آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
اسد درانی کی کتاب: فوج کی کارروائی میں طریقۂ کار کیا ہوگا؟
- مصنف, حمیرا کنول
- عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد
’بیئر ٹریپ جیسی بہت سی کتابیں ہیں جو ایک خاص سانچے میں ایک ایجنڈے کے تحت لکھی گئی ہیں۔ بس یہی میں کہنا چاہتا تھا۔ یہ ایک خاص شخصیت یا دور یا اعانت کو سامنے لانا چاہتا ہے۔ وہ مسئلہ بن جاتا گیا۔ جب وہ چھپی تھی، میرے خیال میں میرے دور میں میرے پاس کوئی آیا اور اس نے کہا دیکھو کیا لکھا ہے۔ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیا ہمیں اس بندے کو پکڑنا چاہیے، کورٹ مارشل کرنا چاہیے یا تردید جاری کرنی چاہیے؟ میں نے کہا اسے یقیناً 20 لوگوں نے پڑھا ہوگا لیکن جیسے ہی ہم کچھ کریں گے اسے 200 لوگ پڑھ لیں گے۔`(جنرل اسد کی کتاب سپائی کرانیکلز سے اقتباس صفحہ 36)
سپائی کرانیکلز کے مصنف جنرل اسد درانی کو 25 سال قبل فوج سے بے دخل کیا گیا تھا۔ اصغر خان کیس میں ان کا نام آنے کے بعد انھیں آئی ایس آئی سے جی ایچ کیو بلوا لیا گیا تھا اور پھر جب دوبارہ یہ سامنے آیا کہ وہ سیاسی امور میں مداخلت کر رہے ہیں تو انھیں قبل از وقت ریٹائر یعنی فوج سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
اب ان کی کتاب کی اشاعت کے بعد پاکستانی فوج نے باضابطہ طور پر اس معاملے میں 'فارمل کورٹ آف انکوائری' کا حکم دے دیا ہے جس کی سربراہی ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل کرے گا۔
یہ انکوائری کس طریقے سے عمل میں آئے گی اور اگر وہ قصوروار قرار پائے تو انھیں زیادہ سے زیادہ کیا سزا ہو سکتی ہے؟ اس بارے میں سابق ایڈجوٹنٹ جنرل لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کہتے ہیں کہ فارمل کورٹ آف انکوائری میں تین لوگ ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق وہ متفقہ طور پر یا اپنے منقسم فیصلے میں اپنی تجاویز دیں گے کہ کیا واقعی اسد درانی کا کوئی عمل کوڈ آف کنڈکٹ یعنی ضابطۂ کار کی خلاف ورزی ہے یا نہیں اور اگر ہے تو اس کی نوعیت کیا ہے اور کتنی سنجیدہ نوعیت کا ہے۔
مزید پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
خیال رہے کہ جنرل اسد درانی کی جانب سے اپنے انڈین ہم منصب سے مل کر کتاب لکھنے کا معاملہ سامنے آیا تو فوجی ترجمان نے ٹویٹ میں لکھا تھا کہ 'اس عمل کو فوجی ضابطۂ کار کی خلاف ورزی کے طور پر لیا گیا ہے جس کا اطلاق حاضر سروس اور ریٹائرڈ تمام فوجی اہلکاروں پر ہوتا ہے۔'
لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کے مطابق اس کے بعد چیف آف آرمی سٹاف اس پر جج ایڈوکیٹ جنرل ڈیپارٹمنٹ سے قانونی رائے لے کر فیصلہ دیں گے کہ کارروائی ہونی چاہیے یا نہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ عموماً اس قسم کے جرم میں نوکری بحال کر کے کورٹ مارشل تو نہیں ہوتا تاہم ضابطے کی خلاف ورزی کی صورت میں پینشن اور مراعات کی واپسی، جرمانہ اور سزا ہو سکتی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’سول حکومت بھی اس پر تحقیق کر سکتی تھی۔۔۔ ابھی بھی اگر سول حکومت فیصلہ کرے کہ اس میں خلاف ورزی ہوئی ہے تو وہ تحقیقات کر سکتی ہے۔‘
فوج کے قانون کے مطابق کوئی بھی ریٹائر ہونے والا فوجی افسر دو سال تک نہ تو کوئی بیان دے سکتا ہے نہ ہی کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لے سکتا ہے لیکن اس کے بعد اس پر کوئی پابندی نہیں ہوتی۔
لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کہتے ہیں کہ اسد درانی نے ضابطہ کار کی خلاف ورزی کی یا نہیں یہ تو انکوائری کے بعد ہی پتہ چلے گا تاہم ضابطہ کار میں یہ موجود ہے کہ اگر سابق آرمی افسر کی حیثیت سے آپ کوئی بیان دینا چاہتے ہیں، تقریر کرنا چاہتے ہیں کسی متنازع معاملے پر بات کرنا چاہتے ہیں یا کتاب لکھنا چاہتے ہیں تو آپ یہ سمجھیں کہ جو آپ لکھ رہے ہیں اس پر سوال کیا جا سکتا ہے تو پھر آپ کو اپنا مسودہ جی ایچ کیو بھجوانا چاہیے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اسد درانی کے قصے میں خرابی یہی نظر آتی ہے کہ وہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب کو مسودہ جی ایچ کیو کو نہیں بھجوایا جس کی وجہ سے کچھ سوالات اٹھ رہے ہیں اور بظاہر انھوں نے ان سوالات کے جوابات اپنے انٹرویو کے دوران نہیں دیے اور وہ مطمئن نہیں کر سکے تو معاملہ کورٹ آف انکوائری میں بھجوا دیا گیا ہے۔
دفاعی مبصرین کا خیال ہے کہ انکوائری کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے لیکن کچھ تجزیہ نگاروں کا جن میں فوج کے سابق افسر کرنل انعام بھی شامل ہیں خیال ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور اسد درانی کو گرفتار کیا جانا چاہیے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کو بھی ماضی قریب میں فوجی افسران کے بیانات کی طرح نظر انداز کر دیا جائے گا۔
'پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا کہ میں نے پاکستان کے تین اڈے امریکہ کے حوالے کر دیے ان کے خلاف فوج نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ راحیل شریف نے کہا کہ ہم نے انگور اڈہ امریکہ کے حوالے کیا لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور عاصم باوجوہ نے اس پر باقاعدہ ٹویٹ کی۔'
’کچھ اوپر سے دباؤ بہت آیا ہے‘
کچھ دفاعی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہوا ہے جس پر بہت سے لوگوں کو تشویش پائی جاتی ہے لیکن بظاہر اس کتاب میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آرہی کہ یہ کہا جا سکے کہ کوئی قومی راز اس میں افشا کیا گیا۔
بریگیڈیئر سعد محمد کا شمار بھی انھیں ماہرین میں ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بظاہر کتاب میں ایسی باتیں نہیں لیکن 'کچھ اوپر سے دباؤ بہت آیا ہے۔ نواز شریف نے بات کی، سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے بات کی۔ ادھر سے بھی دباؤ آیا۔ فوج نے انھیں طلب کیا اور میرے خیال سے وہ اس سے مطمئن نہیں ہوئے۔‘
جنرل طلعت مسعود سمجھتے ہیں کہ کورٹ آف انکوائری کا دائرہ کار بھی بنا دیا گیا ہو گا اور اگر آفیشل سیکرٹ کی خلاف ورزی ہوئی تو ہی کوئی کارروائی ہو گی ورنہ نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ بہت سی چیزیں غیر معمولی ہوتی ہیں لیکن 'اگر اس میں کوئی ایسی چیز غلط نہیں ہے تو میرے خیال میں کوئی حرج نہیں ہے ایک لحاظ سے مثبت پیش رفت بھی ہو سکتی ہے۔ اگر اس یہ اس نظر سے لکھی گئی ہے اور اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جو ملک کو نقصان پہنچائے۔'
جنرل شعیب کہتے ہیں کہ ’ہمارے لوگ یہ نہیں سمجھ رہے کہ ادھر بھی آئی ایس آئی کی طرح ان کے خفیہ ادارے کا چیف تھا ادھر بھی یہی تھا اگر یہ بہت سیریس کام ہے کہ انھوں نے اس سے ملاقات کی یا تھنک ٹینک میں بات کرتے رہے تواس کا بھی کوئی اسی طرح کا تحفظات ہونے چاہیے۔ لیکن انڈیا میں ایسا نہیں ہوا۔ وہاں جس طرح کتاب چھپی وائرل ہوئی اور یہاں کچھ لوگوں نے اسے ایشو کے طور پر اٹھا لیا۔‘
ماہرین اس سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ نواز شریف کے حالیہ بیان کے بعد کے ردعمل اور اسد درانی کی کتاب کے بعد ہونے والی بحث ان دونوں معاملات پر بحث ہو سکتی ہے کہ بقول رضا ربانی یہ کتاب کوئی سویلین لکھتا تو کیا ہوتا۔۔۔۔۔
لیکن ایک سوال کا جواب ماہرین کے پاس بھی نہیں تھا کہ کیا یہ واقعی ممکن ہے کہ دو حریف ملکوں کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسیوں کے سابق سربراہان مل کر کتاب لکھیں ملاقاتیں کریں اور ویزے کی درخواست بھی دے ڈالیں اور ہماری خفیہ ایجنسی بےخبر رہے؟