آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ: حکومتی اقدامات میں کامیابی کے لیے سب کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی ضرورت ہے
- مصنف, حمیرا کنول
- عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد
پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ملک کی سکیورٹی اور معیشت کے درمیان ناقابل تردید ربط ہے کیونکہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں خطاب کے دوران جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ معاشی خود مختاری کے بغیر کسی قسم کی خودمختاری ممکن نہیں ہے۔
این ڈی یو میں یہ خطاب انھوں نے معیشت کے موضوع پر منعقدہ سیمینار کے دوران کیا۔
خیال رہے کہ یہ سیمینار ایک ایسے موقع پر منعقد کیا جا رہا ہے جب حکومت آئی ایم ایف سے معاہدے کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہے، ڈالر بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں روپے کی قدر مزید کم ہوئی ہے اور اپوزیشن جماعتیں ایک روز قبل ہی حکومت کے خلاف ایک میز پر اکھٹی ہوئی تھیں۔ اپوزیشن نے وفاقی بجٹ کو پاس نہ کرنے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔ تاہم ملک کے وزیراعظم عمران خان نے جمعرات کو مہنگائی اور قیمتوں میں بے جا اضافے کا نوٹس بھی لیا تھا۔
مزید پڑھیے
ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کے حوالے سے جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ’ہم مالیاتی بد انتظامیوں کی وجہ سے مشکل معاشی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ ہم مشکل فیصلے لینے سے گھبراتے رہے ہیں۔ افواج نے رضاکارانہ طور پر سالانہ دفاعی بجٹ میں اضافے سے دستبردار ہو کر کردار ادا کیا۔ اور یہ واحد قدم نہیں جو ہم نے معیشت کی بہتری کے لیے اٹھایا ہے۔‘
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں حکومت نے طویل المدتی فائدے کے لیے مشکل فیصلے کیے ہیں اور ہم اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ مشکل اقدامات کامیاب ہوں۔‘
اپنے خطاب کے اختتام پر ان کا کہنا تھا کہ ’مشکل وقت میں کوئی بھی اکیلے کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک پوری قوم اکٹھے متحد نہ ہو۔ یہ ایک قوم بننے کا وقت ہے۔‘
آرمی چیف نے کہا کہ ماضی قریب میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب دیگر ممالک نے بھی ایسے ہی چیلینجز کا سامنا کیا او وہ ’مشکل فیصلے لے کر‘ کامیابی سے اس سے باہر نکلیں۔
’ہم بھی انشا اللہ ان چیلینجز کو عبور کر لیں گے۔‘
خطے میں امن
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجودہ نے خطے میں امن کے قیام کی بحالی کے لیے پاکستان کی کوششوں کو اجاگر کیا جو بہتر تجارتی رابطوں کی طرف لے کر جائے گی۔
خطے میں رابطوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے آرمی چیف نے ایک بار پھر اپنے وژن کو دہرایا کہ ’کوئی ملک تنہا ترقی نہیں کر سکتا،یہ خطہ ہوتا ہے جو ترقی کرتا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے خطے کی ترقی کے لیے ہمیں اپنے تقریباً تمام ہمسایوں کے ساتھ وسیع رابطہ کاری کی ضرورت ہے۔
فوج کے سربراہ کے بیان پر رد عمل
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب سمجھتے ہیں کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہی ہے اور یہ سیمینار بہت اہمیت کا حامل ہے جس میں ماہرینِ معاشیات نے بھی بات کی۔
بی بی سی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جو نکات آرمی چیف نے بیان کیے وہ اپوزیشن بجٹ کے سیشن کے دوران اٹھاتی۔
'میرا یہ خیال ہے کہ ان کو یہ کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ بجٹ کے اوپر جتنی بھی بحث ہوئی پارلیمینٹ کے اندر اس میں کوئی تعمیری گفتگو دیکھنے میں نہیں آئی جو کچھ ہم نے سنا یا دیکھا وہ زیادہ تر تنقیدی تھا تجاویز نہیں تھیں۔ کسی چیز میں بہتری لانے کی بات نہیں تھی اور بہت سارا کچھ تو سیاسی تھا جہاں آپ اپنے دکھڑے سناتے رہے۔ پروڈکشن آڈرز پر رونا دھونا رہا، سیاست کی گئی، پھر حکومت کو گرانے کی باتیں یعنی زیادہ تر وہ چیزیں جو معیشت کو بہتر کرنے کے لیے نہیں ہو سکتیں۔'
تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ کے مطابق آرمی چیف کا معیشت سے متعلق یہ بیان سیاسی ہے جس میں حکومت سے زیادہ وہ اپوزیشن سے مخاطب ہیں کہ بجٹ جو ہے وہ پاس ہو جانا چاہیے۔
'جہاں تک ان کا یہ بیان ہے کہ معیشت اور سکیورٹی کو الگ نہیں کیا جا سکتا یہ بالکل درست بات ہے۔ لیکن میرے خیال میں پچھلی حکومتیں بھی اس پر بات کرتی تھیں۔ جس کی وجہ سے امن مذاکرات کی بات بھی کی جاتی تھی جس کی وجہ سے افغانستان کے ساتھ اور طرح کے مراسم رکھنے کی ضرورت پہ بات ہوتی تھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ بیان آسان ہے لیکن معاملہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ اگر فوج جو ہے وہ سلیکٹ کرے گی اگر وہ الیکشن کا جو عمل ہے اس میں کسی طریقے سے پری پول رگنگ یا اس قسم کی چیزوں میں شامل ہو گی تو میرے خیال سے سکیورٹی بھی ایک بہت پیچیدہ چیز ہو جاتی ہے اور معیشت تو اس سے بھی زیادہ کمپلیکس ہو جاتی ہے۔'
معاشی ترقی اور سکیورٹی کے حوالے سے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ اگر معاشی ترقی نہیں ہو رہی تو ملکی سکیورٹی پر اثر پڑتا ہےاور ابھی اضافی دفاعی بجٹ کی بھی ضرورت ہے۔ 'ہم اپنی مغربی سرحدوں کو محفوظ کرنے کے لیے وہاں باڑ لگا رہے ہیں، پہلے ہم نے افغانستان کے ساتھ لگائی تھی اب ایران کے ساتھ بھی کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس کے لیے تو پیسہ چاہیے، پرانے بجٹ میں تو یہ چیزیں نہیں بن سکتی۔ اگر ملک کے پاس پیسہ نہیں ترقی نہیں تو آپ اپنی سکیورٹی کو بہتر نہیں کر سکتے۔'
انھوں نے مزید کہا کہ دفاعی بجٹ میں کٹوتی ایک حد تک ہو سکتی ہے۔
عائشہ صدیقہ نے، اس نکتے پر کہ فوج نے رضا کارانہ طور پر بجٹ میں اضافہ نہیں لیا، بات کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ کی نظر سے ڈان کی وہ رپورٹ گزری ہو گی جس میں اعداد بتائے گئے ہیں کہ 23 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دفاعی بجٹ میں تو مجھے اور آپ کو تو یہ معلوم ہی نہیں کہ کیا ہے۔ تین سے چار ارب روپے دفاعی بجٹ میں شامل نہیں پینشن اور دیگر چیزیں ہیں۔ تو میرا سوال تو یہ ہے کہ کم کیا کیا ہے۔ ریاست کے بہت سے ادارے ہیں۔ اگر کوئی ادارے کی کٹوتی ہو تو کیا ان پر واجب ہے کہ وہ برابری کی سطح پر ممبر کی حیثیت سے اس پر بات کریں۔ یہ ریاست کا ایک ادارہ ہے ویسے ہی ریاست سے پیسے لیتی ہے جیسے سب ادارے لیتے ہیں۔ لیکن یہ ان کو حق نہیں کہ یہ بیٹھ کر ایک مساوی ممبر کی حیثیت سے اس پر فیصلے لیں۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ نے ہمسایوں کے ساتھ رابطوں کو بڑھانے کی بات کی اور یہ بات اس سے پہلے بھی فوج کے سربراہوں نے کی ہے۔
'یہی فوج ہے، جو ایک وزیراعظم تجارت کی بات کر رہے تھے اسے انھوں نے گھر بھجوا دیا ہے۔ اب یہ دوبارہ سے وہی سبق پڑھانا شروع کریں گے، کہاں تک جائیں گے۔ ہم نے یہ بھی سنا تھا کہ جنرل کیانی انڈیا کے ساتھ تجارت کے حق میں تھے لیکن جب تجارت کرنے والے آتے تھے تو انھیں پیچھے دھکیلا جاتا تھا۔تو یہ کہنے کی باتیں ہیں لیکن کریں گے کیسے یہ ایک اور بات ہے۔'