پاکستان انڈیا دو طرفہ تجارت کا عمل معطل: ’کشمیر کی تحریک پہلی ترجیح، تجارت دوسرے نمبر پر‘

بھمبر گلی انڈیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنپاکستان اور انڈیا کی حکومتوں نے تقریبا گیارہ سال پہلے لائن آف کنٹرول پر تجارت کا آغاز کیا تها
    • مصنف, فرحت جاوید
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، مظفر آباد

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کی خبر جب محمد رشید جیسے کئی مزدوروں تک پہنچی تو انہیں اندازہ ہو گیا تها کہ گهر کا چولها جلانے کا وہ راستہ جس کے کهلنے کا انھیں انتظار تها، اب شاید طویل مدت تک بند ہی رہے گا۔

اسی لیے انھیں اب وزیر اعظم عمران خان کے اس فیصلے سے حیرت نہیں ہوئی کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تجارت معطل رہے گی۔

محمد رشید لائن آف کنٹرول پر چکوٹهی کراسنگ پوائنٹ پر مزدوری کرتے تهے۔ وہ سری نگر سے آنے والے اور مظفر آباد سے لائن آف کنٹرول کے اُس پار جانے والے ٹرکوں پر سامان لادنے اور اتارنے کا کام کرتے اور اسی سے ان کا گهر چلتا تها۔

محمد رشید کہتے ہیں ’تجارت چلتی تهی تو ہم ہر ہفتے چهے یا سات ہزار روپے کما لیتے تهے۔ پہلے امید تهی کہ بات چیت ہو گی، کوئی راستہ نکلے گا اور یہاں لائن آف کنٹرول پر کام پهر شروع ہو گا، ہم تو اسی امید پر تهے، مگر نریندر مودی نے نیا قانون بنا کر رہی سہی کسر بهی نکال دی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

YouTube پوسٹ نظرانداز کریں
Google YouTube کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Google YouTube کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Google YouTube ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں

YouTube پوسٹ کا اختتام

یہ صورتحال لائن آف کنٹرول کے اس پار ہی نہیں بلکہ تاجروں کا کہنا ہے کہ تجارتی راستے بند ہونے سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں مزدور طبقے کی حالت بھی بدتر ہوئی ہے۔

دو حصوں میں تقسیم متنازع جموں کشمیر کو جوڑتی سری نگر روڈ ان دو راستوں میں سے ایک ہے جن کے ذریعے لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت کا سلسلہ چلتا ہے لیکن یہاں اب چہل پہل خاصی کم ہے۔

پاکستان اور انڈیا کی حکومتوں نے تقریبا گیارہ سال پہلے لائن آف کنٹرول پر تجارت کا آغاز کیا تها۔ دونوں ملکوں نے اکیس اشیا کی تجارت کی فہرست مرتب کی اور اُوڑی مظفر آباد روڈ اور پونچه راولاکوٹ روڈ کو تجارت کے لیے کهول دیا۔ یوں کئی دہائیوں بعد یہاں سامان سے لدے ٹرکوں کی آمدو رفت کا آغاز ہوا۔

کشمیریوں کو ایک دوسرے سے ملنے کا، کاروبار کا موقع ملا اور ہزاروں افراد کی روزی کا ذریعہ بهی بنا۔ یہ تجارت اشیا کے تبادلے سے شروع ہوئی اور اب بهی سامان کے بدلے سامان کا نظام ہی نافذ ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے انڈیا کے ساتھ دو طرفہ تجارت کی معطلی کا اعلان کیا ہے۔

لیکن پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے ایل او سی کے پار ہونے والی تجارت کے لیے یہ راستے پہلے ہی بند تهے اور یہ بندش خود انڈیا کی جانب سے تهی۔

چکوٹهی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنچکوٹهی سیکٹر میں واقع کراسنگ پوائنٹ کو انڈیا نے رواں برس اپریل میں بند کر دیا تھا

چکوٹهی سیکٹر میں واقع کراسنگ پوائنٹ کو انڈیا نے رواں برس اپریل میں بند کیا تها۔ انڈیا نے الزام لگایا تها کہ اس راستے سے پاکستان وادی میں اسلحہ اور منشیات کی اسمگلنگ کر رہا ہے جس کی وجہ سے تجارت اس وقت تک معطل رہے گی جب تک موثر اور سخت میکنزم قائم نہ ہو جائے۔

پاکستان نے اس وقت ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے انڈیا کے اس اقدام کو قابلِ افسوس قرار دیا تها۔

یہی وجہ ہے کہ محمد رشید سمجھتے ہیں کہ ان کی معاشی تباہی کا ذمہ دار انڈیا ہے۔

’انڈیا نے چار مہینے پہلے ٹریڈ بند کرنے کا اعلان کیا، مجھ سمیت تین سو سے زیادہ مزدور گهر بیٹھ گئے، ہمارے چولہے ٹهنڈے پڑ گئے ہیں۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر ہونے والی تجارت سے منسلک ٹریڈر گوہر احمد کشمیری کہتے ہیں کہ ان کے لیے سب سے پہلے تو کشمیر کی تحریک ہے۔

’لیکن یہ بهی حقیقت ہے کہ تاجر اس وقت پریشان ہیں اور یہ پریشانی لائن آف کنٹرول کی دونوں جانب ہے۔ خاص طور پر جو مزدور طبقہ ہے وہ اب بالکل بے یار و مددگار بیٹها ہے کیونکہ ان کے لیے روزگار کا ایک راستہ بن گیا تها جو اب بند ہو گیا ہے۔ وہ مزدور اب کس حال میں ہے، اس کا نہ ایل او سی کے اُس طرف کسی کو پتا ہے نہ ہی ہماری طرف کسی کو خیال ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ چکوٹهی سیکٹر پر گودام چار ماہ سے بهرے ہوئے ہیں۔

’مگر اب وہ مال نہ ہم وہاں سے واپس لا سکتے ہیں نہ ایل اور سی کی دوسری جانب لے کر جا سکتے ہیں۔ سسٹم جام کر کے رکھ دیا ہے۔ فیصل آباد، لاہور، پنڈی کی منڈیوں سے سامان اس لیے خریدا تها کہ اس پار بهیجنا تها مگر انھوں نے جو پابندی لگائی اس نے سب ختم کر دیا۔ ٹریڈر بهی مارا گیا، دکاندار بهی مارا گیا اور منڈیاں بهی تباہ ہو گئی ہیں۔ اس وقت کوشش ہو رہی تهی کہ آج نہیں تو کل کهل جائے گا مگر اب انڈیا نے جو صورتحال پیدا کر دی ہے اب کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔‘

سرینگر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنجن 21 اشیا کی لین دین کی اجازت تهی ان میں سب سے مشہور سرینگر سے آنے والی کشمیری شالیں ہاتهوں ہاتھ بکتی تهیں

گوہر احمد کشمیری کے مطابق دونوں جانب جن اکیس اشیا کی لین دین کی اجازت تهی ان میں سب سے مشہور سرینگر سے آنے والی کشمیری شالیں ہاتهوں ہاتھ بکتی تهیں۔ اس کے علاوہ دونوں طرف پهل، مصالحہ جات، قالین اور فرنیچر وغیرہ کا کاروبار کیا جا رہا تها۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے آنے والی اشیا میں خشک جڑی بوٹیوں، پھلوں اور سبزیوں کے علاوہ قالین، لکڑی کے فرنیچر، کڑھائی والے ملبوسات وغیرہ شامل ہیں جبکہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی جانب سے چاول، اخروٹ، دالیں، عطر، کپڑا وغیرہ لے جائے جاتے ہیں۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جب ہم نے حکومت سے جاننے کی کوشش کی کہ اس نئے اعلان کے بعد سامان سے لدے ٹرکوں کی آمدو رفت تو ختم ہو ہی گئی ہے کیا اب مسافروں کی آمدورفت پر بهی پابندی ہو گی تو انتظامیہ کا کہنا تها کہ انھیں تاحال کسی قسم کا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا ہے۔

یہاں سینٹرل ٹریڈ یونین مظفر آباد کے چیئرمین شوکت نواز میر کہتے ہیں کہ ان سمیت دیگر تمام تاجروں کے لیے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں چلنے والی تحریک زیادہ اہم ہے۔

’ایک کشمیری کی حیثیت سے میں سمجهتا ہوں کہ اگر مجهے لاکهوں کروڑوں کا نقصان بهی ہو گیا تب بهی میرے لیے کشمیر کی تحریک پہلی ترجیح اور تجارت دوسرے نمبرپر ہے۔‘

وہ کہتے ہیں ’یہ خوف تو ضرور تها کہ لیکن دونوں جانب ایک یہ تسلی تهی کہ چلیں راستہ تو کهلا ہے، کچھ تو تجارت ہے چاہے وہ چیز کے بدلے چیز ہے۔

آج دونوں طرف کا تاجر بالکل پریشان ہے ، مگر یہ بهی واضح ہے کہ ایل او سی کی دونوں جانب موجود تاجر کبهی بهی تجارت کو کشمیر کے مسئلے پر ترجیح نہیں دے گا۔ پاکستان نے جو فیصلہ کیا وہ مجبوری میں کیا ہے، انڈیا نے پہلے کشمیر میں غیر قانونی اقدام کیا اور کشمیریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے۔ کشمیری اپنے پیٹ پر پتهر بانده لے گا، مگر کشمیر کے ایشو پر کبهی سمجهوتہ نہیں کر سکتا۔‘

واضح رہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہاں سے سالانہ 3 ارب روپے سے زائد کی تجارت ہوتی ہے۔ دونوں جانب 35، 35 ٹرک آنے اور جانے کی اجازت تھی۔ جو ہفتے میں چاردن صبح نو بجے سے شام چار بجے کے درمیان سرحد پار جاتے تھے جبکہ یہاں 300 رجسٹرڈ تاجر ہیں جن کے لیے تجارت کے سخت قواعد ہیں۔ یہاں بارٹر ٹریڈ ہوتی ہے یعنی پیسوں سے چیز نہیں خریدی جاتی بلکہ لین دین میں ’مال کے بدلے مال‘ دیا جاتا ہے۔