توہینِ مذہب کے الزامات پر پاکستان سے بھاگنے پر مجبور افراد کی کہانیاں

پاکستان میں پچھلے پچیس سال میں ساٹھ سے زیادہ افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے جن پر توہین مذہب یا پیغمبر اسلام کی توہین کا الزام تھا۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے بھی قرار دیا ہے کہ ذاتی رنجشوں اور حتیٰ کے جائیداد کے تنازعات میں بھی توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔ توہین مذہب کا یہ قانون آسیہ بی بی کی سپریم کورٹ کی جانب سے توہین مذہب کیس میں بریت کے بعد دوبارہ سرخیوں میں ہے۔

آسیہ بی بی کیس کے بارے میں مزید جانیے

آسیہ بی بی کے وکیل کا خیال ہے کہ چار بچوں کی والدہ آسیہ بی بی اور ان کے خاندان کو اپنی حفاظت کے لیے پاکستان کو چھوڑنا ہو گا۔

جن لوگوں پر توہین مذہب کا الزام لگاتا ہے، ان پر کیا گزرتی ہے؟ یہی جاننے کے لیے سمعیہ خان نے ان چار افراد سے بات کی جنھوں نے ایسے حالات میں برطانیہ جائے پناہ تلاش کی۔

’ہمیں اپنے ملک سے پیار ہے، پاکستان ہمارا گھر ہے‘

جان (اصل نام نہیں) ایک اہم مسیحی شخصیت ہیں جو پاکستان کی سیاست اور بیکنگ شعبے سے وابستہ تھے۔

جان کی زندگی اس وقت بدل گئی جب ان کے 13 سالہ بیٹے پر سکول میں توہینِ مذہب کا الزام لگا کیونکہ انھوں نے مبینہ طور پر اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

انھوں نے اپنی بیوی اور دو بیٹوں کے ساتھ برطانیہ میں ایک دہائی سے زیادہ زندگی گزار دی ہے تاہم وہ خود پر عائد ہونے والے توہینِ مذہب کے الزامات سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

وہ ابتدائی طور پر برطانیہ کے شہر برمنگھم میں ایک مسجد کے قریب رہے۔ یہ علاقہ پاکستانی مسلمانوں میں مقبول تھا۔

ان کا کہنا ہے ’ایک دن ایک شخص نے دروازے پر دستک دی اور میری بیوی پر مسجد کی دیوار کے باہر کوڑے کا سیاہ بیگ رکھ کر مسجد کی بےحرمتی کرنے کا الزام عائد کیا۔‘

سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھنے کے بعد یہ ثابت ہوا کہ بیگ کسی اور نے رکھا تھا، تاہم یہ بات ختم ہونے کے بعد بھی مسائل جاری رہے۔

ان کا کہنا ہے ’اس واقعے کے بعد جب بھی ہم اپنے گھر سے باہر نکلتے مقامی برادری مسلسل ہم پر نظر رکھتی، یہاں تک کہ پانچ مکان بدلنے کے بعد ہم زیادہ عیسائیوں کے علاقے میں آباد ہو گئے۔‘

انھوں نے کہا کہ ان کے دونوں بیٹے اب تک اس صدمے سے دوچار ہیں اور انھوں نے پاکستان واپس جانے سے انکار کر دیا ہے۔

جان کا مزید کہنا ہے ’میں ایک برطانوی شہر کے طور پر پاکستان جانا چاہتا ہوں کیونکہ میں خود کو برطانوی پاسپورٹ کے ساتھ زیادہ محفوظ سمجھتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیے

’آپ نے کچھ کیا یا کہا ہو گا‘

عاصم سعید ایک سنی مسلمان ہیں، تاہم سوشل میڈیا پر پوسٹوں میں وہ پاکستان کی طاقتور فوج پر تنقید کرتے ہیں۔

ان پر توہین مذہب کا الزام تھا جس کی وہ تردید کرتے ہیں۔

عاصم سعید کا کہنا ہے کہ ان پر یہ الزامات صرف اس وجہ سے عائد کیے جاتے ہیں کیونکہ وہ پاکستانی فوج کے ناقد ہیں۔

وہ ایک سال پہلے برطانیہ آئے تھے اور تب سے اب تک وہ محتاط زندگی گزار رہے ہیں۔

انھوں نے کہا ’برطانوی مسلمانوں میں بھی بہت عدم برداشت ہے۔ اسد شاہ نامی ایک دکاندار کو مذہب کی بنیاد پر قتل کیا گیا، اسی طرح کسی دن مجھ پر بھی حملہ ہو سکتا ہے۔‘

عاصم کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے بجپن کے دوستوں کو کھو دیا ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے ضرور کچھ کیا یا کہا ہو گا‘ جس سے میں اپ سیٹ اور بے چین ہو جاتا ہوں۔

ان کا مزید کہنا ہے ’اگر آپ پر توہینِ مذہب کا الزام ہے تو اس صورت میں پاکستان واپس جانا بہت خطرناک ہے کیونکہ لوگ آپ کو جانتے ہیں۔ اگر آپ ایک دہائی کے بعد بھی پاکستان واپس جائیں تو بھی آپ کو مارا جا سکتا ہے۔‘

عاصم محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان تبدیل نہیں ہو گا۔ انھوں نے آسیہ بی بی کی توہینِ مذہب کیس میں بریت کا خیر مقدم کیا ہے۔

’میں کبھی واپس نہیں جاؤں گا‘

طاہر مہدی احمدی ہیں اور پاکستان میں اپنی برادری کے لیے ایک روزنامے کے پبلشر اور مینیجر ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان میں سنہ 1970 کی دہائی میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا جس کے بعد سے احمدیوں کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستان میں تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ پیغمبرِ اسلام کو آخری نبی نہیں مانتے۔

طاہر مہدی پر گستاخانہ مواد شائع کرنے کا الزام ہے جس کی وہ تردید کرتے ہیں۔ انھوں نے ڈھائی سال جیل میں گزارے۔

ان کی قید کے زمانے میں ان کے دو بھائی اس دنیا سے گزر گئے اور انھیں ان کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔

طاہر کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن لوگوں پر توہینِ مذہب کا الزام ہوتا ہے انھیں قید کے دوران برترین سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انھوں نے بتایا: ’ہمیں ایک ہفتے میں اپنے قریبی رشتہ داروں جیسے بہن، بھائی، والدین، بیوی اور بچوں سے صرف ایک بار 20 منٹ تک ملنے کی اجازت تھی جبکہ باقی قیدیوں کو ان کے رشتے داروں اور دوستوں کے ساتھ ہفتے میں تین بار 30 منٹ تک ملنے دیا جاتا تھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ آسیہ بی بی کی توہینِ مذہب کیس میں بریت ’عظیم انصاف‘ ہے تاہم انھیں اپنے برادری کے مستقبل کی فکر ہے۔

طاہر مہدی کے مطابق ’میں پاکستان میں احمدی برادری کے لیے کوئی تبدیلی نہیں دیکھتا اور میں کبھی پاکستان واپس نہیں جاؤں گا۔‘

’زندگی پہلے کی طرح کبھی نہ تھی‘

زاہدہ کے والد ڈاکٹر حامد اللہ رحمت اللہ پاکستان میں ایک نامور دندان ساز تھے جن سے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے ان کے مریض محبت کرتے تھے۔

تاہم زاہدہ کا کہنا ہے کہ مذہبی انتہا پسند ان کا تعلق احمدی فرقے سے ہونے کے باعث ان سے نفرت کرتے تھے۔ ان کے مطابق یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے ایک عبادت گاہ بنائی تھی جسے جرم تصور کیا گیا۔

ڈاکٹر حامد اللہ رحمت اللہ کو 11 سال قبل اغوا کیا گیا اور اس سے پہلے ان پر دو حملے کیے گئے۔

زاہدہ نے کہا ’میرے والد پر تشدد کیا گیا، انھیں مجبور کیا گیا کہ وہ سنی اسلام مذہب اختیار کریں اور جب انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا، انھوں نے میرے والد کے سر اور سینے میں گولی مار دی۔‘

اس واقعے کے وقت ڈاکٹر رحمت اللہ کے بیٹے پہلے ہی سے برطانیہ میں مقیم تھے۔

ڈاکٹر رحمت اللہ کے قتل کے بعد ان کا خاندان پاکستان میں قائم احمدی علاقے میں منتقل ہو گیا اور برطانیہ جانے سے پہلے وہاں ’چھپ کر‘ رہنے لگا۔

زاہدہ کا کہنا ہے: ’زندگی پہلے کی طرح کبھی نہ تھی۔ میرا خاندان مالی اور ذہنی طور پر متاثر ہوا۔‘

نئے ملک میں زندگی کو دوبارہ شروع کرنا بہت مشکل تھا۔

زاہدہ کا کہنا ہے کہ آسیہ بی بی کیس نے پاکستان میں رہنے والی اقلیتی برادری کو امید دلائی ہے۔