پنجاب میں رواں برس کا پہلا پولیو کیس: پولیو ختم کیوں نہیں ہو رہا؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, عمر دراز ننگیانہ
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام
پاکستان کے دوسرے بڑے شہر اور پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں شالیمار ٹاؤن کے علاقے یو سی 20 میں ایک آٹھ ماہ کے بچے میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تشخیص کی گئی ہے۔
پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر منیر احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور سے آٹھ سال کے بعد پولیو کا کیس سامنے آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ماحول میں پولیو کے وائرس کی موجودگی کی وجہ سے اس بات کا خطرہ موجود تھا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں مزید کوئی کیس سامنے آجائے۔‘
شالیمار ٹاؤن کے آٹھ ماہ کے بچے میں وائرس کی موجودگی کی تصدیق اس وقت ہوئی جب اسے علامات سامنے آنے پر قریبی ہسپتال لایا گیا۔ ڈاکٹر منیر کا کہنا تھا کہ بظاہر متاثرہ بچے کو پولیو کے قطروں کی مطلوبہ مقدار نہیں پلائی گئی تھی۔
’اس نے چار قطرے پیے تھے جبکہ سات ہونے چاہیے تھے۔‘
ڈاکٹر منیر احمد کے مطابق بچے کے والدین انتہائی غریب تھے اور دونوں کام کرتے تھے۔ اس کی والدہ کام پر بچے کو ساتھ لے جاتی تھیں جس کی وجہ سے وہ قطرے پلانے والی پولیو ٹیموں کو گھر پر نہیں ملا۔ قریب ترین ہسپتال ان کے گھر سے محض سو گز کے فاصلے پر تھا۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
پولیو کا وائرس کیسے پھیلتا ہے؟
ڈاکٹر منیر کے مطابق ’پولیو کا وائرس انسانی انتڑیوں میں سفر کرتا ہے اور انسانی فضلے کے ذریعے بڑی تعداد میں یہ وائرس ماحول میں پھیل جاتا ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
پولیو کے کیس بار بار کیوں سامنے آرہے ہیں؟
ڈاکٹر منیر کے مطابق پاکستان میں گذشتہ برس پولیو کے 12 کیسز سامنے آئے۔
صوبہ پنجاب کی مثال دیتے ہوئے ڈاکٹر منیر نے بتایا کہ سنہ 2016 میں صوبے سے پولیو کا کوئی کیس نہیں آیا لیکن سنہ 2017 میں ایک کیس سامنے آیا تھا۔ اسی طرح سنہ 2018 میں بھی صوبہ بھر سے کوئی کیس نہیں سامنے آیا مگر رواں برس کے آغاز پر ہی ایک کیس سامنے آ چکا ہے۔
ڈاکٹر منیر کہتے ہیں ’بچے چھوٹ جاتے ہیں۔ لاہور میں ہر مہم کے دوران دو سے تین ہزار کے قریب بچے قطرے پینے سے محروم رہ جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پولیو کے کیس بار بار سامنے آرہے ہیں۔`
’ہماری ٹیم دو تین یا چار بار جائے مگر اگر بچہ نہیں ملا تو وہ قطرے نہیں پی پائے گا۔ اس کے بعد ماں باپ کو کہا جاتا ہے کہ وہ بچے کو قریبی ہسپتال لا کر پولیو کے قطرے پلوائیں مگر ایسا نہیں ہوتا۔‘
انھوں نہ کہا ’حالیہ سامنے آنے والے کیس ہی کو دیکھ لیں کہ بچے کے گھر سے محض سو گز کے فاصلے پر ہسپتال تھا مگر اس کے ماں باپ اسے وہاں قطرے پلانے یا حفاظتی ٹیکے لگوانے نہیں لائے۔‘
ڈاکٹر منیر احمد نے مزید بتایا کہ حکومتِ پنجاب پیر کے روز سے لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی میں پولیو کے قطرے پلانے کی نئی مہم کا آغاز کر رہی ہے۔
اس دوران محکمہ صحت کی ٹیمیں جن میں 13 ہزار کے قریب اہلکار شامل ہوں گے، گھر گھر جا کر پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں گی۔
تاہم انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس بات کا اندیشہ موجود ہے کہ اس مہم کے بعد بھی بچوں کی ایک بڑی تعداد قطرے پینے سے محروم رہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
پولیو کا خطرہ کن شہروں میں زیادہ ہے؟
ڈاکٹر منیر کے مطابق صوبہ پنجاب میں لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، راجن پور، ملتان، ڈیرہ غازی خان اور رحیم یار خان وہ شہر ہیں جہاں پولیو کا خطرہ زیادہ ہے۔
اس کی وجہ ڈاکٹر منیر احمد یہ بتاتے ہیں کہ ان شہروں کے لوگ بڑی تعداد میں نقل مکانی کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ رکنے کے بعد وہ ایسے علاقوں میں چلے جاتے ہیں جن تک رسائی مشکل ہوتی ہے۔
اس وائرس کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟
ڈاکٹر منیر کے خیال میں پولیو کے خاتمے کے لیے حکومتی پالیسی درست ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ پولیو سے بچاؤ کی مہمات کے معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ کم سے کم بچے قطرے پینے سے محروم رہیں۔ اور یہ معیار والدین کے تعاون کے بغیر بہتر نہیں کیا جا سکتا۔
'پولیو کی ٹیمیں جس قدر ممکن ہوتا ہے گھر گھر چکر لگاتی ہیں تاہم ضرورت اس امر کی ہے جب بھی مہم چلائی جائے اُس وقت پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو قطرے ضرور پلوائیں۔ اور اگر والدین کسی وجہ سے گھر پر موجود نہیں تھے تو وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی بھی قریبی ہسپتال سے بچےکو قطرے پلوا لیں۔'
'اس میں کم یا زیادہ قطروں کی کوئی حد نہیں۔ یہ اس علاقے پر منحصر ہے کہ آپ جس علاقے میں رہتے ہیں اس میں پولیو کا خطرہ کتنا ہے۔'
ڈاکٹر منیر کے مطابق 'اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ انسانوں اور ماحول دونوں میں سے پولیو وائرس کا مکمل خاتمہ کیا جائے، پاکستان کے چاروں صوبوں اور افغانستان کو مشترکہ کوشش اور مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔'








