مہمند میں سکیورٹی اہلکار قتل: ’کیا کوئی عورت اتنی جرات کر سکتی ہے‘

مہمند

،تصویر کا ذریعہSocial Media

،تصویر کا کیپشناس واقعے کے بعد بدھ کو علاقے کے مکینوں نے کئی گھنٹوں تک احتجاج کیا
    • مصنف, حمیرا کنول
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مہمند کی تحصیل صافی میں ایک خاتون نے مبینہ طور پر ایک سکیورٹی اہلکار کو گولی مار کر قتل کر دیا ہے۔

منگل اور پیر کی درمیانی شب پیش آنے والے اس واقعے کی تفصیلات سوشل میڈیا اور بعدازاں ضلعی حکام کی جانب سے موصول ہوئیں۔

بدھ کو کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے احتجاج میں مکینوں نے دعویٰ کیا کہ مقتول سکیورٹی اہلکار جس کا تعلق فرنٹئیر کور (ایف سی یونٹ، فرنٹ کور 205 وونگ) سے تھا ایک گھر میں داخل ہوا۔ واقعے کے وقت گھر میں کوئی مرد موجود نہیں تھا اور خاتون نے سکیورٹی اہلکار پر گولی چلائی جس کے بعد اس کی موت واقع ہو گئی۔

علاقے کے لوگوں نے مرکزی شاہراہ پر احتجاج کیا جس کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئیں۔

مظاہرین کی جانب سے مذمتی بیانات میں کہا گیا کہ ’ہم پر ظلم ہوا ہے اور اب بات ہماری عزتوں اور چاردیواری کے تقدس کی ہے‘۔

احتجاج میں شامل ایک بزرگ شخص نے اپنے خطاب میں کہا 'ہمارے ساتھ تو بہت زیادتی ہوئی ہے اور کسی نے اس پر بات نہیں کی۔ لیکن اب خاتون کی عزت کا سوال ہے، وہ خاتون اتنی غیرت مند ہے کہ اس نے اس پر فائرنگ کر دی۔ پھر علاقے کے مشران کیمپ میں گئے اور ان لوگوں سے کہا کہ آپ ہمارے گھروں کی بے عزتی کیوں کرتے ہو۔'

خیال رہے کہ رواں برس فروری میں شمالی وزیرستان کے علاقے خیسور میں ایک تیرہ سالہ لڑکے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں اس نے الزام عائد کیا تھا کہ سکیورٹی اہلکار ان کے گھر داخل ہو کر خواتین کو ہراساں کرتے ہیں۔

مزید پڑھیے

بتایا گیا ہے کہ مہمند میں مذکورہ واقعے کے وقت گھر میں کوئی مرد موجود نہیں تھا۔ مقتول کا نام محمد شریف ہے اور ان کا تعلق ضلع کوہستان سے بتایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ قتل گولی لگنے سے ہوا ہے جبکہ نعش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوا دیا گیا ہے۔

ضلع مہمند کے ڈی پی او عبدالرشید اور ضلعی انتظامیہ کے ذرائع نے بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ یہ واقعہ کسی سرچ آپریشن کے دوران پیش نہیں آیا اور نہ ہی اہلکار اس وقت ڈیوٹی پر موجود تھا۔

FIR

،تصویر کا ذریعہDPO MOHMAND

،تصویر کا کیپشنواقعے کی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے جس میں مدعی کوئی نہیں اور نہ ہی خاتون کا ذکر کیا گیا ہے

'ایف آئی آر میں خاتون کا ذکر نہیں'

ڈی پی او کی جانب سے بھجوائی گئی ایف آئی آر کے متن کے مطابق واقعے کا ملزم نامعلوم ہے۔ 'یہ واقعہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب تحصیل صافی کے علاقے مہمند گیٹ کے محلہ سید خان کور میں ایک بجے پیش آیا۔ جس کی اطلاع اڑھائی بجے ملی اور ایف آئی آر ساڑھے تین بجے درج کر دی گئی۔'

یہ سوال کرنے پر کہ ایف آئی آر میں کسی عورت کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی یہ درج ہے کہ متعلقہ اہلکار نے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی، ڈی پی او مہمند نے بی بی سی کو بتایا کہ 'کیس میں تفتیش ہو رہی ہے اور ابھی واضح نہیں کہ ہوا کیا ہے۔ موبائل ڈیٹا سے پتہ چلے گا، ابھی یہ معلوم کر رہے ہیں کہ کیا کوئی عورت اتنی جرات کر سکتی ہے کہ وہ گولی مار سکے۔ یا یہ کوئی اور قصہ ہے کوئی اور بھی اس میں ملوث ہو سکتا ہے۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ جس عورت کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کے ہاتھوں قتل ہوا ہے اس کا بیان مظاہرین سے مختلف ہے۔ 'عورت کا کہنا ہے کہ اس کے گھر کے سامنے کسی نے سکیورٹی اہلکار کو قتل کیا ہے۔'

حکام کے مطابق اس واقعے میں ابھی کسی کو گرفتار بھی نہیں کیا گیا۔

بی بی سی نے پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے سے اس واقعے پر ردعمل لینے کے لیے رابطہ کیا جس پر بتایا گیا کہ واقعے کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہی کوئی تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔

مہمند

،تصویر کا ذریعہSocial Media

دوسری جانب ضلعی انتظامیہ کے اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ 'فی الحال تو یہی رپورٹ ہے کہ رات کو کوئی بندہ ان کے دروازے پر دستک دے رہا تھا اور پھر خاتون نے اسے مارا ہے، تحقیقات جاری ہیں۔'

ضلعی انتظامیہ کے اہلکار کے مطابق ایف سی اہلکار کی لاش کو تب وہاں سے اٹھایا گیا جب اس واقعے کی خبر خاتون کے ایک رشتہ دار نے پشاور سے دی۔ اہلکار کا کہنا ہے کہ علاقے میں کوئی سرچ آپریشن نہیں ہو رہا تھا اور نہ ہی بلا اجازت کسی کے گھر میں اس طریقے سے داخل ہوا جاتا ہے۔

انتظامی اہلکار نے بتایا کہ مظاہرین کی جانب سے پیش کیے جانے والے مطالبات کے تحت آلۂ قتل تو واپس نہیں کیا گیا تاہم خاتون کا موبائل لوٹا دیا گیا ہے۔

ضلعی انتظامیہ کی جانب سے سوشل میڈیا پر چلنے والی اس خبر کی تردید کی کہ متعلقہ ایف سی اہلکاروں کی تعداد دو تھی اور ایک زخمی حالت میں فرار ہو گیا ہے۔