پاکستان کے تیسرے میگا ڈیم کا سنگِ بنیاد رکھ دیا گیا

ڈیم

،تصویر کا ذریعہCourtesy ADF

،تصویر کا کیپشندریائے سوات کا وہ مقام جہاں پر مہمند ڈیم کی تعمیر ہونی ہے
    • مصنف, عابد حسین
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

پانچ دہائیوں کے انتظار کے بعد بالآخر دریائے سوات پر مہمند ڈیم کی تعمیر کا سلسلہ آج دو مئی کو شروع ہورہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے آج مہمند ڈیم کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔

ایڈیشنل ڈی جی (سیکریٹریٹ) اعظم ملک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار بھی تقریب میں شرکت کریں گے۔

رواں سال یہ تیسرا موقع ہے جب صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع تین سو ارب روپے سے زائد مالیت کی لاگت سے بننے والے ڈیم کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب منعقد ہو رہی ہے۔

اس سے قبل حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ ڈیم کے تعمیراتی کام کے آغاز کا جنوری کے پہلے ہفتے میں افتتاح کیا جائے گا لیکن اُس پروگرام کے ملتوی ہونے پر دوبارہ اعلان ہوا کہ جنوری کے دوسرے ہفتے میں تقریب منعقد ہوگی لیکن اسے بھی بغیر وضاحت کے ملتوی کر دیا گیا۔

پاکستان میں نئے ڈیمز کی تعمیر اور اس پر ہونے والی بحث کے بارے میں پڑھیے

مقامی میڈیا کے مطابق جنوری میں سنگ بنیاد رکھنے کی تقاریب کو ملتوی کرنے کی وجہ وہ فیصلہ قرار دیا جا رہا تھا جس کے تحت واپڈا نے ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ چینی کمپنی چائنا گژوبا اور پاکستانی کمپنی ڈیسکون کو مشترکہ طور پر دیا جس کی مالیت 180 ارب روپے سے زیادہ کی ہے۔

اس ٹھیکے کے متنازع ہونے کی وجہ وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے کامرس، صنعت اور سرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد کی موجودگی بنی جو ڈیسکون کمپنی کے بانی ہیں۔

اس مفادات کے ٹکراؤ کے سبب حزب اختلاف نے ٹھیکے کے خلاف اعتراض کیا تھا لیکن مارچ میں واپڈا نے اعلان کیا کہ تعمیر کا ٹھیکہ دینے کے سلسلے کا از سر نو جائزہ لینے کے بعد ہر قسم کی رکاوٹ کو ختم کر دیا گیا ہے اور منصوبہ ڈیسکون اور چائنا گژوبا پر مشتمل جوائنٹ وینچر کو ہی دیا جائے گا۔

تعمیراتی کام کے لیے اشتہارات گذشتہ سال جولائی میں دیے گئے تھے اور واپڈا کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انھوں نے ہر طرح سے تسلی کر لی ہے کہ ٹھیکے میں کسی قسم کا کوئی ’غیر قانونی‘ کام نہیں ہوا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے درخواست قومی احتساب بیورو میں جمع کروائی ہوئی ہے۔

مہمند ڈیم کی تفصیلات کیا ہیں؟

ڈیم

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشنتربیلا ڈیم 143 میٹر اونچا ہے اور وہ 1974 میں تعمیر ہوا تھا

پاکستان بننے کے بعد سے آج تک ملک میں صرف دو 'میگا' ڈیمز کی تعمیر ہوئی ہے جن میں سے ایک 138 میٹر اونچا منگلا ڈیم ہے جو 1967 میں مکمل ہوا جبکہ دوسرا 143 میٹر اونچا تربیلا ڈیم ہے جو 1974 میں مکمل ہوا۔

ماضی میں مندا ڈیم کے نام سے معروف منصوبے پر واپڈا نے 1964 میں تحقیق شروع کی تھی اور مارچ 2000 میں جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (جائیکا) نے اس کی پہلی مفصل فیزیبیلیٹی رپورٹ جمع کرائی تھی۔

واپڈا کی جانب سے دی گئی تفصیلات کے مطابق پشاور شہر سے 48 کلومیٹر کا فاصلے پر دریائے سوات پر کنکریٹ کی مدد سے تعمیر کیے جانے والے ڈیم کی اونچائی 213 میٹر ہوگی اور منصوبے کے تحت اس سے آٹھ سو میگا واٹ بجلی حاصل کی جا سکے گی۔

ڈیم کی تعمیر سے بننے والی مصنوعی جھیل میں 13 لاکھ ملین ایکڑ فیٹ پانی سٹور ہو سکتا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ سات گیٹ پر مشتمل ڈیم کی تعمیر سے نہ صرف سالانہ 2800 گیگا واٹ سے زیادہ بجلی بنائی جائی گی بلکہ اس کی مدد سے چارسدہ اور نوشہرہ ضلع کو سیلاب سے متاثر ہونے سے بھی بچایا جا سکے گا۔

ساتھ ساتھ امید ہے کہ ڈیم کی تعمیر سے 16000 ایکڑ کی زمین زراعت کے قابل ہو جائے گی اور ساتھ ہی پشاور شہر کے باسیوں کو 460 کیوسک پینے کا پانی مہیا ہو جائے گا۔

ماہرین کو امید ہے کہ کنکریٹ سے بننے والے ڈیم کے لیے ملک میں سیمنٹ کی صنعت کو فروغ ملے گا کیونکہ اس کی تعمیر کے لیے اگلے چھ سالوں میں 15 لاکھ ٹن سیمنٹ کی ضرورت پیش آئے گئ۔

ڈیم

،تصویر کا ذریعہMinistry of Water & Power

،تصویر کا کیپشنڈیم کی تعمیر کا مقام اور اس کی تعمیر سے متوقع زرعی اثرات

ڈیم کی تعمیر میں اتنا وقفہ کیوں؟

تقریباً 20 سال قبل فیزیبیلیٹی رپورٹ آنے کے بعد بھی ڈیم پر تعمیر کا کام متعدد وجوہات کی بنا پرشروع نہ ہو سکا۔

سال 2003 میں اس وقت کی حکومت نے ایک امریکی کمپنی سے معاہدے کا اشارہ دیا جس کے تحت اُس وقت ایک ارب ڈالر کی لاگت والے ڈیم کی تعمیر کا کام شروع ہو جائے گا لیکن ایسا نہ ہوا۔

سال 2010 کے تباہ کن سیلاب کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ ڈیم کی تعمیر جلد از جلد شروع کریں۔

اسی مد میں حکومت نے 2012 میں ڈیم کی تعمیر سے پہلے انجینیئرنگ ڈیزائن کا عمل شروع کیا جس کے بعد فرانسیسی حکومت کی عالمی ترقیاتی ادارے اے ایف ڈی نے منصوبے میں دلچسپی دکھائی لیکن اس بار بھی منصوبے کی تکمیل ایک خواب ہی رہی۔

طویل انتظار کے بعد گذشتہ سال اپریل میں نیشنل اکنامک کونسل نے مہمند ڈیم کی تعمیر کے سلسلے کو شروع کرنے کی منظوری دی جس کے تحت حکومت نے منصوبے کے لیے دو ارب روپے سے زیادہ رقم مختص کی۔

جولائی 2018 میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے پاکستان میں پانی کی کمی پر ڈیم فنڈ کا آغاز ہوا جس کے تحت دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیمز کے لیے دنیا بھر سے رقم جمع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا لیکن دس ماہ بعد اس فنڈ میں صرف دس ارب روپے ہی جمع ہو سکے ہیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے تفصیلی فیصلے میں یہ واضح نہیں ہے کہ دونوں ڈیمز کی تعمیر کے لیے بنائے گئے فنڈ سے رقم کس طرح بانٹی جائے گی۔

ڈیم
،تصویر کا کیپشنگلگت بلتستان میں وہ مقام جہاں پر دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر ہونی ہے

خیال رہے کہ دیامیر بھاشا ڈیم 4500 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والا منصوبہ ہے جس کی تعمیر پر آنے والی لاگت کا تخمینہ 15 ارب ڈالر کے قریب لگایا گیا ہے اور تعمیر ہونے کی صورت میں اس کا شمار دنیا کے سب سے بڑے ڈیموں میں ہوگا لیکن یہ منصوبہ فوری طور پر شروع نہیں کیا جا سکتا۔

ڈیم کی تعمیر سے لاحق خدشات کیا ہیں؟

جائیکا کی جانب سے کی گئی فیزیبیلیٹی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ڈیم جس علاقے میں قائم ہونا ہے وہ ارضیاتی طور پر زلزلے سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے والا علاقہ ہے جہاں 1896 سے 1992 تک 5.5 ریکٹر سے زیادہ طاقت والے 26 زلزلے رونما ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب آکسفورڈ یونیورسٹی سے منسلک چند محققین نے 2014 میں ایک تحقیق شائع کی جس میں 1934 سے 2007 تک تعمیر کیے جانے والے 245 'میگا' ڈیمز کا جائزہ لیا گیا اور نتیجہ یہ اخذ کیا گیا کہ یہ بڑے ڈیم 'معاشی طور پر سودمند نہیں ہیں۔'

تحقیق کے ایک مصنف پروفیسر بینٹ فلائیوبرگ کہتے ہیں کہ 'وہ جو بڑے ڈیم تعمیر کرنے کے خواہشمند ہیں وہ احمق اور عاقبت نا اندیش افراد ہیں۔'