کے کیمرہ مین، رپورٹر اور دو پولیس ایس ایچ اوز سمیت دس افراد زخمی ہوئے۔

نعیم

نعیم کی کہانی

محمد نعیم کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا، وہ ریلوے سٹیشن کے قریب ایک خستہ حال کوارٹر میں اپنے والد کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔

زینت کے ساتھ محمد نعیم کی شادی ڈیڑھ سال پہلے ہوئی تھی۔ شادی کی مناسبت سے گھر میں ان کے کمرے میں جو سجاوٹ کی گئی تھی وہ اب بھی برقرار ہے۔

زینت نے بی بی سی کو بتایا کہ جب نعیم گھر سے ڈیوٹی پر نکلے تھے تو ان کے آخری الفاظ ’اللہ حافظ‘ تھے، جس کے بعد وہ چلے گئے۔

نعیم

ان کا کہنا تھا کہ نعیم ان کا بہت خیال رکھتے تھے اور ایک سال کی رفاقت کے دوران انھوں نے ان کی آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں آنے دیے۔

لیکن اب زینت کے لیے آنسوﺅں کو روکنا مشکل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ میٹرک کر چکی تھیں لیکن نعیم انھیں ڈاکٹر کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ شادی کے بعد انھوں نے انھیں ریلوے گرلز کالج میں باقاعدہ داخلہ دلوایا۔

محمد نعیم

آخری سالگرہ

نعیم کی اہلیہ زینت نے بتایا کہ انھوں نے اپنے خاوند کی سالگرہ پر باقاعدہ تیاریاں کی ہوئی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال بھی انھوں نے نعیم کی سالگرہ پر ان کو سرپرائز دیا تھا۔ ’نعیم کو پتہ تھا کہ اس سالگرہ پر بھی میں نے ان کو سرپرائز دینے کے لیے منصوبہ بندی کی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ نعیم ہر وقت لوگوں کی مدد کے لیے تیار رہتے تھے۔ ’ڈیوٹی نہ ہونے کے باوجود وہ ہر وقت ہنگامی صورت میں کام کے لیے بھاگتے تھے۔‘

’میرے منع کرنے کے باجود وہ رکتے نہیں تھے بلکہ یہ کہتے تھے کہ یہ ان کا فرض ہے۔ اس لیے وہ اپنا فرض ادا کرتے کرتے چلے گئے۔‘

نعیم

زینت نے بتایا کہ نعیم کی تنخواہ کم تھی لیکن انھوں نے کبھی بھی تنخواہ کی پرواہ نہیں کی بلکہ انسانیت کی خدمت کو مقدم رکھا۔

چھیپا کے اہلکاروں نے نعیم کے وہ کپڑے بھی ان کے گھر پہنچائے ہیں جو انھوں نے اپنی سالگرہ پر پہنے تھے اور ڈیوٹی پر آنے کے بعد دفتر میں اتار کر رکھے ہوئے تھے۔

ان کے بڑے بھائی محمد سلیم نے ان کے وہ کپڑے اپنے سینے سے لگا کر کہا کہ ’نعیم گھر کی رونق تھے۔ بھائی سے زیادہ، ہم دونوں آپس میں دوست تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ والدہ کی وفات کے بعد ہم اکیلے تھے اور ایک دوسرے کا سہارا بھی تھے۔

چھیپا میں ان کے ساتھی اور ایمبولینس کے ڈرائیور نصیر احمد نے بتایا کہ نعیم ہر وقت لوگوں کی مدد کے لیے تیار رہتے تھے۔

نصیر کا کہنا تھا کہ ہم ایک مخلص رضاکار سے محروم ہوگئے ہیں۔