آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
پاور سیکٹر کے گردشی قرضے 11 کھرب سے زائد
- مصنف, سارہ حسن
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان میں توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کا حجم گیارہ کھرب روپے سے تجاوز کر گیا ہے جبکہ حکومت نے گردشی قرضوں کی وجوہات کا تعین کرتے ہوئے مسئلہ کا حل تجویز کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دی ہے۔
وزیر خزانہ اسد عمر کی سربراہی میں اقتصادی رابطے کمیٹی کے پہلے اجلاس میں وزاتِ توانائی نے گردشی قرضے کے بارے تفصیلی بریفنگ دی۔
حکام نے بتایا کہ اکتیس جولائی تک گردشی قرضوں کا حجم 596 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے اور صرف جولائی کے مہینے میں سرکلر ڈیٹ 30 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
مزید جانیے
ای سی سی کو بتایا گیا کہ اس سے پہلے 582 ارب روپے کے گردشی قرضے بینکوں سے قرض لے کر ادا کیا گئے ہیں اور وہ رقم بینکوں کو ادا کرنی ہے۔
اس طرح مجموعی طور پر گیارہ کھرب 88 ارب روپے مالیت کے گردشی قرضے قابلِ ادائیگی ہیں۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
اقتصادی رابطہ کمیٹی نے گردشی قرضوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا اور ان گردشی قرض بڑھنے کی وجوہات پر غور کیا۔
کمیٹی میں قرضوں کی مالیت بڑھنے کی پانچ سے چھ وجوہات کا تعین کیا گیا اور کیمٹی تشکیل دی آئندہ اجلاس میں اس قرض کو چکانے کے لیے تجاویز پیش کرے گی۔
پاکستان کے توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کا مسئلہ بہت پرانا ہے۔
اس قبل گذشتہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد 500 ارب روپے سے زائد کی گردشی قرضوں کو پبلک ہولڈنگ کمپنی کے اکاؤنٹس میں ظاہر کر کے بینکوں سے اُس کے عوض قرض لیا تھا جس پر حکومت سود ادا کر رہی ہے۔
گردشی قرضے کیا ہوتے ہیں؟
توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں سے مراد یہ ہے کہ جتنی مالیت کی بجلی پیدا کر کے فروخت ہو رہی ہے اتنی مالیت کی وصولی نہیں ہو رہی۔
پاکستان میں بجلی کی چوری، بجلی کی ترسیل کا پرانا اور بوسیدہ نظام اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی ناقص کارکردگی یہ وہ وجوہات جن کی وجہ سے بجلی پیدا کرنے لاگت پوری نہیں ہو رہی ہے۔
پاکستان میں زیادہ تر بجلی نجی شعبے کے پاور پلانٹس پیدا کر رہے ہیں جسے حکومت خریدتی اور آئیسکو، لیسکو اور کے الیکٹرک سمیت مختلف ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ذریعے صارفین کو فراہم کرتی ہے۔
جب یہ کمپنیاں صارفین سے بل وصول نہیں کر پاتی تو حکومت کے لیے پاور پلانٹس کو رقم ادائیگی مشکل ہو جاتی ہے اور سرکلر ڈیٹ یا گردشی قرضا بڑھتا جاتا ہے۔
پاور پلانٹس کو رقم نہیں ملتی تو پھر وہ پی ایس او سمیت دیگر فرنس آئل درامد کرنے والی کمپنیوں کو ادائیگی نہیں کر پاتی اور پھر آئل کمپنیوں کے پاس رقم نہیں ہوتی وہ بیرون ممالک سے تیل نہیں خرید پاتی۔
اس طرح یہ قرضہ ایک سے دوسری اور دوسرے سے تیسرے فریق میں گھومتا رہتا ہے۔
بجلی کی لاگت اور بجلی کے بلوں سے ہونے والی آمدن کم ہو تو پھر وہ فرق کوئی نہ کوئی تو پورا کرے گا۔
ایسے میں حکومت اکثر اوقات سرکاری خزانہ سے یہ رقم پاور پلانٹس کو ادا کرنے کے لیے کمرشل بینکوں سے قرض لیتی ہے۔