علی وزیر: بغاوت پر اکسانے، ملکی سلامتی خطرے میں ڈالنے کے الزامات پر ایف آئی آر درج

علی وزیر

،تصویر کا ذریعہTWITTER/@Aliwazirna50

    • مصنف, دانش حسین
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

پشتون تحفظ موومنٹ کے لیڈر اور آزاد رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے اپنے خلاف بغاوت اور ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے جیسے الزامات کے رد عمل میں کہا ہے کہ انھوں نے شمالی وزیرستان میں کسی غیر قانونی اجتماع میں نہیں بلکہ مقامی لوگوں کے ایک جرگے میں شرکت کی جہاں ریاست مخالف نہیں بلکہ مقامی لوگوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کی بات کی گئی۔

یاد رہے کہ پانچ مئی (اتوار) کو پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں پولیس نے علی وزیر سمیت درجن بھر دیگر افراد کے خلاف بغاوت پر اکسانے، ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے، ریاست مخالف نعرے بازی، اشتعال انگیز تقاریر اور دیگر الزامات کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔

ایف آئی آر ضلع شمالی وزیرستان کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کفایت اللہ خان کی مدعیت میں درج کی گئی ہے جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ملزمان نے یکم مئی کو شمالی وزیرستان کی تحصیل شواہ میں کرم تنگی ڈیم کی تعمیر کا کام روکنے کے سلسلے میں ایک اجتماع منعقد کیا اور لوگوں کو اس کی تعمیر کے خلاف اکسایا۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق اس اجتماع میں ملزمان کے علاوہ کابل خیل قوم کی تمام شاخوں کے نمائندے، یوتھ اور پشتون تحفظ موومنٹ کے ورکرز نے شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیے

الزامات کے مطابق اس دوران جذباتی نعرہ بازی ’یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے‘ اور ’یہ جو نامعلوم ہے یہ ہمیں معلوم ہے‘ جیسے نعرے لگائے گئے جبکہ ملزمان پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف شرکا کو اکساتے بھی رہے اور ملکی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔

ایف آئی آر مجرمانہ سازش، مجرمانہ دھونس دھمکی، سرکاری ملازمین کو جانی نقصان پہنچانے کی دھمکی، بلوا، غیر قانونی اور جان لیوا ہتھیار رکھنے، غیر قانونی اجتماع، ہتکِ عزت، نقص امن اور دیگر دفعات کے تحت درج کی گئی ہے۔

علی وزیر کا موقف

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے علی وزیر کا کہنا تھا کہ یہ ان کے خلاف ہونے والی کوئی پہلی ریاستی کارروائی نہیں ہے۔

’مجھے یہ لگ رہا ہے کہ اب وہ مجھے گرفتار کرنا چاہ رہے ہیں اور اس کے لیے یہ ذمہ داری سے سب چالیں چل رہے ہیں لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر مجھے کوئی نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ دار ریاست اور ریاستی ادارے ہوں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کے استاد کہتے تھے کہ موجودہ حکومت اور فوج میں کوئی فرق نہیں ہے اور اب یہ بات ثابت ہوتی جا رہی ہے۔

ایف آئی آر

،تصویر کا ذریعہTWITTER/@IftikharFirdous

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنی عوام کے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں، آواز بھی بلند کر رہے ہیں اور اس کام کے لیے وہاں کے لوگوں نے انھیں ووٹ اور اپنی نمائندگی کا حق دیا ہے۔

’ہمیں پارلیمان میں بات کرنے سے روکا جا رہا ہے، میڈیا پر بلیک آؤٹ کیا جا رہا ہے اور ہمیں پریس کانفرنس کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔‘

فوج کے ترجمان کی حالیہ پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان سے کافی سوال پوچھے گئے مگر کئی سوالوں کے جوابات نہیں دیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ (آصف غفور)‘ ہمارے ساتھ کسی بھی فورم پر بات کر لیں وہ تمام الزامات کا جواب دیں گے اور اپنے موقف کے حق میں ثبوت پیش کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر چیز اور عمل کی ایک حد ہوتی ہے مگر یہ معاملات کو تباہی کے دھانے پر لے کر جا رہے ہیں۔

تحصیل شواہ میں مسئلہ کیا ہے؟

علی وزیر کا کہنا تھا کہ قبائلی لوگ متعدد فوجی آپریشنز سے گزر چکے ہیں اور وہ پریشان ہیں مگر اب ان کے لیے ایک نئی مشکل کھڑی کی جا رہی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ تحصیل شواہ میں کرم تنگی ڈیم مقامی لوگوں کی مرضی کے خلاف بنایا جا رہا ہے اور لوگ نہیں چاہتے ہیں کہ وہ وہاں سے نقل مکانی کریں، ان کے گھر ڈوب جائیں اور معاوضہ بھی نہ ملے۔

پی ٹی ایم

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کرم تنگی ڈیم پر پہلے مرحلے کا کام مکمل ہو چکا ہے اور حکومت نے مقامی لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ دوسرے مرحلے پر کام مقامی لوگوں کی مرضی کے بغیر نہیں شروع کیا جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈیموں کے لیے بہت سے جگہیں موجود ہیں جہاں آبادیاں متاثر نہیں ہوں گی مگر مقامی لوگوں کی اس درخواست پر غور نہیں کیا جا رہا ہے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ جو لوگ فوجی آپریشنز میں متاثر ہوئے تھے ان کو ابھی تک مکمل معاوضہ نہیں ملا۔ ’ایک تباہ ہونے والے گھر کا معاوضہ اگر چار لاکھ ہے تو سرکاری ملازمین کو رشوت دے کر دو لاکھ بھی نہیں مل رہے اور اب لوگوں کو پتہ ہے کہ ان کو ڈیم کے عوض بھی کچھ نہیں ملنے والا۔‘

اب وہاں کے مقامی لوگوں نے احتجاج کے لیے کمیٹیاں بنائی ہیں۔ ’لوگ اب اپنے حقوق کے لیے نکل رہے ہیں اور ان (ریاست) کا اصل مسئلہ یہی ہے۔ اسی لیے اب وہ زبردستی کر رہے ہیں۔‘