امریکی دباؤ سے کیا مذہبی شدت پسندی کم ہو گی؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, ثقلین امام
- عہدہ, بی بی سی اردو، لندن
ایسے حالات میں جب پاکستان گزشتہ چار دہائیوں سے جاری شدت پسندی کے شدید رجحانات کے باوجود آسیہ بی بی کو رہا کر دیا ہے، پاکستان کو مذہبی آزادی نہ ہونے والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا جانا، ملک میں رواداری کے رویے کیلیے کوشاں حلقوں کیلئے اسے مثبت پیغام نہیں سمجھا جائے گا۔
آسیہ بی بی کو جن پر پیغمبرِ اسلام کی شان میں گُستاخی کا الزام لگا تھا، نچلی عدالتوں نے سزائے موت سنائی تھی۔ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے انھیں رہا کرنے کیلئے جو کوششیں کیں ان کا انجام ان کے اپنے قتل پر ہوا۔ اُس کے بعد پاکستان میں کوئی ریاستی ادارہ اس معاملے پر ایک بے باک اور منصفانہ اقدام لینے کیلئے تیار نہ تھا۔
حال ہی میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کی گزشتہ کئی برسوں سے اپنی سزا کے خلاف دائر کی گئی اپیل کو سننے کا فیصلہ کیا اور چند دنوں کی سماعت کے بعد آسیہ بی بی کو بری کر کے رہا کرنے کا فیصلہ سنایا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
مبصرین کے مطابق، اگرچہ آسیہ بی بی تاحال ایک آزاد شہری کی طرح پاکستان میں گھوم پھر نہیں سکتیں لیکن اُن کی رہائی کا فیصلہ ریاست کے اِس عزم کا واضح ثبوت ہے کہ وہ ملک میں شدت پسندی کے سامنے جُھکے گی نہیں۔
کئی مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ کے اس اعلان کے بعد پاکستان میں امریکہ مخالف گروہوں کے پاس ایک نیا جواز پیدا ہو گا کہ پاکستان کسی بھی طرح امریکہ کو خوش نہیں کرسکتا ہے۔ یورپی یونین نے آسیہ بی بی کی رہائی کا خیر مقدم کیا تھا۔ اسی طرح امریکہ نے بھی آسیہ بی بی کی رہائی کو خوش آئند کہا تھا۔
لیکن اس کے کچھ ہی ہفتوں کے بعد پاکستان کو ایک نئی بری خبر ملی۔ ناقدین یہ کہنے میں اپنے آپ کو حق بجانب سمجھیں گے کہ امریکہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے، ورنہ گزشتہ چند برسوں کی نسبت فی الحال ریاست کا شدت پسندی کے خلاف عزم زیادہ مضبوط نظر آتا ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
پاکستان کا موقف

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اس دوران پاکستان نے امریکہ کے وزیرِ خارجہ کے اُس بیان کو مسترد کردیا ہے کہ جس میں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جہاں مذہبی آزادی کے حق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ کا یہ فیصلے سیاسی مقاصد حاصل کرنے لیے کیا گیا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کا نام کانگریس کے ایک قانون پر عملدرآمد کرتے ہوئے اُس سیاہ فہرست میں شامل کیا ہے جن میں اُن ممالک کے نام ہیں جہاں مذہبی آزادی کے لیے شدید تشویش ناک حالات ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کیلئے حالات بد تر ہوئے ہیں۔
امریکی کانگریس کے قانون کے مطابق اس فہرست میں شامل ممالک میں مذہبی آزادی کیلئے حالات بہتر بنانے کیلئے دباؤ ڈالنا امریکی انتظامیہ کی ذمہ داری بن جاتا ہے۔ اس فہرست میں نو ممالک کے نام میں مزید ایک برس کیلئے توسیع کردی گئی ہے۔ ان میں چین، ایران، میانمار، شمالی کوریا، سعودی عرب، سوڈان، تاجکستان اور ترکمانستان کے نام شامل ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
پابندیوں کا خدشہ
انٹرنیشنل کونسل آف جیورسٹ کی قانونی ماہر ریما عمر نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ امریکہ کانگریس کے قانون کے تحت اس فہرست میں شامل ممالک پر 'اقتصادی پابندیاں' بھی عائد کرسکتا ہے۔ امریکی انتظامیہ اس قانون کے مطابق یا تو پابندیاں عائد کرے یا کانگریس کو اس ملک میں حالات بہتر ہونے کا اشارہ دیتے ہوئے اس ملک کو پابندیوں سے استثنیٰ کا سرٹیفیکیٹ دے۔
اس طرح اس فہرست میں نام آنے کے بعد بھی امریکی حکومت پابندیاں عائد کرنے کا فیصلے اپنی ضرورت کے مطابق کر سکتی ہے نہ کہ زمینی حقائق کے مطابق۔ اس فہرست میں وہ ممالک جو امریکہ کے اتحادی نہیں ہیں اُن پر یا تو پہلے ہی سے کسی اور وجہ سے پابندیاں عائد ہیں، یا ان پر اب پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ لیکن جو ممالک امریکہ کے اتحادی ہیں اُن کے بارے میں امریکہ کا رویہ عملیت پسندی والا ہوگا، مثلاً سعودی عرب۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائیٹس واچ کے مطابق، سعودی عرب کو اُن ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جہاں انسانی حقوق اور مذہب کی آزادی کا مکمل فقدان ہے۔ پھر سعودی عرب نے اپنے ہمسایہ ملک اور عالم عرب کے غریب ترین ملک یمن پر حملوں کا ایک سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ 'سیو دی چلڈرن' نامی تنظیم کے مطابق، سعودی کی بمباری سے اور محاصرے کی وجہ سے یمن میں اس دور کا بد ترین انسانی بحران پیدا ہوچکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یمن میں اس بحران کے دوران پچاسی ہزار بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکہ کا بھارت سے مختلف رویہ
اسی طرح پاکستان کے سیاسی اور سماجی حلقے اس بات پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کرچکے ہیں کہ امریکہ کا بھارت سے تعلقات کے سلسلے میں ایک دوہرا معیار ہے۔ اسی برس جون میں انسانی حقوق کے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر زید الرعد حسین نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں آزادانہ تحقیقات کی تجویز دی تھی لیکن امریکہ نے ان کی اس تجویز کی حکایت نہیں کی۔
اس کے علاوہ بھارت میں گاؤ کُشی کے نام پر کئی مسلمانوں کو ہندو انتہا پسندوں کے ہجوم نے قتل کیا۔ بھارت کے تجزیہ نگاروں کے مطابق ہجوم کے یہ حملے ہی کافی نہیں تھے بلکہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے گاؤ کُشی کے نام پر ہجوم کے قتل کے واقعات کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی۔ اس وجہ سے حکومت مخالف رہنماؤں اور دانشوروں نے یہ سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا شدت پسندی اب بھارت کی ایک ریاستی پالیسی بن چکی ہے۔
انہی دوہرے معیار کی وجہ سے کئی ماہرین نے انسانی حقوق، مذہبی عدم رواداری، اقلیتوں کیلئے تنگ ہوتی ہوئی دنیا یا عورتوں پر جنسی تشدد کے نام پر عائد کی گئی پابندیوں کو امریکہ کی خارجہ پالیسی کے حربے قرار دیا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ کچھ ایسے حلقے بھی ہیں جو ان پابندیوں یا ان حقوق کے نام پر کی گئی کاروائیوں بشمول فوجی مداخلت کو جائز اور درست بھی قرار دیتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکی خارجہ پالیسی اور انسانی حقوق
دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ کی جاپان اور جرمنی میں مداخلت کو ان ممالک کے سیاسی اور سماجی حالات کو بہتر بنانے کیلئے بہتر پالیسی قرار دیا گیا ہے۔ بوسنیا میں نیٹو کی فوجی مداخلت کو بھی جائز قرار دیا گیا۔ افغانستان اور عراق میں مداخلت کو بھی جہورییت کیلئے ایک درست قدم قرار دیا جاتا ہے، لیکن کئی مبصرین ان مداحلتوں کو، خاص کر عراق میں فوجی مداخلت کو، غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔
مغربی ممالک انسانی ہمدردی کے نام پر پابندیاں عائد کرنے سے لیکر فوجی مداخلت کے درمیان 'کیرٹ اینڈ سٹک' (ترغیب دینا اور سختی برتنا) کے ملے جلے مجموعے کو استعمال کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ امریکہ کی اس مداخلت کی پالیسی کو وہاں کے سیاستدان اور اکیڈمیا کا جواز اپنے ملکی آئین کے حوالے سے دیتے ہیں۔
ایک امریکی تحقیقی ادارے بروکنگ انسٹیٹیوٹ کے رابرٹا کوہن اس جامع اندز میں یوں پیش کیا ہے: 'امریکہ کی دنیا میں عزت صرف اس کی خوشحالی اور فوجی قوت ہی نہیں ہے بلکہ اس کا جمہوری نظام اور انسانی حقوق سے اس کی غیر متزلزل کمٹمنٹ بھی ہے۔ امریکہ کا حقوق کا قانون (بِل آف رائیٹس) تمام آزادیوں کی ضمانت ہے۔ اور یہی اقدار امریکہ کی خارجہ پالیس میں بھی جھلکنا چاہئیے۔'

،تصویر کا ذریعہGetty Images
انسانی حقوق کیلئے ترغیب یا دھونس کی پالیسی
لیکن ایمیلی برٹن جو کہ تحقیقی مقالے"سوشل سائینس آف ہیومن رائیٹس' کی مصنفہ ہیں کہتی ہیں کہ انسانی حقوق کی حالت کسی بھی ملک میں اقتصادی پابندیوں کے ذریے یا فوجی مداخلت سے بہتر نہیں ہوئی ہے، البتہ چند ممالک میں ان کے برے اثرات ضرور نظر آئے ہیں۔ ان کے بقول ترغیب دینے کے اقدامات سے تو حالات بہرحال بہتر ہوئے ہیں، لیکن پابندیوں سے حالات بد سے بدتر ہوئے ہیں۔
'کسی بھی پالیسی کا ٹُول انسانی حقوق کی بہتری کیلئے مسلسل کام نہیں کرتا ہے۔ دوسرے ممالک میں انسانی حقوق کے حالات کو بہتر کرنے کی حد تک اسے (امریکہ کو) کو یہ قبول کرنا چاہئیے کہ وہاں کے مقامی حالات بہت فیصلہ کن ہیں، جو کامیاب کوششوں کی افادیت کو بھی محدود کردیتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اسی پس منظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کا نام اُس فہرست میں شامل کیا ہے جن میں اُن ممالک کے نام ہیں جہاں مذہبی آزادی کے لیے شدید تشویش ناک حالات ہیں، پاکستان کیلئے ایک مددگار اقدام ثابت نہیں ہو سکتا۔
اگرچہ پاکستان کو حالات بہتر کرنے کی بہت زیادہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے لیکن پاکستان کے زمینی اور مقامی حالات کو سمجھے بغیر اُس کی سرزنش کرنا یا پابندیوں کا خوف دلانا بے سود ثابت ہو سکتا ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ سیاسی مفادات اور انسانی حقوق کے درمیان واضح فرق ہونا چاہئیے۔











