میری نہیں یہ پانی کی کہانی ہے!

    • مصنف, آمنہ مفتی
    • عہدہ, مصنفہ و کالم نگار

میری نہیں یہ پانی کی کہانی ہے

حصہ دوم۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انیس سو سینتالیس میں جب پاکستان بنا تو یہاں ہر شخص کے لیے پانچ ہزار کیوبک میٹر صاف پانی میسر تھا اب یہ سطح کم ہوتے ہوتے ایک ہزار کیوبک میٹر سے بھی نیچے آگئی ہے۔ یہ صورت حال قریباً ایتھوپیا والی ہے۔

چند سال پہلے کا ذکر ہے کہ گلیات میں اور خصوصاً مری میں صاف اور پینے کے قابل پانی کے بے شمار جھرنے اور چشمے موجود تھے۔ یہ جھرنے ڈیزی کے پھولوں سے لدی چٹانوں سے شور مچاتے گرتے تھے اور ڈھلانوں میں سیب کے باغوں، آلوچوں اور اخروٹوں سے بھری صحنچیوں سے گزرتے چھتر نالے میں جا گرتے تھے۔

کوئٹہ سے اٹھارہ کلومیٹر پہ حنہ جھیل تھی، تازہ پانی کی خوبصورت جھیل، جس کے کناروں پہ سیاح اور پرندے، ایک سی ہی حیرت میں پر سنوارتے، کیمرے سنبھالتے نظر آتے تھے۔

آمنہ مفتی کے دیگر کالم پڑھیے

چکوال اور چوآ سیدن شاہ کے درمیان سطح مرتفع پوٹھو ہار میں صدیوں پرانے آثار ستگھرا کے نام سے پائے جاتے ہیں۔ یہاں میٹھے پانی کا ایک نیلا تالاب تھا۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بھگوان شیو جب پاروتی کی موت پہ روئے تو ان کا ایک آنسو، یہاں گرا اور یہ تالاب بن گیا۔

پچھلے چند سالوں میں یہ نیلے، فیرزی، سفید، جھاگ اڑاتے، پراسرار، مقدس پانی، غائب ہو گئے۔ مری کے چشموں میں، کوڑا کرکٹ اور پلاسٹک کے غلیظ لفافے نظر آتے ہیں۔ ہنہ کی تہہ سوکھ کر تڑخ گئی اور شیو کا آنسو، ایک گدلی کیچڑ بن کے رہ گیا۔

کراچی کے قریب ملک کی سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیل ہے۔ مانچھر جھیل، کوہِ کیر تھر سے نکلتی ہے۔ یہ جھیل بھی سیم نالوں کی آلودگی اور پانی کی کمیابی کے باعث خطرے کا شکار ہے۔

ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ کا پانی پینے کے لیے بہترین شمار ہوتا ہے۔ پاکستان میں بے شمار قدرتی اور چند مصنوعی جھیلیں پائی جاتی ہیں۔

قدرتی جھیلیں، یا تو گلیشئیرز سے نکلتی ہیں یا بارش کے پانی کو ذخیرہ کرتی ہیں۔ ان سب جھیلوں کے بارے میں عجیب عجیب کہانیاں مشہور ہیں۔ جن میں ایک بات مشترک ہے کہ ان جھیلوں کی تھاہ کسی نے نہ پائی۔

ہنہ جھیل کے سوکھنے پہ یہ عقدہ بھی حل ہوا کہ یہ جھیلیں بھی کبھی سوکھ سکتی ہیں۔ شیو کا آنسو سوکھ سکتا ہے، عقیدت، حیرت اور یقین کا جو تعلق انسان نے پانی کے ساتھ جوڑا ہوا ہے اب وقت آگیا ہے کہ اس پہ منطقی بات کی جائے۔

مری کے چشمے سوکھنے کے بعد وہاں ٹینکر مافیا نے قبضہ جما لیا۔ راولپنڈی اور کراچی کے کئی علاقوں میں بھی پانی بالکل نہیں پایا جاتا، ٹینکر ہی آکر پانی فراہم کرتے ہیں۔

تھر، چولستان اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں بھی پانی دور دراز سے ٹینکروں، گیلنوں اور مٹکوں میں لایا جاتا ہے۔ اس سال حنہ جھیل میں بارشوں کے بعد پانی آیا لیکن اگر موسمی تبدیلیوں کے باعث بارشوں کا طرز بدل گیا تو کیا یہ جھیل ہمیشہ کے لیے سوکھ جائے گی؟

میٹھے پانی کی قدرتی اور مصنوعی جھیلیں، سب کی سب خشک سالی کے خطرے سے متاثر ہو سکتی ہیں۔ دریا اور نہریں بھی ظاہر ہے بارشوں اور برفباری کی کمی کے باعث سکڑ سکتے ہیں۔ مزید برآں ان جھیلوں، دریاؤں اور نہروں کا پانی مسلسل صنعتی اور شہری آلودگی کا شکار ہو رہا ہے۔

زیرِ زمین پانی میں سیوریج لیکیج کے باعث بے شمار بیماریوں کے جراثیم سرائیت کر رہے ہیں۔ ایک خاص حد سے آگے زیرِ زمین پانی میں آرسینک یا سنکھیا یا دیگر خطرناک عناصر شامل ہونے لگتے ہیں جس کے باعث یہ پانی استعمال کے قابل نہیں رہتا۔

پاکستان میں صورتحال مندرجہ بالا تمام خطرات کی حدوں تک پہنچ چکی ہے۔ کالا باغ ڈیم اگر بن گیا تو میٹھے پانی کی ایک مصنوعی جھیل ہو گا جادو کا چراغ نہیں، جس سے پانی کی کمی کا خاتمہ پلک جھپکتے میں ہو جائے۔ اس ڈیم کی بجائے کئی چھوٹے ڈیمز بنا کر بھی اسی قدر پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں ہر سال 70 بلین ڈالر مالیت کا میٹھا پانی سمندر میں گر کے ضائع ہو جاتا ہے کیونکہ اس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے مصنوعی جھیلیں اور ڈیمز نہیں ہیں۔ پاکستان میں اس وقت 153 ملین ایکڑ فیٹ تازہ پانی، ندی، نالوں دریاؤں اور جھیلوں کی شکل میں جب کہ 24 ملین ایکڑ فیٹ زیرِ زمین پانی موجود ہے۔

پاکستان کے تین مشرقی دریاؤں پہ ہندوستان سندھ طاس معاہدے کی مبینہ طور پہ خلاف ورزی کرتے ہوئے، ایسے منصوبے بنا رہا ہے جو ’رن آف دا ریور‘ منصوبے نہیں بلکہ ان کے ذریعے ان دریاؤں میں پانی کی باقاعدہ کمی کا خطرہ ہے۔

یہاں تک کہ نیلم دریا جو کہ جہلم کا معاون ہے، مبینہ طور پہ ان منصوبوں کے باعث مستقبل میں سوکھ سکتا ہے۔ یہ دریا پوری وادی کی زندگی ہے۔ شنید ہے کہ اگلی جنگیں پانی پہ لڑی جائیں گی۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔